Tafseer Alssadi Urdu / Arabic

تفسیر سورۂ حجر تفسير آيت: 1 - 5

{730}

تفسیر سورۂ حجر

730 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{730} بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔

730 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر تفسير آيت: 1 - 5

{730} تفسير الآيات: 1 - 5

تفسير آيت: 1 - 5

730 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{730} {الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَقُرْآنٍ مُبِينٍ (1) رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ (2) ذَرْهُمْ يَأْكُلُوا وَيَتَمَتَّعُوا وَيُلْهِهِمُ الْأَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ (3) وَمَا أَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا وَلَهَا كِتَابٌ مَعْلُومٌ (4) مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا يَسْتَأْخِرُونَ (5)}.

الٓرٰ، یہ آیتیں ہیں کتاب اور قرآن واضح کی (1) بسا اوقات چاہیں گے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، کاش کہ وہ ہوتے مسلمان (2) آپ چھوڑیے انھیں ، وہ کھائیں اور فائدہ اٹھائیں اور غفلت میں ڈالے رکھے انھیں (لمبی) امید، پس عنقریب وہ جان لیں گے (3) اور نہیں ہلاک کی ہم نے کوئی بستی مگر اس حال میں کہ اس کے لیے میعاد مقرر تھی (4) نہیں آگے نکل سکتی کوئی امت اپنے (مقررہ) وقت سےاور نہ پیچھے رہ سکتی ہے (5)

730 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{730} {1} يقول تعالى معظِّماً لكتابه مادحاً له: {تلك آياتُ الكتابِ}؛ أي: الآيات الدالَّة على أحسن المعاني وأفضل المطالب، {وقرآنٍ مُبينٍ}: للحقائق بأحسن لفظ وأوضحه وأدلِّه على المقصود.

[1] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب کی تعظیم اور مدح بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ ﴾ ’’یہ کتاب کی آیات ہیں ۔‘‘ یعنی یہ آیات بہترین معانی اور افضل ترین مطالب پر دلالت کرتی ہیں ﴿ وَقُ٘رْاٰنٍ مُّبِیْنٍ ﴾ ’’اور قرآن روشن کی۔‘‘ جو بہترین الفاظ اور اپنے مقصد پر قوی ترین دلائل کے ذریعے سے حقائق کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے اور یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ مخلوق اس کی اطاعت کرے، اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دے اور فرحت و سرور کے ساتھ اس کو قبول کرے۔

730 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{730} {2} وهذا مما يوجب على الخلق الانقياد إليه والتسليم لحكمه وتلقِّيه بالقَبول والفرح والسرور، فأما من قابل هذه النعمة العظيمة بردِّها والكفر بها؛ فإنَّه من المكذِّبين الضالِّين، الذين سيأتي عليهم وقتٌ يتمنَّوْن أنهم مسلمون؛ أي: منقادون لأحكامه، وذلك حين ينكشف الغطاء وتظهرُ أوائل الآخرة ومقدِّمات الموت؛ فإنهم في أحوال الآخرة كلِّها يتمنَّون أنهم مسلمون، وقد فات وقتُ الإمكان، ولكنَّهم في هذه الدُّنيا مغترُّون.

[2] جو کوئی اس عظیم نعمت کو ٹھکراتا ہے اور اس کا انکار کرتا ہے تو وہ گمراہ اور مکذبین میں شمار ہوتا ہے جن پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ وہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے یعنی انھوں نے اس کے احکام کو تسلیم کیا ہوتا اور یہ وہ وقت ہو گا جب ان کی آنکھوں پر سے پردہ ہٹ جائے گا، آخرت کی علامات اور موت کے مقدمات شروع ہو جائیں گے۔ وہ آخرت کے تمام احوال میں تمنا کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے مگر اب وقت ہاتھ سے نکل چکا ہو گا۔ یہ لوگ اس دنیا میں دھوکے میں پڑے رہے۔

730 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{730} {3} فَـ {ذَرْهم يأكلوا ويتمتَّعوا}: بلذاتهم، {ويلههم الأمل}؛ أي: يؤمِّلون البقاء في الدنيا فيلهيهم عن الآخرة، {فسوف يعلمونَ}: أنَّ ما هم عليه باطلٌ، وأنَّ أعمالهم ذهبت خسراناً عليهم، ولا يغترُّوا بإمهال الله تعالى؛ فإنَّ هذه سنته في الأمم.

[3] پس ﴿ ذَرْهُمْ یَ٘اْكُلُوْا وَیَتَمَتَّعُوْا ﴾ ’’چھوڑ دیں ان کو، کھا لیں اور فائدہ اٹھا لیں ‘‘ اپنی لذتوں سے ﴿ وَیُلْهِهِمُ الْاَمَلُ ﴾ ’’اور امید ان کو غفلت میں ڈالے رکھے‘‘ یعنی وہ دنیا میں باقی رہنے کی امید رکھتے ہیں ۔ پس بقاء کی یہ امید انھیں آخرت سے غافل کر دیتی ہے ﴿ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَؔ ﴾ ’’عنقریب ان کو معلوم ہوجائے گا۔‘‘ یعنی اپنے باطل موقف کو عنقریب جان لیں گے اور ان کو معلوم ہو جائے گا کہ ان کے اعمال ان کے لیے محض خسارے کا باعث تھے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت سے دھوکا نہ کھائیں ۔ کیونکہ قوموں کے بارے میں یہ مہلت سنت الٰہی ہے۔

730 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{730} {4} {وما أهلكْنا من قريةٍ}: كانت مستحقةً للعذاب، {إلاَّ ولها كتابٌ معلوم}: مقدَّر لإهلاكها.

[4] ﴿ وَمَاۤ اَهْلَكْنَا مِنْ قَ٘رْیَةٍ ﴾ ’’اور کسی بستی کو ہم نے ہلاک نہیں کیا‘‘ جو کہ عذاب کی مستحق تھی ﴿ اِلَّا وَلَهَا كِتَابٌ مَّعْلُوْمٌ ﴾ ’’مگر اس کا وقت لکھا ہوا مقرر تھا‘‘ یعنی اس کی ہلاکت کا وقت مقرر تھا۔

730 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{730} {5} {ما تسبِقُ من أمَّةٍ أجَلَها وما يستأخِرون}: وإلاَّ؛ فالذنوب لا بدَّ من وقوع أثرها وإن تأخَّر.

[5] ﴿ مَا تَسْبِقُ مِنْ اُمَّؔةٍ اَجَلَهَا وَمَا یَسْتَاْخِرُوْنَ۠ ﴾ ’’کوئی قوم اپنے وقت مقررہ سے پہلے ہلاک ہو سکتی ہے نہ پیچھے رہ سکتی ہے۔‘‘ ورنہ خواہ کتنی ہی تاخیر ہو گناہوں کی تاثیر کا واقع ہونا لابدی ہے۔

730 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر تفسير آيت: 6 - 9

{731} تفسير الآيات: 6 - 9

تفسير آيت: 6 - 9

731 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{731} {وَقَالُوا يَاأَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ (6) لَوْمَا تَأْتِينَا بِالْمَلَائِكَةِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (7) مَا نُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ إِلَّا بِالْحَقِّ وَمَا كَانُوا إِذًا مُنْظَرِينَ (8) إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (9)}.

اور انھوں نے کہا، اے وہ شخص! کہ نازل کیا گیا ہے اوپر اس کے یہ قرآن، یقینا تو تو دیوانہ ہے (6) کیوں نہیں لے آتا تو ہمارے پاس فرشتے، اگر ہے تو سچوں میں سے؟(7) نہیں نازل کرتے ہم فرشتے مگر ساتھ حق (عذاب) کےاور نہ ہوں گے وہ (کافر) اس وقت مہلت دیے گئے(8) بے شک ہم ہی نے نازل کیا ہے یہ قرآن اور بے شک ہم ہی اس کے محافظ ہیں (9)

731 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{731} {6} أي: وقال المكذبون لمحمِّد - صلى الله عليه وسلم - استهزاءً وسخريةً: {يا أيها الذي نُزِّلَ عليه الذِّكر}: على زعمك، {إنَّك لمجنون}: إذ تظنُّ أنا سنتَّبعك ونترك ما وجدنا عليه آباءنا لمجرَّد قولك.

[6] رسول اللہe کی تکذیب کرنے والے کفار نے تمسخر اور استہزا کے طور پر کہا۔ ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ ﴾ ’’اے وہ شخص کہ اترا ہے اس پر قرآن‘‘ یعنی تیرے زعم کے مطابق ﴿ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌؔ ﴾ ’’بے شک تو دیوانہ ہے‘‘ کیونکہ تو سمجھتا ہے کہ محض تیرے کہنے پر ہم تیری پیروی کرنے لگ جائیں گے اور اس مذہب کو چھوڑ دیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔

731 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{731} {7 ـ 8} {لو ما تأتينا بالملائكةِ}: يشهدون لك بصحَّة ما جئت به، {إن كنتَ من الصادقين}: فلما لم تأت بالملائكةِ؛ فلستَ بصادق. وهذا من أعظم الظُّلم والجهل: أما الظُّلم؛ فظاهر؛ فإنَّ هذا تجرؤ على الله وتعنُّت بتعيين الآيات التي لم يخترْها، وحَصَلَ المقصودُ والبرهان بدونها من الآيات الكثيرة الدالَّة على صحَّة ما جاء به. وأما الجهلُ؛ فإنَّهم جهلوا مصلحتهم من مضرَّتهم؛ فليس في إنزال الملائكة خيرٌ لهم، بل لا ينزل الله الملائكة إلاَّ بالحقِّ الذي لا إمهال على مَنْ لم يتَّبعه وينقد له. {وما كانوا إذاً}؛ أي: حين تنزل الملائكة إن لم يؤمنوا ولن يؤمنوا، {مُنْظَرين}؛ أي: بمُمْهَلينَ، فصار طلبهم لإنزال الملائكة تعجيلاً لأنفسهم بالهلاك والدمار؛ فإن الإيمان ليس في أيديهم، وإنما هو بيد الله، {ولو أنَّنا نزَّلنا إليهم الملائكة وكلَّمهم الموتى وحَشَرْنا عليهم كلَّ شيء قُبُلاً ما كانوا لِيؤمنوا إلاَّ أن يشاء الله، ولكنَّ أكثرَهم يجهلونَ}.

[8,7] ﴿ لَوْ مَا تَاْتِیْنَا بِالْمَلٰٓىِٕكَةِ ﴾ ’’کیوں نہیں لے آتا تو ہمارے پاس فرشتوں کو‘‘ جو اس چیز کی صداقت اور صحت کی گواہی دیں جو تو لے کر آیا ہے ﴿ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’اگر تو سچا ہے‘‘ اور چونکہ تیری تائید کے لیے تیرے ساتھ فرشتے نہیں آئے اس لیے تو سچا نہیں ہے اور ان کا یہ کہنا سب سے بڑا ظلم اورسب سے بڑی جہالت ہے۔ رہا اس کا ظلم ہونا تو یہ صاف ظاہر ہے کیونکہ معین معجزات کا مطالبہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں بہت بڑی جسارت اور محض تعنت (بے جا سختی) ہے حالانکہ ان معین معجزات کے بغیر بھی بہت سی نشانیوں کے ذریعے سے دلیل اور برہان کا مقصد حاصل ہو جاتا ہے جو اس چیز کی صحت اور اس کے حق ہونے پر دلالت کرتی ہیں … اور رہی جہالت تو وہ اپنے مصالح اور نقصان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، پس فرشتوں کو نازل کرنے میں ان کے لیے کوئی بھلائی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جب فرشتے نازل کرتا ہے تو حق کے ساتھ نازل کرتا ہے اور اس کے بعد ان لوگوں کو کوئی مہلت نہیں دی جاتی جو حق کی پیروی نہیں کرتے۔ ﴿ وَمَا كَانُوْۤا اِذًا ﴾ ’’اور اس وقت نہ ملے گی‘‘ یعنی فرشتے کے نازل ہونے کے بعد اگر وہ ایمان نہ لائیں … اور وہ ایمان نہیں لائیں گے ﴿ مُنْظَ٘رِیْنَ ﴾ ’’ان کو مہلت‘‘ یعنی ان کو مہلت نہیں دی جائے گی۔ فرشتوں کے نازل ہونے کا مطالبہ، ان کی فوری ہلاکت اور تباہی کا باعث بن جائے گا۔ کیونکہ ایمان ان کے اختیار میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَاۤ اِلَیْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةَ وَؔكَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَحَشَرْنَا عَلَیْهِمْ كُ٘لَّ٘ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ یَجْهَلُوْنَ ﴾ (الانعام:6؍ 111) ’’اگر ہم ان پر فرشتوں کو بھی نازل کر دیتے۔ مردے ان سے ہم کلام ہوتے اور ہر چیز ان کے سامنے اکٹھی کر دیتے تب بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے، الا یہ کہ اللہ چاہتا، مگر ان میں سے اکثر لوگ جاہل ہیں ۔‘‘

731 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{731} {9} ويكفيهم من الآيات إنْ كانوا صادقين هذا القرآن العظيم، ولهذا قال هنا: {إنَّا نحنُ نزَّلْنا الذِّكْرَ}؛ أي: القرآن الذي فيه ذكرى لكلِّ شيء من المسائل والدلائل الواضحة، وفيه يتذكَّر مَنْ أراد التذكُّر. {وإنَّا له لحافظونَ}؛ أي: في حال إنزاله وبعد إنزاله؛ ففي حال إنزاله حافظون له من استراق كلِّ شيطان رجيم، وبعد إنزاله أودعه الله في قلب رسولِهِ واستَوْدَعَهُ في قلوب أمَّته وحفظَ الله ألفاظَه من التغيير فيها والزيادة والنقص ومعانيه من التبديل؛ فلا يحرِّف محرِّفٌ معنى من معانيه إلاَّ وقيَّض الله له من يبيِّن الحقَّ المبين، وهذا من أعظم آيات الله ونعمه على عباده المؤمنين، ومن حفظه أنَّ الله يحفظُ أهله من أعدائهم، ولا يسلِّط عليهم عدوًّا يجتاحُهم.

[9] اگر یہ اپنی بات میں سچے ہوتے تو قرآن عظیم کی یہ آیات ہی ان کے لیے کافی ہوتیں ۔بنابریں اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا: ﴿ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ ﴾ ’’بے شک ہم نے اتاری ہے یہ نصیحت‘‘ یعنی قرآن جس میں ہر چیز کا تذکرہ ہے ، مثلاً: مسائل اور واضح دلائل وغیرہ اور جو کوئی نصیحت حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اس سے نصیحت حاصل کر سکتا ہے۔ ﴿ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰؔفِظُوْنَؔ ﴾ ’’اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ‘‘ یعنی اس کو نازل کرنے کی حالت میں ہر شیطان مردود کی چوری سے ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اس کو نازل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe کے قلب میں اور آپ کی امت کے قلوب میں ودیعت کر دیا۔ نیز اس کے الفاظ کو تغیر و تبدل، کمی بیشی اور اس کے معانی کو ہر قسم کی تبدیلی سے محفوظ کر دیا۔ تحریف کرنے والا جب کبھی اس کے معنی میں تحریف کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو مقرر فرما دیتا ہے جو حق مبین کو واضح کر دیتا ہے۔ قرآن کی حقانیت کی یہ سب سے بڑی دلیل ہے اور اللہ تعالیٰ کی اپنے مومن بندوں پر سب سے بڑی نعمت ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کی حفاظت یہ ہے کہ وہ اہل قرآن کو ان کے دشمنوں سے محفوظ رکھتا ہے اور وہ ان پر کسی ایسے دشمن کو مسلط نہیں کرتا جو ان کو ہلاک کر ڈالے۔

731 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر تفسير آيت: 10 - 13

{732} تفسير الآيات:: 10 - 13

تفسير آيت: 10 - 13

732 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{732} {وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ (10) وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (11) كَذَلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ (12) لَا يُؤْمِنُونَ بِهِ وَقَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ (13)}.

اور البتہ تحقیق بھیجے ہم نے آپ سے پہلے بھی (کئی رسول) پہلے گروہوں میں (10) اور نہیں آتا تھا ان کے پاس کوئی رسول مگر تھے وہ اس کے ساتھ استہزاء کرتے(11) اسی طرح ہم داخل کرتے ہیں اس (استہزاء) کو دلوں میں مجرموں کے (12) (چنانچہ ) نہیں ایمان لاتے وہ ساتھ اس (قرآن) کےاور تحقیق گزر چکا ہے (یہ) طریقہ پہلے لوگوں کا (13)

732 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{732} {10} يقول تعالى لنبيِّه إذ كذبه المشركون: لم يزلْ هذا دأب الأمم الخالية والقرون الماضية، فقد أرْسَلْنا {قبلك في شيع الأولين}؛ أي: فرقهم وجماعتهم رسلاً.

[10] جب مشرکین نے رسول اللہe کی تکذیب کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا کہ گزری ہوئی قوموں اور قرون ماضیہ میں مشرکین کا اپنے انبیاء کے ساتھ یہی رویہ رہا ہے۔ ﴿ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِیْ شِیَعِ الْاَوَّلِیْ٘نَ ﴾ ’’اور ہم نے آپ سے پہلے لوگوں میں رسول بھیجے تھے۔‘‘ یعنی گزرے ہوئے گروہوں اور جماعتوں میں رسول مبعوث کر چکے ہیں ۔

732 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{732} {11} {وما يأتيهم من رسول}: يدعوهم إلى الحقِّ والهدى، {إلاَّ كانوا به يستهزئون}.

[11] ﴿ وَمَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ ﴾ ’’اور جو بھی رسول ان کے پاس آتا‘‘ جو ان کو حق اور ہدایت کی طرف دعوت دیتا۔ ﴿ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ ﴾ ’’تو وہ (مشرکین) ان کا تمسخر ہی اڑاتے تھے۔‘‘

732 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{732} {12 ـ 13} {كذلك نَسْلُكُه}؛ أي: ندخل التكذيب {في قلوب المجرمين}؛ أي: الذين وصفهم الظلم والبَهْت، عاقبناهم لما تشابهت قلوبُهم بالكفر والتكذيب تشابهت معاملتهم لأنبيائهم ورسلهم بالاستهزاء والسخرية وعدم الإيمان، ولهذا قال: {لا يؤمنون بِهِ وقد خَلَتْ سنَّةُ الأولين}؛ أي: عادة الله فيهم بإهلاك مَنْ لم يؤمنْ بآيات الله.

[13,12] ﴿۠ كَذٰلِكَ نَسْلُكُهٗ ﴾ ’’اسی طرح داخل کر دیتے ہیں ہم اس کو‘‘ یعنی جھٹلانے کو ﴿ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَ ﴾ ’’گناہ گاروں کے دلوں میں ‘‘ ہم نے ان کو یہ سزا دی، جب ان کے دل کفروتکذیب میں پچھلے لوگوں کے مشابہ ہو گئے اور اپنے رسولوں اور پیغمبروں کے ساتھ استہزاء و تمسخر اور عدم ایمان کے بارے میں بھی ان کا معاملہ ان کے مشابہ ہو گیا، یعنی وہ لوگ جن کا وصف ظلم اور بہتان طرازی تھا۔ ہم نے ان کو اس بنا پر سزا دی کہ ان کے دلوں نے کفر اور تکذیب کی مشابہت اختیار کی، اپنے انبیاء کے معاملے میں تشابہ کا شکار ہو گئے، اپنے رسولوں کے ساتھ ان کا یہ رویہ استہزاء، تمسخر اور عدم ایمان کا تھا۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَقَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْاَوَّلِیْ٘نَ ﴾ ’’وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے اور ہوتی آئی ہے رسم پہلوں کی‘‘ یعنی ان کے بارے میں عادت الٰہی یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتا اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کر دیتا ہے۔

732 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر تفسير آيت: 14 - 15

{733} تفسير الآيات:: 14 - 15

تفسير آيت: 14 - 15

733 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{733} {وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِنَ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ (14) لَقَالُوا إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ (15)}.

اور اگر کھول دیں ہم اوپر ان کے ایک دروازہ آسمان کا، پس ہو جائیں وہ اس میں چڑھنے والے (14) تو بھی وہ کہیں گے یقینا بند کر دی گئی ہیں نظریں ہماری بلکہ ہم لوگ ہیں جادو کیے ہوئے (15)

733 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{733} {14 ـ 15} أي: ولو جاءتهم كلُّ آية عظيمة؛ لم يؤمنوا وكابروها، فَـ {لَو فَتَحْنا عليهم باباً من السماء}: فصاروا يعرجون فيه ويشاهدونه عياناً بأنفسهم؛ لقالوا من ظلمهم وعنادهم منكِرين لهذه الآية: {إنَّما سُكِّرَتْ أبصارُنا}؛ أي: أصابها سكر وغشاوة حتى رأينا ما لم نَرَ. {بل نحنُ قومٌ مسحورون}؛ أي: ليس هذا بحقيقة، بل هذا سحرٌ. وقوم وصلت بهم الحال إلى هذا الإنكار؛ فإنَّهم لا مطمع فيهم ولا رجاء.

[15,14] یعنی اگر ان کے پاس کوئی بڑا سا معجزہ بھی آ جائے تو یہ حق کا انکار کر دیں گے اور ہرگز ایمان نہیں لائیں گے چنانچہ فرمایا: ﴿ وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَ٘ابًا مِّنَ السَّمَآءِ ﴾ ’’اگر کھول دیں ہم ان پر دروازہ آسمان سے‘‘ اور وہ خود اس دروازے کا عیاں طور پر مشاہدہ کر لیں اس دروازے میں سے اوپر چڑھ بھی جائیں تب بھی وہ اپنے ظلم و عناد کی بنا پر اس معجزے کا انکار کرتے ہوئے کہیں گے ﴿ اِنَّمَا سُكِّ٘رَتْ اَبْصَارُنَا ﴾ ’’باندھ دیا گیا ہے ہماری نگاہوں کو‘‘ یعنی ہماری آنکھوں پر نشے کا پردہ آ گیا، حتی کہ ہم نے وہ کچھ دیکھا جو ہم دیکھ نہ سکتے تھے۔ ﴿ بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ ﴾ ’’بلکہ ہم لوگوں پر جادو کر دیا گیا ہے‘‘ یعنی یہ حقیقت نہیں ہے بلکہ جادو ہے۔ اور جو قوم انکار کی اس حالت کو پہنچ جائے تو ان لوگوں میں اصلاح کی کوئی امید باقی نہیں رہتی، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان آیات کا ذکر فرمایا جو انبیاء و رسل کے لائے ہوئے حق پر دلالت کرتی ہیں چنانچہ فرمایا:

733 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر تفسير آيت: 16 - 20

{734} تفسير الآيات:: 16 - 20

تفسير آيت: 16 - 20

734 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{734} {وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ (16) وَحَفِظْنَاهَا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ رَجِيمٍ (17) إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُبِينٌ (18) وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ (19) وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ وَمَنْ لَسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِينَ (20)}

اور البتہ تحقیق بنائے ہم نے آسمان میں برج اور خوب صورت کردیا ہم نے اسے دیکھنے والوں کے لیے (16) اور حفاظت کی ہے ہم نے اس کی ہر شیطان مردود سے (17) مگر جو چوری چھپے لگائے کان (اور کچھ سن لے) تو پیچھے لگتا ہے اس کے شعلہ ظاہر (دہکتا ہوا) (18) اور زمین، پھیلایا ہم نے اسےاور ڈال (گاڑ) دیے ہم نے اس میں مضبوط پہاڑاور ہم نے اگائی اس میں ہر چیز سے مناسب مقدار (19) اور بنائے ہم نے تمھارے لیے اس میں گزر ان کے اسباب اور ان کے لیے (بھی) کہ نہیں ہو تم واسطے ان کے روزی رساں (20)

734 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{734} {16} يقول تعالى مبيناً كمال اقتداره ورحمته بخلقه: {ولقد جَعَلْنا في السماء بروجاً}؛ أي: نجوماً كالأبراج والأعلام العظام يُهتدى بها في ظُلمات البرِّ والبحر، {وزيَّنَّاها للناظرين}: فإنَّه لولا النجوم؛ لما كان للسماء هذا المنظر البهي والهيئة العجيبة، وهذا مما يدعو الناظرين إلى التأمُّل فيها والنظر في معانيها والاستدلال بها على باريها.

[16] اللہ تعالیٰ اپنے کامل اقتدار اور مخلوق پر اپنی رحمت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا ﴾ ’’اور ہم نے بنائے ہیں آسمان میں برج‘‘ یعنی ہم نے ستاروں کو برجوں کی مانند بنایا اور انھیں بڑی علامتیں بنایا جن کے ذریعے سے بحروبر کی تاریکیوں میں راستے تلاش کیے جاتے ہیں ﴿ وَّزَیَّنّٰهَا لِلنّٰ٘ظِرِیْنَ ﴾ ’’اور خوب صورت بنایا ہے اس کو دیکھنے والوں کے لیے‘‘ اگر ستارے نہ ہوتے تو آسمان کا منظر اتنا خوبصورت اور اس کی ہیئت اتنی تعجب خیز نہ ہوتی اور یہ چیز دیکھنے والوں کو ان پر تدبر، ان کے معانی میں غوروفکر اور ان کے ذریعے سے ان کے پیدا کرنے والے پر استدلال کی دعوت دیتی ہے۔

734 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{734} {17} {وحَفِظناها من كلِّ شيطان رجيم}: إذا استرق السمع؛ اتَّبعته الشهبُ الثواقب، فبقيت السماء ظاهرها مجمّلٌ بالنجوم النيرات، وباطنها محروسٌ ممنوعٌ من الآفات.

[17] ﴿وَحَفِظْنٰهَا مِنْ كُ٘لِّ شَ٘یْطٰ٘نٍ رَّجِیْمٍ ﴾ ’’اور ہم نے اس کی حفاظت کی ہر شیطان مردود سے‘‘ جب وہ سن گن لینے کی کوشش کرتا ہے تو شہاب ثاقب اس کا پیچھا کرتے ہیں اور یوں آسمان شیطان کی دست برد سے محفوظ ہے۔ آسمان کا ظاہری حصہ روشن ستاروں کے ذریعے سے خوبصورتی سے سجا ہوا ہے اور اس کا باطنی حصہ آفتوں سے محفوظ کر دیا گیا ہے۔

734 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{734} {18} {إلا من استرق السمع}؛ أي: [إلاّ] في بعض الأوقات قد يسترق بعضُ الشياطين السمع بخفية واختلاس. {فأتْبَعَهُ شهابٌ مبينٌ}؛ أي: بيِّن منير يقتله أو يخبله؛ فربما أدركه الشهاب قبل أن يوصِلَها الشيطان إلى وليِّه فينقطع خبر السماء عن الأرض، وربَّما ألقاها إلى وليِّه قبل أن يدرِكَه الشهاب، فيضمُّها، ويكذبُ معها مائة كذبة، ويستدلُّ بتلك الكلمة التي سُمعت من السماء.

[18] ﴿ اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ ﴾ ’’مگر جو چوری سے سن بھاگا‘‘ یعنی بعض اوقات، کبھی کبھار کوئی شیطان سن گن لینے کی کوشش کرتا ہے ﴿ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِیْنٌ﴾ ’’تو چمکتا ہوا انگارا اس کے پیچھے لپکتا ہے۔‘‘ یعنی ایک روشن ستارہ اس کا پیچھا کر کے اس کو قتل کر دیتا ہے یا اسے سن گن لینے سے روک دیتا ہے اور کبھی کبھی یہ شہاب ثاقب اس شیطان کو اپنے دوست کے پاس پہنچنے سے پہلے جا لیتا ہے اور آسمان کی خبر زمین پر جانے سے روک دیتا ہے۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ شہاب ثاقب کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ آسمانی خبر اپنے دوست کو القا کر دیتا ہے۔ پس وہ شخص اس میں سو جھوٹ ملا کر بیان کرتا ہے اور وہ کلام جو اس نے آسمان سے سنا ہوتا ہے اس سے استدلال کرتا ہے۔

734 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{734} {19} {والأرض مددناها}؛ أي: وسعناها سعة يتمكَّن الآدميون والحيوانات كلُّها من الامتداد بأرجائها والتناول من أرزاقها والسكونِ في نواحيها. {وألقَيْنا فيها رواسيَ}؛ أي: جبالاً عظاماً تحفظ الأرض بإذن الله أن تميدَ وتثبِّتها أن تزول. {وأنبَتْنا فيها من كلِّ شيءٍ موزونٍ}؛ أي: نافع متقوَّم يضطرُّ إليه العباد والبلاد ما بين نخيل وأعناب وأصناف الأشجار وأنواع النبات والمعادن.

[19] ﴿ وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا ﴾ ’’اور زمین کو ہم نے پھیلایا‘‘ یعنی ہم نے زمین کو نہایت وسیع اور کشادہ بنایا ہے تاکہ انسانوں اور حیوانوں کی اس وسیع و عریض زمین کے کناروں تک رسائی، اس سے وافر مقدار میں رزق کا حصول اور اس کے اطراف و جوانب میں سکونت آسان ہو۔ ﴿ وَاَلْقَیْنَا فِیْهَا رَوَاسِیَ ﴾ ’’اور اس پر پہاڑ رکھ دیے۔‘‘ یعنی زمین پر بڑے بڑے پہاڑ رکھ دیے جو اللہ کے حکم سے زمین کی حفاظت کرتے ہیں کہ کہیں وہ جھک نہ جائے اور وہ زمین کو جمائے رکھتے ہیں کہ کہیں وہ ڈھلک نہ جائے۔ ﴿ وَاَنْۢـبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُ٘لِّ شَیْءٍ مَّوْزُوْنٍ ﴾ ’’اور اگائی اس میں ہر چیز اندازے سے‘‘ یعنی فائدہ مند اور درست چیز جس کے لوگ اور بستیاں ضرورت مند ہوتی ہیں ، مثلاً: کھجور، انگور، مختلف اصناف کے درخت، انواع و اقسام کی نباتات اور معدنیات۔

734 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{734} {20} {وجعلنا لكم فيها معايش}: من الحرث ومن الماشية ومن أنواع المَكاسب والحِرَف، {ومَنْ لستم له برازقين}؛ أي: أنعمنا عليكم بعبيدٍ وإماءٍ وأنعامٍ لنفعكم ومصالحكم، وليس عليكم رزقُها، بل خوَّلكم الله إيَّاها، وتكفَّل بأرزاقها.

[20] ﴿ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِیْهَا مَعَایِشَ ﴾ ’’اور بنا دیے تمھارے لیے اس میں روزی کے اسباب‘‘ یعنی کھیتی باڑی، مویشیوں اور مختلف اقسام کے پیشوں اور دستکاریوں کے ساتھ تمھاری روزی وابستہ کی ﴿ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَهٗ بِرٰؔزِقِـیْنَ ﴾ ’’اور ایسی چیزیں جن کو تم روزی نہیں دیتے‘‘ یعنی ہم نے تمھارے فائدے اور تمھارے مصالح کے لیے تمھیں غلام، لونڈیاں اور مویشی عطا کیے جن کا رزق تمھارے ذمے نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمھیں عطا کیا اور ان کے رزق کی کفالت اپنے ذمے لی۔

734 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر تفسير آيت: 21

{735} تفسير الآية:: 21

تفسير آيت: 21

735 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{735} {وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ (21)}

اور نہیں ہے کوئی چیز مگر ہمارے پاس خزانے ہیں اس کےاور نہیں اتارتے ہم اس کو مگر ساتھ اندازے مقرر کے (21)

735 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{735} {21} أي: جميع الأرزاق وأصناف الأقدار لا يملِكُها أحدٌ إلاَّ الله؛ فخزائِنُها بيده، يعطي مَن يشاء ويمنع مَن يشاء بحسب حكمته ورحمته الواسعة. {وما ننزِّلُه}؛ أي: المقدَّر من كلِّ شيء من مطر وغيره، {إلاَّ بقدرٍ معلوم}: فلا يزيدُ على ما قدَّره الله، ولا ينقص منه.

[21] یعنی ہر قسم کا رزق اور ہر قسم کی تقدیر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے قبضۂ اختیار میں نہیں ، رزق کے خزانے اسی کے ہاتھ میں ہیں وہ اپنی حکمت اور بے کراں رحمت کے مطابق جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے محروم کر دیتا ہے ﴿ وَمَا نُنَزِّلُهٗۤ ﴾ ’’اور نہیں اتارتے ہم اس کو‘‘ یعنی ہر مقررہ چیز، جیسے بارش وغیرہ ﴿ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ ﴾ ’’مگر معین اندازے پر‘‘ یعنی اس کی جو مقدار اللہ تعالیٰ نے مقرر کر دی ہے، اس سے زیادہ ہوتی ہے نہ اس سے کم ہوتی ہے۔

735 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر تفسير آيت: 22

{736} تفسير الآية:: 22

تفسير آيت: 22

736 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{736} {وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَسْقَيْنَاكُمُوهُ وَمَا أَنْتُمْ لَهُ بِخَازِنِينَ (22)}

اور بھیجیں ہم نے ہوائیں بوجھل، پس نازل کیا ہم نے آسمان سے پانی، پھر پلایا ہم نے تمھیں وہ (پانی)اور نہیں ہو تم اس (پانی) کا ذخیرہ کرنے والے (22)

736 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{736} {22} أي: وسخَّرنا الرياح رياح الرحمة تُلْقِحُ السحاب كما يُلْقِحُ الذكر الأنثى، فينشأ عن ذلك الماء بإذن الله، فيسقيه الله العبادَ ومواشيَهم وأرضَهم، ويُبقي في الأرض مدَّخراً لحاجاتهم وضروراتهم ما هو مقتضى قدرته ورحمته. {وما أنتم له بخازِنينَ}؛ أي: لا قدرة لكم على خزنِهِ وادِّخاره، ولكن الله يخزِنُه لكم ويَسْلُكُه ينابيع في الأرض رحمةً بكم وإحساناً إليكم.

[22] ہم نے ہواؤں ، یعنی رحمت کی ہواؤں کو مسخر کیا ہے جو بادلوں کو بارآور کرتی ہیں جیسے نر مادہ کو بارآور کرتا ہے۔ ان بادلوں سے، اللہ تعالیٰ کے حکم سے پانی نازل ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ بندوں کو، ان کے مویشیوں اور زمینوں کو سیراب کرتا ہے اور باقی پانی زمین میں ذخیرہ ہو جاتا ہے، وہ ان کی حاجات و ضروریات میں کام آتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت کا تقاضا ہے۔ ﴿ وَمَاۤ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰؔزِنِـیْنَ ﴾ ’’اور تم تو اس کا خزانہ نہیں رکھتے۔‘‘ یعنی تمھیں یہ قدرت حاصل نہیں کہ تم پانی کو جمع کر کے اس پانی کا ذخیرہ کر سکو بلکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو تمھارے لیے اس کے خزانے جمع کرتا ہے پھر چشموں کی صورت میں زمین پر بہا دیتا ہے یہ اس کی تم پر رحمت اور احسان ہے۔

736 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر تفسير آيت: 23 - 25

{737} تفسير الآيات:: 23 - 25

تفسير آيت: 23 - 25

737 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{737} {وَإِنَّا لَنَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ (23) وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ (24) وَإِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَحْشُرُهُمْ إِنَّهُ حَكِيمٌ عَلِيمٌ (25)}

اور بلاشبہ ہم ہی زندہ کرتے اور مارتے ہیں اور ہم ہی وارث ہیں (23)اور البتہ تحقیق ہم جانتے ہیں ان لوگوں کو جو پہلے گزر چکے ہیں تم میں سےاور البتہ تحقیق جانتے ہیں ان لوگوں کو (بھی) جو پیچھے رہنے والے ہیں (24) اور بے شک آپ کا رب، وہی اکٹھا کرے گا انھیں ، بلاشبہ وہ بڑی حکمت والا، خوب جاننے والا ہے (25)

737 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{737} {23 ـ 25} أي: هو وحده لا شريك له الذي يحيي الخلق من العدم بعد أن لم يكونوا شيئاً مذكوراً، ويميتهم لآجالهم التي قدرها، {ونحن الوارثون}؛ كقوله: {إنا نحنُ نَرِثُ الأرضَ ومَنْ عليها وإلينا يُرْجَعون}: وليس ذلك بعزيز ولا ممتنع على الله؛ فإنه تعالى يعلم المستقدِمين من الخلق والمستأخِرين منهم، ويعلم ما تَنْقُصُ الأرض منهم وما تفرِّقُ من أجزائهم، وهو الذي قدرتُهُ لا يعجِزُها معجِزٌ، فيعيد عباده خلقاً جديداً، ويحشُرُهم إليه. {إنَّه حكيمٌ}: يضع الأشياء مواضعها، وينزِلُها منازِلَها، ويجازي كلَّ عامل بعمله: إن خيراً؛ فخير، وإن شرًّا؛ فشر.

[25-23] یہ اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے جو تمام خلائق کو عدم سے وجود میں لاتا ہے حالانکہ وہ اس سے قبل کچھ بھی نہ تھے اور ان کی مدت مقررہ پوری ہونے کے بعد ان کو موت دیتا ہے۔ ﴿ وَنَحْنُ الْوٰرِثُ٘وْنَ ﴾ ’’اور ہم ہی ہیں پیچھے رہنے والے‘‘ اللہ کا یہ ارشاد اس آیت کریمہ کی مانند ہے ﴿ اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَمَنْ عَلَیْهَا وَ اِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ﴾ (مریم: 19؍40) ’’ہم ہی زمین کے وارث ہوں گے اور سب ہماری ہی طرف لوٹائے جائیں گے۔‘‘ اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کے لیے مشکل اور محال نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ پہلے لوگوں کو بھی جانتا ہے اور اسے آنے والے لوگوں کا بھی علم ہے، زمین ان میں جو کمی واقع کر رہی ہے اور ان کے اجزا کو بکھیر رہی ہے، سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس کے دست قدرت کو کوئی چیز عاجز نہیں کر سکتی۔ پس وہ اپنے بندوں کو دوبارہ نئے سرے سے پیدا کرے گا پھر ان کو اپنے حضور اکٹھا کرے گا ﴿اِنَّهٗ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ ﴾ ’’وہ دانا، جاننے والا ہے۔‘‘ یعنی وہ تمام اشیاء کو ان کے لائق شان مقام پر رکھتا ہے اور ان کے لائق حال مقام پر نازل کرتا ہے، وہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا، اگر اچھا عمل ہو گا تو اچھی جزا ہو گی اور اگر برا عمل ہو گا تو بری جزا ہو گی۔

737 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر تفسير آيت: 26 - 44

{738} تفسير الآيات:: 26 - 44

تفسير آيت: 26 - 44

738 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{738} {وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ (26) وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ (27) وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ (28) فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ (29) فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ (30) إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى أَنْ يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ (31) قَالَ يَاإِبْلِيسُ مَا لَكَ أَلَّا تَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ (32) قَالَ لَمْ أَكُنْ لِأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ (33) قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ (34) وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ (35) قَالَ رَبِّ فَأَنْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (36) قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ (37) إِلَى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ (38) قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (39) إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ (40) قَالَ هَذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ (41) إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ (42) وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ (43) لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ لِكُلِّ بَابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ (44)}

اور البتہ تحقیق پیدا کیا ہم نے انسان کو بجنے والی مٹی سے (، یعنی ) گارے سڑے ہوئے سے (26) اور جن، پیدا کیا ہم نے اسے اس سے پہلے، سخت حرارت والی آگ سے (27) اور (یاد کرو!) جب کہا آپ کے رب نے فرشتوں سے، بے شک میں پیدا کرنے والا ہوں ایک بشر (آدم) بجنے والی مٹی سے (، یعنی ) گارے سڑے ہوئے سے (28) پس جب درست کر لوں میں اس کو اور پھونک دوں میں اس میں اپنی روح تو گر پڑناتم اس کے آگے سجدہ کرتے ہوئے (29) پس سجدہ کیا فرشتوں نے سب کے سب نے اکٹھے (30) سوائے ابلیس کے، اس نے انکار کیا (اس سے) کہ ہو وہ ساتھ سجدہ کرنے والوں کے (31) اللہ نے کہا، اے ابلیس! کیا ہے تجھے اس (بات میں ) کہ نہ ہو تو ساتھ سجدہ کرنے والوں کے؟ (32) اس نے کہا، نہیں ہوں میں کہ سجدہ کروں (ایسے) بشر کو کہ پیدا کیا تو نے اس کو بجنے والی مٹی سے (، یعنی ) گارے سڑے ہوئے سے (33) اللہ نے کہا، پس تو نکل جا اس سے، پس بلاشبہ تو مردود ہے (34) اور بے شک تجھ پر لعنت ہے روز جزا تک (35) اس نے کہا، اے میرے رب! پس تو مہلت دے مجھے اس دن تک کہ وہ (لوگ) دوبارہ اٹھائے جائیں (36) اللہ نے کہا، پس بے شک تو مہلت دیے گئے لوگوں سے ہے (37) اس دن تک کہ (اس کا) وقت مقرر ہے (38) اس نے کہا، اے رب! بہ سبب اس کے کہ گمراہ کیا تو نے مجھ کو، یقینا سنوار کر دکھاؤں گا میں ان کو (گناہ) زمین میں اور البتہ ضرور گمراہ کروں گا میں ان کو سب کو (39) سوائے تیرے (ان) بندوں کے، ان میں سے، جو چنے ہوئے ہیں (40) اللہ نے کہا، یہی راستہ ہے مجھ تک سیدھا (41) بے شک میرے بندے، نہیں ہے واسطے تیرے اوپر ان کے کوئی غلبہ مگر جس نے پیروی کی تیری گمراہوں میں سے (42) اور بے شک جہنم ہی وعدہ گاہ ہے ان کی سب کی (43) اس (جہنم) کے سات دروازے ہیں ، واسطے ہر ایک دروازے کے ان (گمراہوں ) میں سے ایک حصہ ہے الگ کیا ہوا (44)

738 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{738}

اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے باپ حضرت آدمu پر اپنی نعمت اور اپنے احسان کا ذکر کرتا ہے، حضرت آدمu کا اپنے دشمن ابلیس کے ساتھ جو معاملہ ہوا اس کو بھی بیان کرتا ہے اور اس ضمن میں ہمیں ابلیس کے شر اور فتنہ سے ڈراتا ہے، چنانچہ فرمایا:

738 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{738} {26} {ولقد خلقنا الإنسان}؛ أي: آدم عليه السلام {من صَلْصال من حَمَإٍ مسنونٍ}؛ أي: من طين قد يبس بعدما خُمِّرَ حتى صار له صَلْصَلَةٌ وصوتٌ كصوت الفخار. والحمأ المسنون: الطينُ المتغيِّر لونه وريحه من طول مكثه.

[26] ﴿ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ ﴾ ’’ہم نے انسان کو پیدا کیا۔‘‘ یعنی آدمu کو پیدا کیا ﴿ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ﴾ ’’کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے‘‘ یعنی خمیر شدہ گارے سے پیدا کیا جس میں خشک ہونے کے بعد کھنکھناہٹ کی آواز پیدا ہو جاتی ہے۔ جیسے پکی ہوئی ٹھیکری کی آواز۔ (اَلْحَمَاِ الْمَسْنُون) اس گارے کو کہتے ہیں ، جس کا رنگ اور بو، طویل عرصے تک پڑا رہنے کی وجہ سے بدل گئے ہوں ۔

738 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{738} {27} {والجانَّ}: وهو أبو الجنِّ؛ أي: إبليس، {خَلَقْناه من قبل}: خَلْقِ آدم، {من نار السَّموم}؛ أي: من النار الشديدة الحرارة.

[27] ﴿ وَالْجَآنَّ ﴾ ’’اور جنوں کو۔‘‘ اس سے مراد جنوں کا باپ، یعنی ابلیس ہے ﴿ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ ﴾ ’’پیدا کیا ہم نے اس کو پہلے‘‘ یعنی تخلیق آدمu سے پہلے ﴿ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ ﴾ ’’لو کی آگ سے‘‘ یعنی نہایت سخت حرارت والی آگ سے۔

738 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{738} {28 ـ 29} فلما أراد الله خَلْقَ آدم؛ قال للملائكة: {إنِّي خالقٌ بشراً من صَلْصال من حمإٍ مَسْنونٍ. فإذا سوَّيْتُه}: جسداً تامًّا، {ونفختُ فيه من روحي فَقَعُوا له ساجدينَ}.

[29,28] پس جب اللہ تعالیٰ نے آدمu کی تخلیق کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں سے کہا: ﴿ وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ ﴾ ’’میں کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے ایک انسان بنانے لگا ہوں ۔

738 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{738} {30 ـ 31} فامتثلوا أمرَ ربِّهم، {فسجد الملائكةُ كلُّهم أجمعون}: تأكيدٌ بعد تأكيدٍ؛ ليدلَّ على أنه لم يتخلَّف منهم أحدٌ، وذلك تعظيماً لأمر الله وإكراماً لآدم حيث عَلِمَ ما لم يعلموا. {إلاَّ إبليسَ أبى أن يكونَ مع الساجدين}: وهذه أول عداوته لآدم وذرِّيَّته.

[30,31] پس جب میں اس کو ٹھیک ٹھاک کر لوں ‘‘ یعنی جب میں اس کے جسد کی تکمیل کر چکوں ﴿ وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰؔجِدِیْنَ ﴾ ’’اور اپنی روح اس میں پھونک دوں تو سب اس کو سجدہ کرتے ہوئے گر پڑنا۔‘‘ پس انھوں نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی۔ ﴿ فَسَجَدَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ ﴾ ’’پس تمام فرشتوں نے سجدہ کیا‘‘ یہاں تاکید کے بعد تاکید کو ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ یہ اسلوب اس حقیقت پر دلالت کرے کہ فرشتوں میں سے کوئی ایک فرشتہ بھی سجدہ کرنے سے پیچھے نہیں رہا تھا اور یہ سجدہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعظیم اور آدمu کی تکریم کے لیے تھا کیونکہ حضرت آدمu وہ کچھ جانتے تھے جس کا فرشتوں کو علم نہیں تھا۔ ﴿اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ اَبٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ مَعَ السّٰؔجِدِیْنَ﴾ ’’مگر ابلیس نے اس بات سے انکار کر دیا کہ وہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہو‘‘ یہ شیطان کی آدمu اور ان کی اولاد کے ساتھ پہلی عداوت ہے۔

738 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{738} {32 ـ 33} {قال}: الله: {يا إبليسُ ما لك ألا تكون مع الساجدين. قال لم أكنْ لأسجدَ لبشرٍ خلقتَه من صلصال من حمإٍ مسنونٍ}: فاستكبر على أمر الله، وأبدى العداوة لآدم وذرِّيَّته، وأعجِبَ بعنصره، وقال: أنا خيرٌ من آدم.

[33,32] اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یٰۤـاِبْلِیْسُ مَا لَكَ اَلَّا تَكُوْنَ مَعَ السّٰؔجِدِیْنَ قَالَ لَمْ اَكُ٘نْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ﴾ ’’اے ابلیس! تجھے کیا ہے کہ تو سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہ ہوا، اس نے کہا، میں اس انسان کو سجدہ نہیں کروں گا جس کو تو نے کھنکتے، سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے‘‘ پس شیطان مردود نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلے میں تکبر، حضرت آدمu اور ان کی اولاد کے خلاف عداوت کا اظہار کیا اور اپنے عناصر ترکیبی پر خودپسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولا ’’میں آدم سے بہتر ہوں ۔‘‘

738 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{738} {34 ـ 35} {قال} الله معاقباً له على كفره واستكباره: {فاخْرُجْ منها فإنَّك رجيمٌ}؛ أي: مطرود ومبعدٌ من كل خير، {وإنَّ عليك اللعنةَ}؛ أي: الذمَّ والعيب والبعد عن رحمة الله {إلى يوم الدين}. ففيها وما أشبهها دليلٌ على أنَّه سيستمرُّ على كفره وبعده من الخير.

[35,34] ﴿قَالَ ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ نے شیطان کے کفر و استکبار پر سخت گرفت کرتے ہوئے فرمایا: ﴿فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌ﴾ ’’پس تو نکل جا یہاں سے، بے شک تو مردود ہے‘‘ یعنی تو دھتکارا ہوا اور ہر بھلائی سے دور کر دیا گیا ہے۔ ﴿وَّاِنَّ عَلَیْكَ اللَّعْنَةَ﴾ ’’اور تجھ پر لعنت ہے‘‘ یعنی تو مذمت اور ملامت کا مستحق اور اللہ کی رحمت سے دور ہے ﴿اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ ﴾ ’’جزا کے دن تک‘‘ اس آیت اور اس جیسی دیگر آیات میں دلیل ہے کہ شیطان اپنے کفر پر قائم اور بھلائی سے دور رہے گا۔

738 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{738} {36 ـ 38} {قال ربِّ فأنْظِرْني}؛ أي: أمهِلْني {إلى يوم يُبْعَثونَ. قال فإنَّك من المُنْظَرينَ. إلى يوم الوقتِ المعلوم}: وليس إجابةُ الله لدعائِهِ كرامةً في حقِّه، وإنما ذلك امتحانٌ وابتلاءٌ من الله له وللعباد؛ ليتبيَّن الصادق الذي يطيع مولاه دون عدوه ممن ليس كذلك، ولذلك حذَّرنا منه غاية التحذير، وشرح لنا ما يريده منَّا.

[38-36] ﴿ قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْۤ ﴾ ’’شیطان نے کہا، اے رب مجھے ڈھیل دے‘‘ یعنی مجھے مہلت دے ﴿ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَؔ قَالَ فَاِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَ٘رِیْنَ اِلٰى یَوْمِ الْوَقْتِ الْ٘مَعْلُوْمِ ﴾ ’’قیامت کے دن تک، اللہ نے کہا، تجھ کو ڈھیل دی، اسی مقرر وقت کے دن تک‘‘ اللہ تعالیٰ کا شیطان کی دعا کو قبول کر لینا اس کے حق میں اکرام و تکریم نہیں بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے شیطان اور بندوں کے لیے ابتلاء اور امتحان ہے تاکہ دشمن میں سے اس کا وہ سچا بندہ الگ ہو جائے جو اس کی اطاعت کرتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ہمیں شیطان مردود سے بہت ڈرایا ہے اور کھول کھول کر بیان کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے۔

738 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{738} {39} {قال ربِّ بما أغويتني لأزيِّنَنَّ لهم في الأرض}؛ أي: أزيِّن لهم الدنيا، وأدعوهم إلى إيثارها على الأخرى، حتى يكونوا منقادين لكلِّ معصيةٍ، {ولأغوِيَنَّهم أجمعين}؛ أي: أصدُّهم كلَّهم عن الصراط المستقيم، {إلاَّ عبادَك منهم المخلَصين}؛ أي: الذين أخلصتهم، واجتبيتهم لإخلاصهم وإيمانهم وتوكلهم.

[39] ﴿ قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَ٘نَّ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’شیطان نے کہا، اے رب، جیسے تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں بھی ان سب کو بہاریں دکھلاؤں گا زمین میں ‘‘ یعنی میں ان کے سامنے دنیا کو آراستہ کروں گا، میں ان کو اس بات پر آمادہ کروں گا کہ وہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیں یہاں تک کہ وہ ہر گناہ کرنے لگ جائیں گے۔ ﴿ وَلَاُغْ٘وِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ ﴾ ’’اور ان سب کو بہکا دوں گا‘‘ یعنی میں تمام انسانوں کو راہ راست پر چلنے سے روک دوں گا۔ ﴿ اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ ﴾ ’’مگر ان میں سے جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ لوگ جن کو تو نے ان کے اخلاص، ایمان اور توکل کی وجہ سے چن کر اپنے لیے خالص کر لیا۔ (وہ میرے جال سے بچ جائیں گے۔)

738 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{738} {40} قال الله: {هذا صراطٌ عليَّ مستقيمٌ}؛ أي: معتدلٌ موصلٌ إليَّ وإلى دار كرامتي.

[40] اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قَالَ هٰؔذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ ﴾ ’’یہ راستہ ہے مجھ تک سیدھا‘‘ یعنی یہ راستہ معتدل، مجھ تک اور میرے عزت والے گھر تک پہنچاتا ہے۔

738 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{738} {41} {إنَّ عبادي ليس لك عليهم سلطانٌ}: تميلهم به إلى ما تشاء من أنواع الضَّلالات بسبب عبوديَّتهم لربِّهم وانقيادهم لأوامره، أعانهم الله وعصمهم من الشيطان.

[41] ﴿ اِنَّ عِبَادِیْ لَ٘یْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰ٘نٌ ﴾ ’’جو میرے بندے ہیں ان پر تجھے کچھ قدرت نہیں ۔‘‘ یعنی میرے بندوں پر تجھے کوئی اختیار نہیں کہ تو جہاں چاہے انھیں مختلف انواع کی گمراہیوں میں مبتلا کر دے اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں اور اس کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا ہے اور انھیں شیطان سے بچاتا ہے۔

738 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{738} {42} {إلاَّ من اتَّبعك}: فرضي بولايتك وطاعتك بدلاً من طاعة الرحمن، {من الغاوينَ}: والغاوي ضدُّ الراشد؛ فهو الذي عرف الحقَّ وتركه، والضالُّ الذي تركه من غير علم منه به.

[42] ﴿ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ ﴾ ’’مگر جس نے تیری پیروی کی‘‘ اور اللہ رحمن کی اطاعت کی بجائے تیری سرپرستی قبول کرنے اور تیری اطاعت کرنے پر راضی ہو گیا ﴿ مِنَ الْغٰوِیْنَ ﴾ ’’بہکے ہوؤں میں سے ہے‘‘ (الغاوی) ’’گمراہ‘‘ (الراشد) ’’ہدایت یافتہ‘‘ کی ضد ہے اور اس شخص کو کہتے ہیں جو حق کو پہچان کر ترک کر دے اور (الضال) اس شخص کو کہتے ہیں جو حق کو جانے بغیر اس کو ترک کر دے۔

738 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{738} {43} {وإنَّ جهنَّم لَمَوْعِدُهم أجمعين}؛ أي: إبليس وجنوده.

[43] ﴿ وَاِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ اَجْمَعِیْنَ ﴾ ’’اور جہنم ان سب کے وعدے کی جگہ ہے‘‘ یعنی ابلیس اور اس کے لشکروں کے لیے۔

738 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{738} {44} {لها سبعةُ أبوابٍ}: كل باب أسفل من الآخر. {لكلِّ باب منهم}؛ أي: من أتباع إبليس {جزءٌ مقسومٌ}: بحسب أعمالهم؛ قال تعالى: {فَكُبْكِبوا فيها هم والغاوونَ وجنودُ إبليسَ أجمعونَ}.

[44] ﴿ لَهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍ﴾ ’’اس کے سات دروازے ہیں ‘‘ ہر دروازہ دوسرے دروازے سے نیچے ہو گا۔ ﴿ لِكُ٘لِّ بَ٘ابٍ مِّؔنْهُمْ ﴾ ’’ہر دروازے کے واسطے ان میں سے‘‘ یعنی ابلیس کے پیروکاروں میں سے ﴿ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ ﴾ ’’ایک حصہ ہے بانٹا ہوا‘‘ یعنی ان کے اعمال کے مطابق۔ ﴿ فَكُبْكِبُوْا فِیْهَا هُمْ وَالْغَاوٗنَۙ۰۰ وَجُنُوْدُ اِبْلِیْسَ اَجْمَعُوْنَ﴾ (الشعراء: 26؍94۔95) ’’پس ان کے معبود، یہ گمراہ لوگ اور ابلیس کے لشکر سب کے سب اوپر تلے جہنم میں پھینک دیے جائیں گے۔‘‘

738 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر تفسير آيت: 45 - 50

{739} تفسير الآيات:: 45 - 50

تفسير آيت: 45 - 50

739 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{739} {إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ (45) ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِينَ (46) وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ (47) لَا يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِينَ (48) نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (49) وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ (50)}.

بے شک متقی لوگ باغات اور چشموں میں ہوں گے (45) (انھیں کہا جائے گا) داخل ہو جاؤ تم ان میں ساتھ سلامتی کے، با امن (46) اور نکال دیں گے ہم جو کچھ ان کے سینوں میں ہو گا (باہم) کینہ، وہ بھائی بھائی ہوں گے، اوپر تختوں کے آمنے سامنے (بیٹھے ہوئے) (47) نہیں چھوئے گی انھیں ان (باغات) میں کوئی تھکاوٹ اور نہ وہ ان سے نکالے ہی جائیں گے (48) (اے پیغمبر!) خبر دے دیجیے میرے بندوں کو کہ یقینا میں بڑا بخشنے والا، نہایت رحم کرنے ولاہوں (49) اور بلاشبہ عذاب میرا ، وہی عذاب ہے بڑا درد ناک (50)

739 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{739} {45} يقول تعالى: {إنَّ المتَّقين}: الذين اتَّقوا طاعة الشيطان وما يدعوهم إليه من جميع الذنوب والعصيان، {في جنَّاتٍ وعيون}: قد احتوت على جميع الأشجار، وأينعت فيها جميعُ الثمار اللذيذة في جميع الأوقات.

[45] اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں یہ ذکر فرمایا کہ آخرت میں اس کے دشمنوں یعنی ابلیس کے پیروکارں کو کیا سخت عذاب اور سزا دی جائے گی وہاں یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے دوستوں کو کس فضل عظیم اوردائمی نعمتوں سے نوازے گا، چنانچہ فرمایا: ﴿ اِنَّ الْ٘مُتَّقِیْنَ ﴾ ’’بے شک پرہیزگار‘‘ جو شیطان کی اطاعت، اس کے وسوسوں ، گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچتے ہیں ﴿ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ ﴾ ’’باغات اور چشموں میں ہوں گے‘‘ جن میں درختوں کی تمام اقسام ہوں گی اور اس میں ہر وقت اور ہر قسم کے پکے ہوئے پھل ہوں گے۔

739 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{739} {46} ويقال لهم حال دخولها: {ادخُلوها بسلام آمنينَ}: من الموت والنوم والنَّصَب واللُّغوب وانقطاع شيء من النعيم الذي هم فيه أو نقصانه ومن المرض والحزن والهمِّ وسائر المكدرات.

[46] جنت میں داخل ہوتے وقت ان سے کہا جائے گا ﴿اُدْخُلُوْهَا بِسَلٰ٘مٍ اٰمِنِیْنَ ﴾ ’’داخل ہو جاؤ اس میں سلامتی سے ہر نقصان سے محفوظ‘‘ یعنی موت، نیند، تھکن سے، وہاں حاصل نعمتوں میں سے کسی نعمت کے منقطع ہونے یا ان میں کمی واقع ہونے سے، بیماری، حزن و غم اور دیگر تمام کدورتوں سے مامون و محفوظ۔

739 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{739} {47} {ونزعنا ما في صدورهم من غِلٍّ}: فتبقى قلوبُهم سالمةً من كلِّ غلٍّ وحسدٍ متصافية متحابَّة، {إخواناً على سُرُر متقابلين}: دلَّ ذلك على تزاورهم واجتماعهم وحسن أدبهم فيما بينهم في كون كلٍّ منهم مقابلاً للآخر لا مستدبراً له، متكئين على تلك السُّرر المزيَّنة بالفرش واللؤلؤ وأنواع الجواهر.

[47] ﴿ وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ ﴾ ’’اور نکال ڈالیں گے ہم ان کے سینوں سے کینہ‘‘ پس ان کے دل ہر قسم کے کینہ اور حسد سے سلامت، پاک صاف اور آپس میں محبت کرنے والے ہوں گے ﴿ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْ٘نَ ﴾ ’’وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوں گے۔‘‘ یہ آیت کریمہ ان کے آپس میں ایک دوسرے کی زیارت کرنے، ان کو اکٹھے ہونے اور ان کے آپس میں حسن ادب پر دلالت کرتی ہے نیز یہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ وہ جنت میں ایک دوسرے سے پیٹھ پھیر کر نہیں بلکہ سجے تختوں پر تکیے لگا کر، موتی اور مختلف قسم کے جواہرات جڑے ہوئے بچھونوں پر، ایک دوسرے کے سامنے بیٹھیں گے۔

739 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{739} {48} {لا يَمَسُّهم فيها نصبٌ}: لا ظاهرٌ ولا باطنٌ، وذلك لأنَّ الله يُنشئهم نشأةً وحياةً كاملةً لا تقبل شيئاً من الآفات. {وما هم منها بمُخْرَجين}: على سائر الأوقات.

[48] ﴿ لَا یَمَسُّهُمْ فِیْهَا نَصَبٌ ﴾ ’’نہیں پہنچے گی وہاں ان کو کوئی تھکاوٹ‘‘ انھیں ظاہری تھکاوٹ لاحق ہو گی نہ باطنی اور یہ اس وجہ سے ہو گا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انھیں ایسی حیات کاملہ سے نوازا ہو گا جو آفات کا اثر قبول نہیں کرے گی۔ ﴿ وَّمَا هُمْ مِّؔنْهَا بِمُخْرَجِیْنَ ﴾ ’’اور نہ وہ وہاں سے نکالے جائیں گے۔‘‘ یعنی وہ کسی بھی وقت جنت سے نکالے نہیں جائیں گے۔

739 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{739} {49} ولما ذكر ما يوجب الرغبة والرهبة من مفعولات الله من الجنة والنار؛ ذكر ما يوجب ذلك من أوصافه تعالى، فقال: {نبِّئ عبادي}؛ أي: أخبرهم خبراً جازماً مؤيداً بالأدلَّة، {أني أنا الغفورُ الرحيم}: فإنَّهم إذا عرفوا كمال رحمته ومغفرته؛ سعوا بالأسباب الموصلة لهم إلى رحمته، وأقلعوا عن الذُّنوب وتابوا منها؛ لينالوا مغفرتَهُ.

[49] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے فیصلوں ، یعنی جنت اور جہنم کا ذکر فرمانے کے بعد، جو ترغیب و ترہیب کا موجب ہیں ، اپنے ان اوصاف کا ذکر فرمایا جو جنت و جہنم کے موجب ہیں ، چنانچہ فرمایا: ﴿ نَبِّئْ عِبَادِیْۤ ﴾ ’’میرے بندوں کو بتادو۔‘‘ یعنی میرے بندوں کو نہایت جزم کے ساتھ خبر دیجیے جس کی تائید دلائل کرتے ہوں کہ ﴿ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ﴾ ’’میں بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہوں ۔‘‘ کیونکہ جب بندے اللہ تعالیٰ کی رحمت کاملہ اور اس کی مغفرت کی معرفت حاصل کر لیں گے تو ان اسباب کے حصول میں کوشاں ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کاملہ تک پہنچاتے ہیں ، گناہوں کے ارتکاب سے رک کر ان سے توبہ کریں گے تاکہ وہ اس کی مغفرت کے مستحق قرار پائیں۔

739 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{739} {50} ومع هذا؛ فلا ينبغي أن يتمادى بهم الرجاءُ إلى حال الأمن والإدلال؛ فنبئهم {أنَّ عذابي هو العذابُ الأليمُ}؛ أي: لا عذاب في الحقيقة إلاَّ عذابُ الله الذي لا يقادَرُ قَدْره ولا يُبْلَغ كُنْهه، نعوذ به من عذابه؛ فإنهم إذا عرفوا أن لا يعذِّبَ عذابَه أحدٌ ولا يوثِقُ وَثاقَهُ أحدٌ؛ حذروا وأبعدوا عن كلِّ سبب يوجب لهم العقاب. فالعبد ينبغي أن يكون قلبه دائماً بين الخوف والرجاء والرغبة والرهبة؛ فإذا نظر إلى رحمة ربِّه ومغفرته وجوده وإحسانه؛ أحدث له ذلك الرجاءَ والرغبةَ، وإذا نظر إلى ذنوبه وتقصيره في حقوق ربِّه؛ أحدث له الخوفَ والرهبة والإقلاع عنها.

[50] اور وہ امید کے اس حال تک نہ پہنچ جائیں کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کی گرفت سے مامون سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے بارے میں جرأت کا رویہ رکھیں ۔ نیز انھیں اس بات سے بھی آگاہ کر دیجیے! ﴿ وَاَنَّ عَذَابِیْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ ﴾ ’’میرا عذاب، وہ دردناک عذاب ہے‘‘ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے عذاب کے سوا دوسرا عذاب کوئی عذاب ہی نہیں ، اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوئی اندازہ کیا جا سکتا ہے نہ اس کی کنہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں کیونکہ جب انھیں اس حقیقت کی معرفت حاصل ہو گی کہ ﴿ فَیَوْمَىِٕذٍ لَّا یُعَذِّبُ عَذَابَهٗۤ اَحَدٌۙ۰۰وَّلَا یُوْثِقُ وَثَاقَهٗۤ اَحَدٌ ﴾ (الفجر:89؍25۔26) ’’اس روز نہ کوئی اللہ کے عذاب کی مانند کوئی عذاب دے گا اور نہ اللہ کی گرفت کی مانند کوئی گرفت کر سکے گا۔‘‘ تب وہ ڈریں گے اور ہر اس سبب سے دور رہیں گے جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا موجب بنتا ہے۔ بندۂ مومن کے لائق یہی ہے کہ اس کا قلب دائمی طور پر خوف اور امید، رغبت اور رہبت کے درمیان رہے۔ جب بندہ اپنے رب کی بے پایاں رحمت، اس کی مغفرت اور اس کے جود و احسان کی طرف نظر کرے تو اس کا قلب امید اور رغبت سے لبریز ہو جائے اور جب وہ اپنے گناہوں اور اپنے رب کے حقوق کے بارے میں اپنی تقصیر پر نظر ڈالے تو اس کے دل میں خوف اور رہبت پیدا ہو اور وہ گناہوں کو چھوڑ دے۔

739 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر تفسير آيت: 51 - 56

{740} تفسير الآيات:: 51 - 56

تفسير آيت: 51 - 56

740 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{740} {وَنَبِّئْهُمْ عَنْ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ (51) إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا قَالَ إِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُونَ (52) قَالُوا لَا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ (53) قَالَ أَبَشَّرْتُمُونِي عَلَى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ (54) قَالُوا بَشَّرْنَاكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُنْ مِنَ الْقَانِطِينَ (55) قَالَ وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ (56)}.

اور خبر دیجیے انھیں مہمانوں کی بابت ابراہیم کے (51) جس وقت داخل ہوئے وہ اس پر تو کہا انھوں نے، سلام (کرتے ہیں ہم)، ابراہیم نے کہا، تحقیق ہم تو تم سے ڈرتے ہیں (52) انھوں نے کہا، نہ ڈر تو، بلاشبہ ہم تو خوش خبری دیتے ہیں تجھے ایک لڑکے علم والے کی (53) ابراہیم نے کہا، کیا تم خوشخبری دیتے ہو مجھے باوجود اس کے کہ پہنچ چکا ہے مجھے بڑھاپا؟ سو (اب) کس چیز کی خوشخبری دیتے ہو تم؟ (54)انھوں نے کہا، ہم بشارت دیتے ہیں تجھے حق (امر واقعی) کی پس نہ ہو تو ناامیدوں میں سے (55)ابراہیم نے کہااور وہ کون ناامید ہوتا ہے رحمت سے اپنے رب کی سوائے گمراہوں کے؟ (56)

740 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{740} {51} يقول تعالى لنبيِّه محمد - صلى الله عليه وسلم -: {ونبِّئْهم عن ضيفِ إبراهيم}؛ أي: عن تلك القصَّة العجيبة؛ فإنَّ في قصِّك عليهم أنباء الرسل وما جرى لهم ما يوجب لهم العبرةَ والاقتداء بهم، خصوصاً إبراهيم الخليل، الذي أمرنا اللهُ أن نتَّبِعَ ملَّته، وضيفه هم الملائكة الكرام، أكْرَمَهُ الله بأنْ جَعَلَهم أضيافه.

[51] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیe سے فرماتا ہے: ﴿ وَنَبِّئْهُمْ عَنْ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ ﴾ ’’ان کو ابراہیم کے مہمانوں کی بابت خبر دیں ‘‘ یعنی اس عجیب قصے کے بارے میں ان کو آگاہ کیجیے کیونکہ آپ کے ان کے سامنے انبیاء کرام کے قصے اور ان کے حالات بیان کرنے سے، ان کو عبرت حاصل ہو گی اور وہ ان کی پیروی کریں گے… خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے ابراہیم خلیلu کا قصہ، جن کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ان کی ملت کی پیروی کریں ۔ حضرت ابراہیمu کے مہمانوں سے مراد وہ مکرم فرشتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمu کا مہمان بنا کر ان کو اعزاز بخشا۔

740 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{740} {52} {إذ دخلوا عليه فقالوا سلاماً}؛ أي: سلَّموا عليه فردَّ عليهم، {قال إنَّا منكم وَجِلونَ}؛ أي: خائفون؛ لأنَّه لما دخلوا عليه، وحسبهم ضيوفاً؛ ذهب مسرعاً إلى بيته، فأحضر لهم ضيافتهم عجلاً حنيذاً، فقدَّمه إليهم، فلما رأى أيدِيَهم لا تصِلُ إليه؛ خاف منهم أن يكونوا لصوصاً أو نحوهم فقالوا له:

[52] ﴿ اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰ٘مًا ﴾ ’’جب وہ آئے ان کے گھر میں تو کہا سلام‘‘ یعنی انھوں نے ابراہیمu کو سلام کیا اور ابراہیمu نے ان کو سلام کا جواب دیا اور کہا ﴿ قَالَ اِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُوْنَ ﴾ ’’ہم تم لوگوں سے خائف ہیں ۔‘‘ اور خوف زدہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ جب فرشتے ابراہیمu کے پاس آئے تو آپ نے ان کو مہمان سمجھا اور آپ جلدی سے گھر گئے اور ان کی مہمان نوازی کے لیے بھنا ہوا بچھڑا لے آئے اور ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ جب آپ نے دیکھا کہ مہمانوں کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے تو آپ نے ان کو چور وغیرہ سمجھا اور خوف زدہ ہو گئے۔﴿ قَالُوْا﴾ فرشتوں نے ان سے کہا:

740 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{740} {53} {لا تَوْجَلْ إنَّا نبشِّرك بغلام عليم}: وهو إسحاق عليه الصلاة والسلام. تضمنت هذه البشارة بأنَّه ذكرٌ لا أنثى. {عليم}؛ أي: كثير العلم. وفي الآية الأخرى: {وبشَّرْناه بإسحاقَ نبيًّا من الصَّالحينَ}.

[53] ﴿ لَا تَوْجَلْ اِنَّا نُبَشِّ٘رُكَ بِغُلٰ٘مٍ عَلِیْمٍ ﴾ ’’ڈریں مت، ہم آپ کو ایک سمجھ دار لڑکے کی خوش خبری سناتے ہیں ‘‘ یہاں لڑکے سے مراد اسحاقu ہیں ۔ یہ بشارت اس بات کو متضمن ہے کہ وہ بچہ جس کی خوشخبری دی گئی تھی، لڑکا تھا، لڑکی نہ تھا، یہاں ’’علیم‘‘ سے مراد ہے ’’کثیر العلم‘‘ (بہت علم و فہم والا) ایک اور آیت کریمہ میں یوں آتا ہے ﴿ وَبَشَّرْنٰهُ بِـاِسْحٰؔقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰؔلِحِیْنَ ﴾ (الصافات:37؍ 112) ’’اور ہم نے اسے اسحاق کی خوشخبری دی کہ وہ نبی اور صالح لوگوں میں سے ہوں گے۔‘‘

740 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{740} {54} {قال} لهم متعجِّباً من هذه البشارة: {أبشَّرْتُموني}: بالولد {على أن مَسَّنِيَ الكِبَرُ}: وصار نوع إياس منه. {فبم تبشِّرونِ}؛ أي: على أيِّ وجهٍ تبشِّرون وقد عدمت الأسباب؟!

[54] ابراہیمu نے اس خوش خبری پر متعجب ہو کر کہا ﴿ اَبَشَّرْتُمُوْنِیْ ﴾ ’’کیا تم مجھے (بیٹے کی) خوشخبری دیتے ہو۔‘‘ ﴿ عَلٰۤى اَنْ مَّسَّنِیَ الْكِبَرُ ﴾ ’’جبکہ پہنچ چکا مجھ کو بڑھاپا‘‘ بنابریں وہ اولاد ہونے کے بارے میں ایک قسم کی مایوسی سے دوچار تھے ﴿ فَبِمَ تُ٘بَشِّ٘رُوْنَ ﴾ ’’پس کس وجہ سے تم مجھے خوشخبری دیتے ہو؟‘‘ حالانکہ اولاد ہونے کے اسباب تو معدوم ہو چکے ہیں ۔

740 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{740} {55} {قالوا بشَّرْناك بالحقِّ}: الذي لا شكَّ فيه؛ لأنَّ الله على كلِّ شيءٍ قديرٌ، وأنتم بالخصوص يا أهل هذا البيت، رحمة الله وبركاته عليكم؛ فلا يُسْتَغْرَبُ فضل الله وإحسانُه إليكم. {فلا تَكُنْ من القانطينَ}: الذين يستبعدون وجودَ الخير، بل لا تزال راجياً لفضل الله وإحسانِهِ وبرِّه وامتنانه.

[55] ﴿ قَالُوْا بَشَّرْنٰكَ بِالْحَقِّ ﴾ ’’انھوں نے کہا، ہم نے آپ کو سچی خوش خبری سنائی ہے‘‘ جس میں کوئی شک و شبہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے خاص طور پر… اے نبوت کے گھر والو! تم پر اللہ کی رحمت اور برکتیں ہیں … تمھیں تو اللہ کے فضل و احسان کو نادر و ناممکن نہیں سمجھنا چاہیے۔ ﴿ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْقٰنِطِیْنَ ﴾ ’’پس آپ ناامیدوں میں سے نہ ہوں ‘‘ یعنی آپ ان لوگوں میں سے نہ ہو جائیں جو بھلائی کے وجود کو مستبعد سمجھتے ہیں ۔ بلکہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی عنایات و احسان کے امیدوار رہیے۔

740 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{740} {56} فأجابهم إبراهيمُ بقوله: {ومَن يَقْنَطُ من رحمةِ ربِّه إلاَّ الضَّالُّون}: الذين لا علم لهم بربِّهم وكمال اقتداره، وأما مَنْ أنعم الله عليه بالهداية والعلم العظيم؛ فلا سبيل إلى القنوط إليه؛ لأنَّه يعرف من كَثْرة الأسباب والوسائل والطرق لرحمة الله شيئاً كثيراً. ثم لما بشَّروه بهذه البشارة؛ عَرَفَ أنَّهم مرسلون لأمرٍ مهمٍّ.

[56] ابراہیمu نے جواب میں فرمایا: ﴿ وَمَنْ یَّؔقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهٖۤ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ ﴾ ’’رب کی رحمت سے ناامید گمراہ لوگ ہی ہوتے ہیں ‘‘ جو اپنے رب اور اس کی قدرت کاملہ سے لاعلم ہیں لیکن جسے اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور علم عظیم سے نواز رکھا ہو، مایوسی اس تک راہ نہیں پا سکتی کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کے لیے اسباب و وسائل اور طریقوں کی کثرت کو خوب جانتا ہے، پھر جب فرشتوں نے حضرت ابراہیمu کو بیٹے کی بشارت دی تو انھوں نے جان لیا کہ ان کو نہایت اہم کام پر بھیجا گیا ہے۔

740 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر تفسير آيت: 57 - 77

{741} تفسير الآيات:: 57 - 77

تفسير آيت: 57 - 77

741 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{741} {قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ (57) قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمٍ مُجْرِمِينَ (58) إِلَّا آلَ لُوطٍ إِنَّا لَمُنَجُّوهُمْ أَجْمَعِينَ (59) إِلَّا امْرَأَتَهُ قَدَّرْنَا إِنَّهَا لَمِنَ الْغَابِرِينَ (60) فَلَمَّا جَاءَ آلَ لُوطٍ الْمُرْسَلُونَ (61) قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ مُنْكَرُونَ (62) قَالُوا بَلْ جِئْنَاكَ بِمَا كَانُوا فِيهِ يَمْتَرُونَ (63) وَأَتَيْنَاكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ (64) فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِنَ اللَّيْلِ وَاتَّبِعْ أَدْبَارَهُمْ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ أَحَدٌ وَامْضُوا حَيْثُ تُؤْمَرُونَ (65) وَقَضَيْنَا إِلَيْهِ ذَلِكَ الْأَمْرَ أَنَّ دَابِرَ هَؤُلَاءِ مَقْطُوعٌ مُصْبِحِينَ (66) وَجَاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ (67) قَالَ إِنَّ هَؤُلَاءِ ضَيْفِي فَلَا تَفْضَحُونِ (68) وَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ (69) قَالُوا أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعَالَمِينَ (70) قَالَ هَؤُلَاءِ بَنَاتِي إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِينَ (71) لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ (72) فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِينَ (73) فَجَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ (74) إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ (75) وَإِنَّهَا لَبِسَبِيلٍ مُقِيمٍ (76) إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِلْمُؤْمِنِينَ (77)}.

اس نے کہا، پس کیا مقصد ہے تمھارا اے بھیجے ہوئے (فرشتو)؟ (57) انھوں نے کہا، بے شک ہم بھیجے گئے ہیں مجرم قوم کی طرف (58) سوائے کنبے لوط کے، بے شک ہم ، البتہ نجات دینے والے ہیں ان کو سب کو (59) سوائے اس کی بیوی کے، مقدر کردیا ہم نے کہ بے شک وہ ضرور پیچھے رہنے والوں میں سے ہو گی (60) پھر جب آئے آلِ لوط کے پاس وہ قاصد(61)لوط نے کہا، بے شک تم لوگ تو ہو اجنبی (62) انھوں نے کہابلکہ آئے ہیں ہم تیرے پاس ساتھ اس چیز (عذاب) کے کہ تھے وہ لوگ اس میں شک کرتے (63)اور لائے ہیں ہم تیرے پاس حق اور بلاشبہ ہم یقینا سچے ہیں (64) پس لے چل تو اپنے گھر والوں کو ایک حصے میں رات کےاور چل تو پیچھے ان (سب) کےاور نہ پیچھے مڑ کر دیکھے تم میں سے کوئی بھی، چلے جاؤ جہاں حکم کیے جاتے ہو تم (65) اور فیصلہ سنا دیا ہم ن اسے اس معاملے کا کہ بے شک جڑ ان لوگوں کی کاٹ دی جائے گی صبح کے وقت (66) اور آئے اس شہر (سدوم) والے خوشیاں مناتے ہوئے (67) لوط نے کہا، بے شک یہ لوگ میرے مہمان ہیں ، پس نہ رسوا کرو تم مجھے (68) اور ڈرو اللہ سے، نہ ذلیل کرو تم مجھے (69) انھوں نے کہا، کیا نہیں روکا تھا ہم نے تجھے جہان والوں (کی حمایت) سے؟ (70) اس نے کہا، یہ ہیں بیٹیاں میری (قوم کی، ان سے نکاح کر لو)، اگرہو تم کرنے والے (71) آپ کی زندگی کی قسم! بے شک وہ یقینا اپنی مستی (گمراہی) میں سرگرداں تھے (72) پس آپکڑا انھیں ایک چیخ نے سورج نکلتے وقت (73) پس (الٹ کر) کر دیا ہم نے ان کے اوپر والے حصے کو نیچے اور برسائے ہم نے ان پر پتھر، کھنگر کی قسم سے (74) بلاشبہ اس میں ، البتہ نشانیاں ہیں گہری نظر سے غوروفکر کرنے والوں کے لیے (75) اور بے شک وہ (بستیاں ) ایسے راستے پر ہیں (جواب تک) موجود ہے (76) بلاشبہ اس (واقعے) میں نشانیاں ہیں واسطے مومنوں کے (77)

741 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{741} {57} أي: {قال} الخليلُ عليه السلام للملائكة: {فما خطبكُم أيُّها المرسلون}؛ أي: ما شأنكم؟ ولأيِّ شيءٍ أرسِلْتُم؟!

[57] ﴿ قَالَ ﴾ خلیلu نے فرشتوں سے پوچھا: ﴿ فَمَا خَطْبُكُمْ اَیُّهَا الْ٘مُرْسَلُوْنَ ﴾ ’’پس کیا تمھاری مہم ہے اے اللہ کے بھیجے ہوؤ؟‘‘ یعنی تمھارا کیا معاملہ ہے اور تمھیں کس کام کے لیے بھیجا گیا ہے؟

741 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{741} {58} {قالوا إنَّا أرسِلْنا إلى قوم مجرِمين}؛ أي: كثر فسادُهم وعَظُم شرُّهم لنعذِّبَهم ونعاقبهم.

[58] ﴿ قَالُوْۤا اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ ﴾ ’’انھوں نے کہا، ہم ایک گناہ گار قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں ‘‘ یعنی ان میں شر اور فساد بہت زیادہ ہو گیا ہے، اس لیے ہمیں ان کو سزا دینے اور ان پر عذاب نازل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔

741 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{741} {59 ـ 60} {إلاَّ آلَ لوطٍ}؛ أي: إلاَّ لوطاً وأهله، {إلاَّ امرأتَهُ قدَّرْنا أنَّها لَمِنَ الغابرين}؛ أي: الباقين بالعذاب، وأما لوطٌ؛ فَسَنُخْرِجَنَّه وأهله وننجِّيهم منها. فجعل إبراهيم يجادل الرسل في إهلاكهم ويراجعهم، فقيل له: {يا إبراهيمُ أعْرِضْ عن هذا إنَّه قد جاء أمُر ربِّك وإنَّهم آتيهم عذابٌ غير مردودٍ}. فذهبوا منه.

[60,59] ﴿ اِلَّاۤ اٰلَ لُوْطٍ ﴾ سوائے لوط(u) اور ان کے گھر والوں کے ۔‘‘ ﴿اِلَّا امْرَاَتَهٗ قَدَّرْنَاۤ١ۙ اِنَّهَا لَ٘مِنَ الْغٰبِرِیْنَ ﴾ ’’سوائے اس کی بیوی کے، ہم نے ٹھہرا لیا ہے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔‘‘ یعنی وہ عذاب میں رہ جانے والوں میں شامل ہو گی۔ رہے لوطu تو ہم ان کو اور ان کے گھر والوں کو وہاں سے نکال کر بچا لیں گے۔ حضرت ابراہیمu قوم لوط کی ہلاکت کے بارے میں فرشتوں سے جھگڑنے لگے۔ حضرت ابراہیم سے کہا گیا: ﴿یٰۤاِبْرٰهِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ هٰؔذَا١ۚ اِنَّهٗ قَدْ جَآءَ اَمْرُ رَبِّكَ١ۚ وَاِنَّهُمْ اٰتِیْهِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ ﴾ (ھود: 11؍76) ’’اے ابراہیم! اس بات کو جانے دو تیرے رب کا حکم صادر ہو چکا ہے اب ان پر عذاب آ کر رہے گا اب اس کو روکا نہیں جا سکتا۔‘‘ اور فرشتے حضرت ابراہیم کے پاس سے چلے گئے۔

741 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{741} {61 ـ 62} {فلما جاء آلَ لوطٍ المرسلونَ قال} لهم لوط: {إنَّكم قوم مُنْكَرونَ}؛ أي: لا أعرفكم، ولا أدري من أنتم.

[62,61] ﴿ فَلَمَّا جَآءَؔ اٰلَ لُوْطِ ِ۟ الْ٘مُرْسَلُوْنَ ﴾ ’’پس جب فرشتے آل لوط کے پاس آئے۔‘‘ ﴿ قَالَ ﴾ تو لوطu نے فرشتوں سے کہا: ﴿ اِنَّـكُمْ قَوْمٌ مُّؔنْؔكَرُوْنَ ﴾ ’’بے شک تم اوپرے لوگ ہو‘‘ یعنی میں تمھیں پہچانتا نہیں ہوں اور میں نہیں جانتا کہ تم کون ہو۔ انھوں نے جواب دیا۔

741 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{741} {63} فَـ {قالوا بل جِئْناك بما كانوا فيه يَمْتَرون}؛ أي: جئناك بعذابهم الذي كانوا يشكُّون فيه ويكذِّبونك حين تَعِدُهم به.

[63] ﴿ بَلْ جِئْنٰكَ بِمَا كَانُوْا فِیْهِ یَمْتَرُوْنَ ﴾ ’’ہم آپ کے پاس وہ چیز لے کر آئے ہیں جس میں لوگ شک کرتے تھے۔‘‘ یعنی ہم ان پر وہ عذاب نازل کرنے کے لیے آپ کے پاس آئے ہیں جس کے بارے میں وہ شک کیا کرتے تھے اور جب آپ ان کو عذاب کی وعید سناتے تھے تو آپ کو جھٹلایا کرتے تھے۔

741 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{741} {64} {وأتيناك بالحقِّ}: الذي ليس بالهزل. {وإنَّا لصادقونَ}: فيما قلنا لك.

[64] ﴿ وَاَتَیْنٰكَ بِالْحَقِّ ﴾ ’’اور ہم آپ کے پاس پکی بات لے کر آئے ہیں ‘‘ جو مذاق نہیں ہے۔ ﴿ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ ﴾ ’’اور بے شک ہم سچے ہیں ۔‘‘ اس میں جو ہم آپ سے کہہ رہے ہیں ۔

741 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{741} {65} {فأسْرِ بأهلك بقِطْع من الليل}؛ أي: في أثنائه حين تنام العيون ولا يدري أحدٌ عن مَسْراك. {ولا يَلْتَفِتْ منكم أحدٌ}؛ أي: بل بادروا وأسرعوا، {وامْضوا حيثُ تُؤْمَرون}: كأنَّ معهم دليلاً يدلُّهم على أين يتوجَّهون.

[65] ﴿ؔ فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ ﴾ ’’پس لے نکل اپنے گھر والوں کو کچھ رات رہے سے‘‘ یعنی رات کے اوقات میں جب لوگ سو رہے ہوں اور کسی کو آپ کے نکل جانے کا علم نہ ہو ﴿ وَاتَّ٘بِـعْ اَدْبَ٘ارَهُمْ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ ﴾ ’’اور تو ان کے پیچھے چل اور تم میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے‘‘ یعنی جلدی سے نکل جاؤ ﴿ وَّامْضُوْا حَیْثُ تُؤْمَرُوْنَ ﴾ ’’اور چلے جاؤ جہاں تم کو حکم دیا جاتا ہے‘‘ گویا ان کے ساتھ کوئی رہبر تھا جو ان کی راہنمائی کرتا تھا کہ انھیں کہاں جانا ہے۔

741 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{741} {66} {وقضَيْنا إليه ذلك}؛ أي: أخبرناه خبراً لا مَثْنَوِيَّة فيه، {أنَّ دابرَ هؤلاء مقطوعٌ مصبحينَ}؛ أي: سيصبِّحهم العذابُ الذي يجتاحهم، ويستأصلهم.

[66] ﴿وَقَضَیْنَاۤ اِلَیْهِ ذٰلِكَ الْاَمْرَ ﴾ ’’اور مقرر کر دی ہم نے اس کی طرف یہ بات‘‘ یعنی ہم نے اسے ایسی خبر سے آگاہ کیا جس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ﴿اَنَّ دَابِرَ هٰۤؤُلَآءِ مَقْطُوْعٌ مُّصْبِحِیْنَ ﴾ ’’ان لوگوں کی جڑ صبح ہوتے ہوتے کاٹ دی جائے گی۔‘‘ یعنی صبح سویرے عذاب انھیں آ لے گا اور ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دے گا۔

741 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{741} {67 ـ 69} {وجاء أهلُ المدينة}؛ أي: المدينة التي فيها لوطٌ، {يستبشرونَ}؛ أي: يبشِّر بعضُهم بعضاً بأضياف لوطٍ وصباحةِ وجوههم واقتدارهم عليهم، وذلك لقصدِهِم فعلَ الفاحشة فيهم، فجاؤوا حتى وصلوا إلى بيت لوطٍ، فجعلوا يعالجون لوطاً على أضيافه، ولوطٌ يستعيذُ منهم ويقولُ: {إنَّ هؤلاء ضَيْفي فلا تَفْضَحونِ. واتَّقوا الله ولا تُخْزُونِ}؛ أي: راقبوا الله أول ذلك، وإن كان ليس فيكم خوفٌ من الله؛ فلا تفضحوني في أضيافي، وتنتَهكِوا منهم الأمر الشنيع.

[69-67] ﴿ وَجَآءَ اَهْلُ الْمَدِیْنَةِ ﴾ ’’اور اہل شہر آئے۔‘‘ یعنی اس شہر کے لوگ آئے جس میں لوطu رہتے تھے۔ ﴿ یَسْتَبْشِرُوْنَ۠ ﴾ ’’خوشیاں کرتے‘‘ یعنی لوطu کے خوبصورت مہمانوں کی آمد اور ان پر انھیں قدرت حاصل ہونے کی بنا پر وہ ایک دوسرے کو خوشخبری دیتے تھے۔ ان کا مقصد ان کے ساتھ بدفعلی کرنے کا تھا۔ پس وہ آئے اور حضرت لوطu کے گھر پہنچ گئے اور ان کے مہمانوں کے بارے میں ان کے ساتھ جھگڑنے لگے اور لوطu نے ان سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا: ﴿ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ ضَیْـفِیْ فَلَا تَفْضَحُوْنِ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَلَا تُخْزُوْنِ ﴾ ’’یہ میرے مہمان ہیں مجھے رسوا نہ کرو اور اللہ سے ڈرو اور میری رسوائی کا سامان نہ کرو۔‘‘ یعنی اس بارے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف کرو، اگر اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں تو میرے مہمانوں کے بارے میں مجھے رسوا نہ کرو۔ انتہائی گندے کام کے ذریعے سے ان کی ہتک حرمت کرنے سے باز آ جاؤ۔

741 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{741} {70} فَـ {قَالوا} له جواباً عن قوله: {ولا تخزونِ} فقط: {أولم نَنْهَكَ عن العالمين}: أن تضيِّفهم، فنحن قد أنذرناك، ومن أنذر؛ فقد أعذر.

[70] ﴿ قَالُوْۤا﴾ انھوں نے لوطu کے قول ’’مجھے رسوا نہ کرو‘‘ کے جواب میں بس یہی کہا: ﴿ اَوَ لَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْ٘عٰلَمِیْنَ ﴾ ’’کیا ہم نے تجھے منع نہیں کیا جہان کی حمایت کرنے سے‘‘ یعنی ان کی مہمان نوازی وغیرہ کرنے سے۔ پس ہم نے تجھے ان باتوں سے ڈرایا ہے اور جس نے ڈرا دیا ہے وہ بریٔ الذمہ ہے۔

741 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{741} {71 ـ 72} فَـ {قَال} لهم لوطٌ من شدَّة الأمر الذي أصابه: {هؤلاء بناتي إن كنتُم فاعلينَ}: فلم يبالوا بقوله، ولهذا قال الله لرسوله محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -: {لَعَمْرُك إنَّهم لفي سكرتِهِم يعمهونَ}: وهذه السكرة هي سكرة محبَّة الفاحشة التي لا يُبالون معها بعذل ولا لوم.

[72,71] ﴿ قَالَ ﴾ لوطu نے معاملے کی شدت کی بنا پر ان سے کہا: ﴿ هٰۤؤُلَآءِ بَنٰتِیْۤ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْ٘نَ ﴾ ’’یہ میری بیٹیاں حاضر ہیں اگر تم کو کرنا ہے‘‘ مگر انھوں نے جناب لوطu کے اس قول کی کوئی پروا نہ کی۔(بیٹیوں سے مراد، ان کی بیویاں ہیں ، یعنی اپنی بیویوں سے اپنی جنسی خواہش پوری کرو۔ پیغمبر بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے، اس لیے ان کی بیویوں کو اپنی بیٹیاں کہا۔ یا یہ مطلب ہے کہ تم میری بیٹیوں سے نکاح کر لو اور اپنی خواہش کی تسکین کا سامان کر لو، میں اپنی بیٹیاں تمھارے حبالۂ عقد میں دینے کو تیار ہوں ۔ (ص ۔ ی) اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسولe سے فرمایا: ﴿ لَ٘عَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَ٘فِیْ سَكْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ ﴾ ’’آپ کی زندگی کی قسم، وہ اپنی مستی میں مدہوش ہیں ‘‘ اور یہ مستی فحش کام کی چاہت کی مستی ہے جس کے ہوتے ہوئے وہ کسی ملامت کی پروا نہیں کرتے۔

741 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{741} {73} فلما بينت له الرسل حالَهم؛ زال عن لوطٍ ما كان يَجِدُه من الضيق والكرب، فامتثل أمر ربِّه، وسرى بأهله ليلاً، فنجوا. وأما أهل القرية؛ {فأخذتْهُمُ الصيحةُ مشرقينَ}؛ أي: وقت شروق الشمس؛ حين كانت العقوبة عليهم أشدّ.

[73] پس جب فرشتوں نے حضرت لوطu کے سامنے اپنی حقیقت کھول دی تو ان کا کرب اور پریشانی دور ہو گئی۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے گھر والوں کے ساتھ راتوں رات وہاں سے نکل گئے اور نجات پائی۔ رہے بستی کے لوگ ﴿ فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ مُشْ٘رِقِـیْنَ ﴾ ’’پس آپکڑا ان کو چنگھاڑ نے سورج نکلتے وقت‘‘ یعنی طلوع آفتاب کے وقت کیونکہ اس وقت عذاب کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔

741 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{741} {74} {فجعَلْنا عالِيَها سافِلَها}؛ أي: قلبنا عليهم مدينتهم، {وأمطَرْنا عليهم حجارةً من سجِّيل}: تتبع فيها من شذَّ من البلد منهم.

[74] ﴿ فَجَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا ﴾ ’’پھر کر ڈالی ہم نے وہ بستی اوپر تلے‘‘ یعنی ہم نے ان پر ان کی بستی کو الٹ دیا ﴿ وَاَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ ﴾ ’’اور ان پر کھنگر کے پتھروں کی بارش برسائی‘‘ یہ پتھر اس شخص کا پیچھا کرتے تھے جو بستی سے فرار ہوتا تھا۔

741 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{741} {75} {إن في ذلك لآيات للمتوسِّمين}؛ أي: المتأمِّلين المتفكِّرين الذين لهم فكرٌ ورويَّة وفراسةٌ يفهمون بها ما أريد بذلك مِن أنَّ من تجرّأ على معاصي الله، خصوصاً هذه الفاحشة العظيمة، وأنَّ الله سيعاقِبُهم بأشنع العقوباتِ؛ كما تجرؤوا على أشنع السيئات.

[75] ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّلْ٘مُتَوَسِّمِیْنَ ﴾ ’’بے شک اس میں دھیان کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں ‘‘ یعنی غوروفکر کرنے والوں کے لیے۔ وہ لوگ جو فکر و رائے اور فراست کے مالک ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے کیا مراد ہے، انھیں معلوم ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جرأت کرتا ہے، خاص طور پر اس انتہائی فحش کام کا ارتکاب تو اللہ تعالیٰ اسے اسی طرح بدترین سزا دے گا جس طرح انھوں نے بدترین جرم کے ارتکاب کی جسارت کی ہے۔

741 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{741} {76} {وإنَّها}؛ أي: مدينة قوم لوط {لَبسبيل مُقيم}: للسالكين، يعرفه كلُّ مَنْ تردَّد في تلك الدِّيار.

[76] ﴿وَاِنَّهَا ﴾ یعنی حضرت لوطu کی قوم کا شہر ﴿لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیْمٍ ﴾ ’’واقع ہے سیدھے راستے پر‘‘ یعنی یہ بستی گزرنے والوں کے لیے ایک عام گزرگاہ پر واقع ہے اور جس کسی کا اس علاقے میں آنا جانا ہے وہ اس جگہ کو پہچانتا ہے۔

741 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{741} {77} {إنَّ في ذلك لآيةً للمؤمنين}: وفي هذه القصة من العبر: عنايتُه تعالى بخليله إبراهيم؛ فإنَّ لوطاً عليه السلام من أتباعه وممَّن آمن به، فكأنه تلميذٌ له؛ فحين أراد الله إهلاك قوم لوطٍ حين استحقُّوا ذلك؛ أمر رسله أن يمرُّوا على إبراهيم عليه السلام كي يبشِّروه بالولد ويخبروه بما بعثوا له، حتى إنَّه جادلهم عليه السلام في إهلاكهم، حتى أقنعوه، فطابت نفسُه، وكذلك لوط عليه السلام، لما كانوا أهل وطَنِهِ؛ فربما أخذتْه الرقة عليهم والرأفة بهم؛ قدَّر الله من الأسباب ما به يشتدُّ غيظُه وحِنْقُهُ عليهم، حتَّى استبطأ إهلاكَهم لمَّا قيل له: {إنَّ موعِدَهم الصبحُ أليس الصبحُ بقريبٍ}. ومنها: أن الله تعالى إذا أراد أن يُهْلِكَ قرية ازداد شرُّهم وطغيانهم؛ فإذا انتهى؛ أوقع بهم من العقوبات ما يستحقُّونه.

[77] ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ﴾’’بے شک اس (واقعے) میں مومنوں کے نشانیاں ہیں‘‘اس قصے میں بہت سی عبرتیں ہیں ۔ (۱) اللہ تعالیٰ کی اپنے خلیل ابراہیمu پر بے حد عنایات تھیں ۔ لوطu اور ان پر ایمان لانے والے اہل ایمان ابراہیمu کے متبعین میں شمار ہوتے ہیں ۔ گویا حضرت لوطu حضرت ابراہیمu کے شاگرد تھے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کے ہلاکت کے مستحق ہونے پر ان کو ہلاک کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس نے اپنے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ ابراہیمu کے پاس سے ہوکر جائیں تاکہ وہ ان کو بیٹے کی خوشخبری دے سکیں اور ان کو آگاہ بھی کریں کہ ان کو کس کام کے لیے بھیجا گیا ہے۔ یہاں تک کہ حضرت ابراہیمu قوم لوط کے بارے میں فرشتوں سے بحث کرنے لگے۔ حتیٰ کہ فرشتوں نے ان کو مطمئن کر دیا اور وہ مطمئن ہو گئے۔ (۲) اسی طرح حضرت لوطu پر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں عنایات تھیں ۔ کیونکہ ان کی قوم کے لوگ، ان کے اہل وطن تھے، اس لیے بسااوقات ان کو ان پر رحم آجاتا تھا، اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب مقرر فرمائے جن کی بنا پر ان کو اپنی قوم پر سخت غصہ آیا حتیٰ کہ وہ سمجھنے لگے کہ ان کی قوم پر عذاب نازل ہونے میں دیر ہو رہی ہے۔ ان سے کہا گیا: ﴿ اِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ١ؕ اَلَ٘یْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیْبٍ﴾ (ھود: 11؍8 1) ’’ان کے عذاب کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے، کیا صبح قریب نہیں ؟‘‘ (۳) جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو ان کا شر اور ان کی سرکشی بڑھ جاتی ہے اور جب شر اور سرکشی کی انتہا ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر وہ عذاب واقع کر دیتا ہے جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں ۔

741 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر تفسير آيت: 78 - 79

{742} تفسير الآيات:: 78 - 79

تفسير آيت: 78 - 79

742 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{742} {وَإِنْ كَانَ أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ لَظَالِمِينَ (78) فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ وَإِنَّهُمَا لَبِإِمَامٍ مُبِينٍ (79)}.

اور بے شک تھے ایکہ (بستی) والے ، البتہ ظالم (78) پس انتقام لیا ہم نے ان سےاور بے شک وہ دونوں (تباہ شدہ بستیاں ) البتہ راستے ظاہر پر (واقع) ہیں (79)

742 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{742} {78} وهؤلاء قوم شعيبٍ، نَعَتَهُم الله وأضافهم إلى الأيكَة، وهو البستان كثير الأشجار؛ ليذكر نعمته عليهم، وأنهم ما قاموا بها، بل جاءهم نبيُّهم شعيب، فدعاهم إلى التوحيد، وتَرْك ظُلْم الناس في المكاييل والموازين، وعالَجَهم على ذلك أشدَّ المعالجة، فاستمروا على ظلمهم في حقِّ الخالق وفي حقِّ الخلق، ولهذا وصفهم هنا بالظُّلم.

[78] یہ حضرت شعیبu کی قوم ہے اللہ تعالیٰ نے ان کی (الأیکۃ) کی طرف اضافت کی ہے اور (الأیکۃ) سے مراد وہ باغ ہے جس میں بکثرت درخت ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی نعمت کا ذکر فرمائے مگر انھوں نے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکر ادا نہ کیا بلکہ اس کے برعکس، جب ان کے نبی حضرت شعیبu ان کے پاس آئے اور ان کو توحید کی دعوت دی، ناپ تول میں ان کو لوگوں پر ظلم کرنے سے باز آنے کی تلقین کی اور اس ظلم سے ان کو سختی سے منع کیا مگر وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بارے میں اپنے ظلم پر جمے رہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کا یہاں ظالمین کے لفظ سے ذکر فرمایا۔

742 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{742} {79} {فانْتَقَمْنا منهم}: فأخذهم عذابُ يومِ الظُّلَّةِ؛ إنه كان عذاب يوم عظيم. {وإنَّهما}؛ أي: ديار قوم لوطٍ وأصحاب الأيكة، {لبإمام مُبينٍ}؛ أي: لبطريق واضح يمرُّ بهم المسافرون كلَّ وقت، فيبين من آثارهم ما هو مشاهَدٌ بالأبصار، فيعتبر بذلك أولو الألباب.

[79] ﴿ فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ﴾ ’’پس ہم نے ان سے بدلہ لیا‘‘ اور چھتری والے دن کے عذاب نے ان کو آ لیا، بلاشبہ یہ بہت بڑے دن کا عذاب تھا۔ ﴿ وَاِنَّهُمَا ﴾ ’’اور یہ دونوں ‘‘ یعنی دیار قوم لوط اور اصحاب ایکہ ﴿ لَبِـاِمَامٍ مُّبِیْنٍ﴾ ’’کھلے راستے پر ہیں ۔‘‘ یعنی یہ دونوں بستیاں واضح راستے پر واقع ہیں جہاں ہر وقت مسافروں کے قافلے گزرتے رہتے ہیں ۔ ان کے وہ آثار نمایاں ہیں جن کا آنکھوں سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور عقل مند لوگ اس سے عبرت حاصل کر سکتے ہیں ۔

742 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر تفسير آيت: 80 - 84

{743} تفسير الآيات:: 80 - 84

تفسير آيت: 80 - 84

743 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{743} {وَلَقَدْ كَذَّبَ أَصْحَابُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِينَ (80) وَآتَيْنَاهُمْ آيَاتِنَا فَكَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ (81) وَكَانُوا يَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا آمِنِينَ (82) فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُصْبِحِينَ (83) فَمَا أَغْنَى عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (84)}

اور البتہ تحقیق جھٹلایا باشندگان حجر نے رسولوں کو (80) اور دیں ہم نے انھیں اپنی نشانیاں پس تھے وہ ان سے اعراض کرنے والے (81) اور تھے وہ تراشتے پہاڑوں سے گھر بے خوف ہو کر(82) پس آپکڑا انھیں چیخ نے صبح کے وقت (83) پس نہ فائدہ دیا انھیں اس (مال) نے جو تھے وہ کماتے (84)

743 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{743} {80} يخبر تعالى عن أهل الحجر، وهم قوم صالح، الذين يسكنون الحجرَ المعروف في أرض الحجاز: أنَّهم كذَّبوا المرسلين؛ أي: كذَّبوا صالحاً، ومن كذَّب رسولاً؛ فقد كذَّب سائر الرسل لاتفاق دعوتهم، وليس تكذيب بعضهم لشخصِهِ، بل لما جاء به من الحقِّ، الذي اشترك جميع الرسل بالإتيان به.

[80] اللہ تبارک و تعالیٰ اہل، حجر یعنی صالحu کی قوم کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جو حجاز کے علاقہ حجر میں آباد تھی انھوں نے اپنے رسولوں ، یعنی صالحu کو جھٹلایا، جس نے کسی ایک رسول کو جھٹلایا اس نے گویا تمام رسولوں کو جھٹلایا کیونکہ ان سب کی دعوت ایک تھی۔ انھوں نے کسی رسول کی اس کی ذاتی شخصیت کی بنا پر تکذیب نہیں کی بلکہ انھوں نے حق کی تکذیب کی جس کے لانے میں تمام رسول مشترک تھے۔

743 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{743} {81} {وآتيناهم آياتنا}: الدالَّة على صحَّة ما جاءهم به صالح من الحق التي من جملتها تلك الناقة التي هي من آيات الله العظيمة. {فكانوا عنها معرضين}: كِبْراً وتجبُّراً على الله.

[81] ﴿وَاٰتَیْنٰهُمْ اٰیٰتِنَا ﴾ اور ہم نے انھیں وہ نشانیاں عطا کیں جو اس حق کی صحت پر دلالت کرتی تھیں جنھیں صالحu لے کر آئے تھے، ان نشانیوں میں سے وہ اونٹنی بھی تھی جو اللہ تعالیٰ کی عظمت کی بہت بڑی نشانی تھی۔ ﴿ فَكَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَ﴾ ’’پس وہ ان سے منہ پھیرتے رہے‘‘ وہ تکبر اور سرکشی کی بنا پر ان نشانیوں سے روگردانی کیا کرتے تھے۔

743 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{743} {82} {وكانوا}: من كثرة إنعام الله عليهم، {يَنْحِتون من الجبال بيوتاً آمنينَ}: من المخاوف، مطمئنين في ديارهم؛ فلو شكروا النعمة وصدَّقوا نبيَّهم صالحاً عليه السلام؛ لأدرَّ الله عليهم الأرزاق، ولأكرمهم بأنواع من الثواب العاجل والآجل، ولكنَّهم لما كذَّبوا وعقروا الناقة وعتوا عن أمرِ ربِّهم وقالوا: {يا صالحُ ائتِنا بما تَعِدُنا إن كنتَ من الصَّادقين}.

[82] ﴿ وَؔكَانُوْا ﴾ ’’اور تھے وہ‘‘ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی کثرت کی بنا پر ﴿ یَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا اٰمِنِیْنَ ﴾ ’’تراشتے تھے پہاڑوں کے گھر اطمینان کے ساتھ‘‘ یعنی اپنے گھروں میں ہر قسم کے خوف سے مطمئن ہو کر۔ پس اگر انھوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا کیا ہوتا اور اپنے نبی صالحu کی تصدیق کی ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان کو بے پناہ رزق عطا کرتا اور مختلف انواع کے دنیاوی اور اخروی ثواب کے ذریعے سے ان کی عزت افزائی کرتا۔ مگر انھوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے کہنے لگے: ﴿ یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْ٘نَ﴾ (الاعراف:7؍77) ’’اے صالح! لے آؤ وہ عذاب جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو، اگر تم واقعی رسول ہو۔‘‘

743 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{743} {83} {فَأخَذَتْهُمُ الصَيْحَةُ مُصْبِحِينَ}: فتقطعت قلوبهم في أجوافهم وأصبحوا في دارهم جاثمين هلكى، مع ما يتبع ذلك من الخزي واللعنة المستمرة.

[83] ﴿ فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ مُصْبِحِیْنَ ﴾ ’’سو پکڑ لیا ان کو چنگھاڑنے، صبح ہونے کے وقت‘‘ پس ان کے سینوں میں ان کے دل پارہ پارہ ہو کر رہ گئے اور وہ اپنے گھر میں ہلاک ہو کر اوندھے منہ پڑے رہ گئے اور اس کے ساتھ ساتھ دائمی رسوائی اور لعنت نے ان کا پیچھا کیا۔

743 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{743} {84} {فما أغنى عنهم ما كانوا يَكْسبونَ}: لأنَّ أمر الله إذا جاء لا يردُّه كَثْرة جنودٍ ولا قوَّة أنصار ولا غزارة أموال.

[84] ﴿ فَمَاۤ اَغْ٘نٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْ٘سِبُوْنَ﴾ ’’پس کام نہ آیا ان کے جو کچھ وہ کماتے تھے۔‘‘ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم (عذاب) آجاتا ہے تو پھر اس کو لشکروں کی کثرت، انصار و اعوان کی قوت اور مال و دولت کی بہتات واپس نہیں لوٹا سکتی۔

743 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر تفسير آيت: 85 - 86

{744} تفسير الآيات:: 85 - 86

تفسير آيت: 85 - 86

744 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{744} {وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ (85) إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ (86)}.

اور نہیں پیدا کیا ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے مگر ساتھ حق کےاور بے شک قیامت ، البتہ آنے والی ہے، پس آپ درگزر کریں (ان سے) درگزر کرنا اچھے انداز سے (85) بلاشبہ آپ کا رب ، وہی پیدا کرنے والا، خوب جاننے والا ہے (86)

744 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{744} {85} أي: ما خلقناهما عَبَثاً باطلاً كما يظنُّ ذلك أعداء الله، بل ما خلقناهما {إلاَّ بالحقِّ}: الذي منه أن يكونا بما فيهما دالَّتين على كمال خالقهما واقتداره وسعة رحمتِهِ وحكمتِهِ وعلمِهِ المحيط، وأنَّه الذي لا تنبغي العبادةُ إلا له وحدَه لا شريك له. {وإنَّ الساعة لآتيةٌ}: لا ريبَ فيها؛ لَخَلْقُ السماوات والأرض أكبرُ من خَلْق الناس. {فاصفَح الصَّفْح الجميلَ}: وهو الصفح الذي لا أذيَّة فيه، بل يقابل إساءة المسيء بالإحسان وذنبَه بالغفران؛ لتنال من ربِّك جزيل الأجر والثواب؛ فإنَّ كلَّ ما هو آتٍ فهو قريبٌ. وقد ظهر لي معنى أحسن مما ذكرتُ هنا، وهو أنَّ المأمور به هو الصفح الجميل؛ أي: الحسن الذي قد سَلِمَ من الحقد والأذيَّة القوليَّة والفعليَّة، دون الصفح الذي ليس بجميل، وهو الصفح في غير محلِّه؛ فلا يُصْفَح حيث اقتضى المقام العقوبة؛ كعقوبة المعتدين الظالمين الذين لا ينفعُ فيهم إلا العقوبة، وهذا هو المعنى.

[85] یعنی ہم نے زمین و آسمان کو عبث اور باطل پیدا نہیں کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے دشمن سمجھتے ہیں ۔ ﴿اِلَّا بِالْحَقِّ﴾ بلکہ ہم نے زمین و آسمان کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے، جو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے اندر ہے اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کا خالق ہے نیز زمین و آسمان اللہ کی قدرت کاملہ، بے پایاں رحمت، حکمت اور اس کے علم محیط پر دلالت کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ وہ ہستی ہے جس کے سوا کوئی دوسری ہستی عبادت کے لائق نہیں ۔ وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ ﴿ وَاِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ ﴾ ’’اور قیامت بے شک آنے والی ہے‘‘ اور اس گھڑی کے آنے میں کوئی شک نہیں کیونکہ ابتدا میں زمین و آسمان کی تخلیق، مخلوقات کو دوسری مرتبہ پیدا کرنے کی نسبت زیادہ مشکل ہے۔ ﴿ فَاصْفَ٘حِ الصَّفْ٘حَ الْجَمِیْلَ﴾ ’’پس درگزر کریں اچھی طرح درگزر کرنا‘‘ یعنی ان سے اس طرح درگزر کیجیے کہ اس میں کسی قسم کی اذیت نہ ہو بلکہ اس کے برعکس برائی کرنے والے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیے، اس کی تقصیر کو بخش دیجیے تاکہ آپ اپنے رب سے بہت زیادہ اجروثواب حاصل کریں ۔ کیونکہ ہر آنے والی چیز قریب ہوتی ہے۔ اس آیت کریمہ کے جو معانی میں نے یہاں ذکر کیے ہیں مجھ پر اس سے بہتر معانی ظاہر ہوئے ہیں اور وہ یہ ہے کہ… رسول اللہe کو جس کام کا حکم دیا گیا ہے وہ ہے نہایت اچھے طریقے سے درگزر کرنا، یعنی وہ اچھا طریقہ جو بغض، کینہ اور قولی و فعلی اذیت سے پاک ہو۔ اس طرح درگزر کرنا نہ ہو جو احسن طریقے سے نہیں ہوتا اور یہ ایسا درگزر کرنا ہے جو صحیح مقام پر نہ ہو۔ اس لیے جہاں سزا دینے کا تقاضا ہو وہاں عفو اور درگزر سے کام نہ لیا جائے، مثلاً:زیادتی کرنے والے ظالموں کو سزا دینا، جن کو سزا کے سوا کوئی اور طریقہ درست نہیں کر سکتا… یہ ہے اس آیت کریمہ کا معنی۔

744 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{744} {86} {إنَّ ربَّك هو الخلاَّق}: لكل مخلوق، {العليمُ}: بكل شيءٍ؛ فلا يعجِزُه أحدٌ من جميع ما أحاط به علمُه، وجرى عليه خلقُه، وذلك سائر الموجودات.

[86] ﴿ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلّٰقُ﴾ بے شک آپ کا رب تمام کائنات کا پیدا کرنے والا ہے۔ ﴿ الْعَلِیْمُ ﴾ اور ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ اس کی مخلوقات اور اس کے احاطۂ علم یعنی تمام کائنات میں سے کوئی چیز اسے بے بس نہیں کر سکتی۔

744 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر تفسير آيت: 87 - 99

{745} تفسير الآيات:: 87 - 99

تفسير آيت: 87 - 99

745 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{745} {وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ (87) لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ (88) وَقُلْ إِنِّي أَنَا النَّذِيرُ الْمُبِينُ (89) كَمَا أَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِينَ (90) الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ (91) فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (92) عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (93) [فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ (94) إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ (95) الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ (96) وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ (97) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ (98) وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ (99)] }.

اور البتہ تحقیق دی ہیں ہم نے آپ کو ساتھ (آیتیں ) بار بار دہرائی جانے والیں اور قرآن عظیم (87) نہ ڈالیں آپ اپنی آنکھیں طرف اس (مال و متاع) کے کہ فائدہ دیا ہم نے ساتھ اس کے کئی قسم کے لوگوں کو ان (کافروں ) میں سےاور نہ غم کھائیں ان پراورجھکا دیں اپنا بازو مومنوں کے لیے (88) اور فرما دیجیے، بے شک میں تو خوب ڈرانے والا ہوں ظاہر (89) (ایسے ہی عذاب سے) جیسا کہ نازل کیا تھا ہم نے اوپر قسمیں کھانے والوں کے(90) وہ لوگ جنھوں نے کر دیا قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے (91) پس قسم ہے آپ کے رب کی! ہم ضرور پوچھیں گے ان سے سب سے (92) اس چیز کی بابت جو تھے وہ عمل کرتے (93) پس کھول کر سنا دیں اس چیز کو کہ حکم دیے گئے ہیں آپ (اس کا)اور اعراض کریں مشرکوں سے (94) بلاشبہ ہم کافی ہیں آپ کو استہزاء کرنے والوں سے (95)وہ لوگ جو بناتے ہیں ساتھ اللہ کے معبود دوسرے، پس عنقریب وہ جان لیں گے (انجام اپنا) (96) اور البتہ تحقیق جانتے ہیں ہم کہ بے شک آپ، تنگ ہوتا ہے آپ کا سینہ بوجہ اس کے جو وہ کہتے ہیں (97) پس آپ تسبیح بیان کریں ساتھ حمد کے اپنے رب کی اور ہوں آپ سجدہ کرنے والوں سے (98) اور آپ عبادت کریں اپنے رب کی یہاں تک کہ آجائے آپ کے پاس یقین (موت) (99)

745 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{745} {87} يقول تعالى ممتنًّا على رسوله: {ولقد آتيناك سبعاً من المثاني}: وهنَّ على الصحيح السور السبع الطوال: البقرة وآل عمران والنساء والمائدة والأنعام والأعراف والأنفال مع التوبة. أو أنَّها فاتحة الكتاب؛ لأنها سبع آيات. فيكون عطف {القرآن العظيم} على ذلك من باب عطف العامِّ على الخاصِّ؛ لكثرة ما في المثاني من التوحيد وعلوم الغيب والأحكام الجليلة وتثنيتها فيها. وعلى القول بأن الفاتحة هي السبع المثاني معناها أنَّها سبعُ آياتٍ تُثنى في كلِّ ركعة.

[87] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسولe پر اپنی نوازشوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ وَلَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ ﴾ ’’ہم نے دیں آپ کو سات آیتیں ، دہرائی جانے والی‘‘ صحیح ترین تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد (السبع الطوال) ’’سات لمبی سورتیں ‘‘ یعنی البقرہ، آل عمران، النساء، المائدہ، الانعام، الاعراف، الانفال اور التوبہ ہیں ۔ یا اس سے مراد سورۂ فاتحہ ہے۔ پس ﴿ وَالْ٘قُ٘رْاٰنَ الْعَظِیْمَ ﴾ کا عطف، عام کا عطف خاص پر، کے باب سے ہو گا۔ کیونکہ ان بار بار پڑھی جانے والی سورتوں میں توحید، علوم غیب اور احکام جلیلہ کا ذکر کیا گیا ہے اور ان مضامین کو بار بار دہرایا گیا ہے اور ان مفسرین کے قول کے مطابق جو سورۂ فاتحہ کو (السبع المثانی) کی مراد قرار دیتے ہیں ، معنی یہ ہے کہ یہ سات آیتیں ہیں جو ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں ۔

745 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{745} {88} وإذ كان اللهُ قد أعطاه القرآن العظيم مع السبع المثاني؛ كان قد أعطاه أفضلَ ما يتنافسُ فيه المتنافسون وأعظمَ ما فرح به المؤمنون، {قُلْ بفضل اللهِ وبرحمتِهِ فبذلك فَلْيَفْرحوا هو خيرٌ مما يجمعونَ}، ولذلك قال بعده: {لا تمدَّنَّ عينيك إلى ما متَّعنا به أزواجاً منهم}؛ أي: لا تعجب إعجاباً يحمِلُك على إشغال فكرك بشهوات الدُّنيا التي تمتَّع بها المترفون واغترَّ بها الجاهلون، واستغْنِ بما آتاك الله من المثاني والقرآن العظيم. {ولا تحزَنْ عليهم}: فإنَّهم لا خير فيهم يُرجى، ولا نفع يُرتَقَب؛ فلك في المؤمنين عنهم أحسنُ البدل وأفضل العوض. {واخفِضْ جناحك للمؤمنين}؛ أي: ألِنْ لهم جانبك وحسِّنْ لهم خُلُقَك محبةً وإكراماً وتودُّداً.

[88] اور جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسولe کو قرآن عظیم اور اس کے ساتھ ’’سبع مثانی‘‘ عطا کیں تو گویا اللہ تعالیٰ نے آپe کو بہترین عطیے سے نواز دیا جس کے حصول میں لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر رغبت رکھتے ہیں اور مومنین جس پر سب سے زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ فرمایا: ﴿ قُ٘لْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْ٘یَفْرَحُوْا١ؕ هُوَ خَیْرٌ مِّؔمَّؔا یَجْمَعُوْنَ﴾ (یونس: 10؍58) ’’کہہ دیجیے کہ یہ اللہ کے فضل و کرم اور اس کی رحمت کے سبب سے ہے، پس اس پر انھیں خوش ہونا چاہیے۔ یہ ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جنھیں یہ لوگ جمع کر رہے ہیں ۔‘‘ بنا بریں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّؔنْهُمْ ﴾ ’’آپ ان چیزوں کی طرف نظر نہ ڈالیں جو ہم نے ان میں سے کئی قسم کے لوگوں کو برتنے کے لیے دیں ‘‘ یعنی یہ چیزیں آپ کو اتنی زیادہ اچھی نہ لگیں کہ آپ کے فکرونظر کو شہوات دنیا میں مشغول کر دیں جن سے دنیا پرست خوش حال لوگ متمتع ہو رہے ہیں اور ان کی وجہ سے جاہل لوگ دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو سات بار بار دہرائی جانے والی آیات اور قرآن عظیم عطا کیا ہے اس کے ذریعے سے بے نیاز رہیے۔ ﴿ وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ ﴾ ’’اور ان پر غم نہ کھائیں ‘‘ کیونکہ ان سے کسی بھلائی کی امید اور کسی فائدہ کی توقع نہیں ہے۔ پس اہل ایمان کی صورت میں آپ کو بہترین نعم البدل اور افضل ترین عوض عطا کر دیا گیا ہے۔ ﴿ وَاخْ٘فِضْ جَنَاحَكَ لِلْ٘مُؤْمِنِیْنَ۠﴾ ’’اور مومنوں کے لیے اپنے بازو جھکائے رکھیں ‘‘ یعنی ان کے ساتھ نرم رویہ رکھیے اور ان کے ساتھ حسن اخلاق، محبت، تکریم اور مودت سے پیش آیئے۔

745 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{745} {89} {وقل إني أنا النذير المبين}؛ أي: قم بما عليك من النذارة وأداء الرسالة والتبليغ للقريب والبعيد والعدوِّ والصديق؛ فإنَّك إذا فعلت ذلك؛ فليس عليك من حسابهم من شيء، وما من حسابك عليهم من شيء.

[89] ﴿وَقُ٘لْ اِنِّیْۤ اَنَا النَّذِیْرُ الْمُبِیْنُ﴾ ’’اور کہہ دیجیے، میں تو کھول کر ڈرانے والا ہوں ‘‘ یعنی لوگوں کو ڈرانے، رسالت کی ادائیگی، قریب اور بعید، دوست اور دشمن کو تبلیغ کی ذمہ داری آپ(e) پر عائد ہے اسے پورا کیجیے۔ جب آپ نے یہ ذمہ داری ادا کر دی تو ان کا حساب آپ(e) پر ہے نہ آپ کا حساب ان کے ذمہ ہے۔

745 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{745} {90} وقوله: {كما أنزلنا على المقتسمين}؛ أي: كما أنزلنا العقوبة على المقتسمين على بطلان ما جئتَ به، الساعين لصدِّ الناس عن سبيل الله.

[90] ﴿ كَمَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَى الْ٘مُقْتَسِمِیْنَ ﴾ ’’جیسا کہ (عذاب) بھیجا ہم نے ان بانٹنے والوں پر‘‘ یعنی (آپ ان کو اس طرح عذاب سے ڈرا رہے ہیں ) جیسے ہم نے اس چیز کو جھٹلانے والوں پر، جسے لے کر آپe مبعوث ہوئے اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے میں کوشاں رہنے والوں پر، عذاب نازل کیا۔

745 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{745} {91} {الذين جَعلوا القرآنَ عِضِين}؛ أي: أصنافاً وأعضاءً وأجزاءً يصرِّفونه بحسب ما يهوونه؛ فمنهم من يقولُ: سحرٌ، ومنهم من يقول: كهانةٌ، ومنهم من يقول: مفترىً ... إلى غير ذلك من أقوال الكفرة المكذِّبين به، الذين جعلوا قدحَهم فيه؛ ليصدُّوا الناس عن الهدى.

[91] ﴿الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْ٘قُ٘رْاٰنَ عِضِیْنَ ﴾ ’’جنھوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔‘‘ یعنی جنھوں نے قرآن کو مختلف اصناف، اعضا اور اجزا میں تقسیم کر رکھا ہے اور اپنی خواہشات نفس کے مطابق اس میں تصرف کرتے ہیں ۔ ان میں سے بعض (قرآن کے متعلق) کہتے ہیں کہ یہ جادو ہے، بعض کہتے ہیں کہ یہ کہانت ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ افتراء پردازی ہے اور اس قسم کے دیگر اقوال جو ان جھٹلانے والے کفار نے پھیلا رکھے ہیں جو محض اس مقصد کے لیے قرآن میں جرح و قدح کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو ہدایت کے راستے سے روک سکیں ۔

745 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{745} {92 ـ 93} {فوربِّك لنسألنَّهم أجمعين}؛ أي: جميع من قدح فيه وعابه وحرَّفه وبدله، {عمَّا كانوا يعملون}: وفي هذا أعظم ترهيب وزجر لهم عن الإقامة على ما كانوا يعملون.

[93,92] ﴿ فَوَرَبِّكَ لَنَسْـَٔؔلَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ﴾ ’’پس قسم ہے آپ کے رب کی، ہم ضرور ان سب سے پوچھیں گے‘‘ یعنی ان تمام لوگوں سے جنھوں نے اس قرآن میں جرح و قدح کی، اس میں عیب چینی اور اس میں تحریف کر کے اس کو بدل ڈالا۔ ﴿ عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ ’’ان کاموں کے بارے میں جو وہ کرتے رہے۔‘‘ یعنی ہم ان سے ان کے اعمال کے بارے میں ضرور پوچھیں گے۔ یہ ان کے لیے سب سے بڑی ترہیب اور ان کے اعمال پر زجروتوبیخ ہے۔

745 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{745} {94} ثم أمر الله رسوله أن لا يبالي بهم ولا بغيرهم، وأن يَصْدَعَ بما أمر الله ويعلنَ بذلك لكلِّ أحدٍ ولا يعوقنَّه عن أمره عائقٌ ولا تصدُّه أقوال المتهوِّكين. {وأعرض عن المشركينَ}: أي؛ لا تبال بهم، واتركْ مشاتَمَتَهم ومسابَّتهم مقبلاً على شأنك.

[94] پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe کو حکم دیا کہ وہ کفار مکہ اور اور دیگر کفار کو ہرگز خاطر میں نہ لائیں اور اس چیز کو کھلا کھلا بیان کر دیں جس کا اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور تمام لوگوں کے سامنے اس کا اعلان کر دیں ، کوئی رکاوٹ آپ کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل سے روک نہ دے اور ان مضطرب اذہان کے مالک لوگوں کی باتیں آپ کو اللہ کی راہ سے روک نہ دیں ﴿ وَاَعْرِضْ عَنِ الْ٘مُشْرِكِیْنَ﴾ ’’اور مشرکین سے اعراض کریں ۔‘‘ یعنی مشرکین کی پروا نہ کیجیے اور اپنا کام کرتے رہیے۔

745 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{745} {95} {إنَّا كفيناك المستهزئين}: بك وبما جئت به. وهذا وعدٌ من الله لرسوله أن لا يضرُّه المستهزئون، وأن يكفيه الله إيَّاهم بما شاء من أنواع العقوبة، وقد فعل تعالى: فإنَّه ما تظاهر أحدٌ بالاستهزاء برسول الله - صلى الله عليه وسلم - وبما جاء به؛ إلا أهلَكَه الله وقَتَلَهُ شرَّ قِتْلَةٍ.

[95] ﴿ اِنَّا كَفَیْنٰكَ الْ٘مُسْتَهْزِءِیْنَ ﴾ ’’ہم تمھیں ان لوگوں کے شر سے بچانے کے لیے کافی ہیں جو تم سے استہزا کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی جو لوگ آپ کا اور اس حق کا جسے لے کر آپ مبعوث ہوئے ہیں تمسخر اڑاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے رسول سے یہ وعدہ ہے کہ تمسخر اڑانے والے آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ان کے مقابلہ میں ، اللہ تعالیٰ آپ کے لیے کافی ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسا کر دکھایا، چنانچہ جس کسی نے بھی رسول اللہe اور حق کے ساتھ استہزاء کیا، اللہ تعالیٰ نے اس کو ہلاک کیا اور اسے بدترین طریقے سے قتل کیا۔

745 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{745} {96} ثم ذكر وصفهم، وأنهم كما يؤذونك يا رسول الله؛ فإنَّهم أيضاً يؤذون الله، {الذين يجعلون مع الله إلهاً آخر}: وهو ربُّهم وخالقهم ومدبرهم. {فسوف يعلمون}: غِبَّ أفعالهم إذا وردوا القيامة.

[96] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان لوگوں کا وصف بیان کیا اور فرمایا کہ یہ لوگ جس طرح آپ کو ایذا پہنچاتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کو بھی ایذا دیتے ہیں ۔ ﴿الَّذِیْنَ یَجْعَلُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ﴾ ’’جو کہ ٹھہراتے ہیں اللہ کے ساتھ دوسرے معبود‘‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کا رب اور ان کا خالق ہے اور ان پر تمام احسان اسی کی طرف سے ہیں ۔ ﴿ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’عنقریب وہ جان لیں گے‘‘ یعنی جب وہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں گے تو انھیں اپنے کرتوتوں کا انجام معلوم ہو جائے گا۔

745 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{745} {97} {ولقد نعلمُ أنك يضيقُ صدرُكَ بما يقولون}: لك من التكذيب والاستهزاء؛ فنحن قادرون على استئصالهم بالعذاب والتَّعجيل لهم بما يستحقُّونه، ولكنَّ الله يمهِلُهم، ولا يهملُهم.

[97] ﴿ وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ یَضِیْقُ صَدْرُكَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ﴾ ’’اور ہم جانتے ہیں کہ آپ کا سینہ ان باتوں سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں ‘‘ یعنی وہ آپ کی تکذیب اور استہزاء کی بابت جو باتیں کہتے ہیں ، وہ ہمیں معلوم ہیں اور ہم عذاب کے ذریعے سے ان کے استیصال پر پوری پوری قدرت رکھتے ہیں نیز ان کو فوری طور پر وہ سزا دے سکتے ہیں جس کے وہ مستحق ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو ڈھیل دے رہا ہے، تاہم ان کو مہمل نہیں چھوڑے گا۔

745 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{745} {98} فأنت يا محمدُ، {سبِّحْ بحمد ربِّك وكن من الساجدين}؛ أي: أكثر من ذكر الله وتسبيحه وتحميده والصلاة؛ فإنَّ ذلك يوسع الصدر ويشرَحُه ويُعينك على أمورك.

[98] ﴿ فَ٘سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ كُ٘نْ مِّنَ السّٰؔجِدِیْنَ ﴾ ’’پس (اے محمدe) آپ اپنے رب کی خوبیاں بیان کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوں ۔‘‘ یعنی نہایت کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی تسبیح و تحمید کیجیے اور نماز پڑھیے کیونکہ اس سے شرح صدر حاصل ہوتا ہے اور یہ ذکر اور نماز آپ کے امور میں آپ کی مدد کریں گے۔

745 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ حجر

{745} {99} {واعبُدْ ربَّك حتى يأتِيَكَ اليقينُ}؛ أي: الموت؛ أي: استمرَّ في جميع الأوقات على التقرُّب إلى الله بأنواع العبادات. فامتثل - صلى الله عليه وسلم - أمر ربِّه، فلم يزل دائباً في العبادة حتى أتاه اليقين من ربِّه، - صلى الله عليه وسلم - تسليماً كثيراً.

[99] ﴿ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى یَ٘اْتِیَكَ الْیَقِیْنُ ﴾ ’’اور اپنے رب کی عبادت کیجیے، یہاں تک کہ آپ کے پاس یقینی بات آجائے‘‘ یعنی آپ کو موت آ جائے، یعنی اپنے تمام اوقات میں ، اللہ تعالیٰ کے قرب کے لیے دائمی طور پر مختلف عبادات میں مصروف رہیے۔ پس نبی مصطفیe نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی حتیٰ کہ آپ کو آپ کے رب کی طرف سے واپسی کا حکم آ پہنچا۔ صلی اللہ علیہ وسلم تسلیما کثیرا۔

745 || Details || Previous Page | Next Page |

Index Page First Page