تفسیر سورۂ فاتحہ
تفسير آيت: 1 - 7
{1} تفسیر سورۂ فاتحہ
تفسیر سورۂ فاتحہ
1
|| Details ||
Previous Page |
Next Page |
|
تفسیر سورۂ فاتحہ
{1} بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
1
|| Details ||
Previous Page |
Next Page |
|
تفسیر سورۂ فاتحہ
تفسير آيت: 1 - 7
{1} تفسير الآيات: 1 - 7
تفسير آيت: 1 - 7
1
|| Details ||
Previous Page |
Next Page |
|
تفسیر سورۂ فاتحہ
{1} {بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (1) الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (2) الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (3) مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (4) إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (5) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (6) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (7)}.
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔(1) تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو پالنے والا ہے سارے جہانوں کا(2) نہایت مہربان بڑا رحم کرنے والا(3) مالک ہے یوم جزا کا (4)تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے ہم مدد چاہتے ہیں(5) دکھا ہم کو راستہ سیدھا(6) راستہ ان لوگوں کا کہ انعام کیا تونے ان پر، وہ جو نہیں غصہ کیا گیا ان پر اور نہ وہ جو گمراہ ہیں(7)
1
|| Details ||
Previous Page |
Next Page |
|
تفسیر سورۂ فاتحہ
{1} {1} أي: أبتدئ بكل اسم لله تعالى؛ لأن لفظ «اسم» مفرد مضاف، فيعم جميع الأسماء الحسنى. {الله}: هو المألوه المعبود المستحق لإفراده بالعبادة، لما اتصف به من صفات الألوهية وهي: صفات الكمال. {الرحمن الرحيم}: اسمان دالان على أنه تعالى ذو الرحمة الواسعة العظيمة التي وسعت كل شيء، وعمت كل حي، وكتبها للمتقين المتبعين لأنبيائه ورسله؛ فهؤلاء لهم الرحمة المطلقة، ومن عداهم فله نصيب منها. واعلم: أن من القواعد المتفق عليها بين سلف الأمة، وأئمتها، الإيمان بأسماء الله وصفاته وأحكام الصفات، فيؤمنون مثلاً بأنه رحمن رحيم ذو الرحمة التي اتصف بها المتعلقة بالمرحوم، فالنعم كلها أثر من آثار رحمته، وهكذا في سائر الأسماء. يقال في العليم: إنه عليم ذو علم يعلم به كل شيء، قدير ذو قدرة يقدر على كل شيء.
[1] یعنی میں اللہ تعالیٰ کے ہر نام سے ابتدا کرتا ہوں کیونکہ لفظ ’’اسم‘‘ مفرد اور مضاف ہے جو تمام اسمائے حسنیٰ کو شامل ہے۔ ﴿اللّٰہ﴾ وہ ذات ہے جو بندگی کے قابل اور معبود ہے، وہ اکیلا ہی عبادت کا مستحق ہے کیونکہ وہ الوہیت کی صفات سے متصف ہے اور وہ صفات کمال ہیں۔ ﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ دو نام ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بے پایاں اور عظیم رحمت کا مالک ہے۔ اس کی رحمت ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ہر زندہ چیز کے لیے عام ہے اور اللہ تعالیٰ نے اصحاب تقویٰ اور اپنے انبیاء و رسل کے پیروکاروں کے لیے اس رحمت کو لازم کر دیا ہے۔ پس یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے رحمت مطلقہ ہے اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں کے لیے اس کی رحمت میں سے کچھ حصہ ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور احکام صفات پر ایمان لانا ایمانیات کے ان قواعد میں شمار ہوتا ہے جن پر تمام سلف اور ائمہ امت متفق ہیں، مثلاً وہ ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رحمن ہے، رحیم ہے اور رحمت کا مالک ہے جس سے وہ متصف ہے اور اس کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن پر رحم کیا جاتا ہے۔ پس تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آثار ہیں۔ اور یہی اصول تمام اسمائے حسنیٰ میں جاری ہے جیسے ( اَلْعَلِیْم) کے بارے میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ علیم اور صاحب علم ہے اور اس علم کے ذریعے سے ہر چیز کو جانتا ہے۔ وہ قدیر یعنی صاحب قدرت ہے، ہر چیز پر قادر ہے۔
1
|| Details ||
Previous Page |
Next Page |
|
تفسیر سورۂ فاتحہ
{1} {2} {الحمد لله} هو: الثناء على الله بصفات الكمال، وبأفعاله الدائرة بين الفضل والعدل، فله الحمد الكامل بجميع الوجوه. {رب العالمين} الربُّ: هو المربي جميع العالمين، وهم من سوى الله بخلقه لهم، وإعداده لهم الآلات، وإنعامه عليهم بالنعم العظيمة، التي لو فقدوها لم يمكن لهم البقاء، فما بهم من نعمة فمنه تعالى. وتربيته تعالى لخلقه نوعان: عامة وخاصة: فالعامة هي: خلقه للمخلوقين ورزقهم وهدايتهم لما فيه مصالحهم التي فيها بقاؤهم في الدنيا، والخاصة: تربيته لأوليائه، فيربيهم بالإيمان، ويوفقهم له، ويكملهم ، ويدفع عنهم الصوارف والعوائق الحائلة بينهم وبينه. وحقيقتها: تربية التوفيق لكل خير والعصمة من كل شر، ولعل هذا المعنى هو السرُّ في كون أكثر أدعية الأنبياء بلفظ الربِّ، فإن مطالبهم كلها داخلة تحت ربوبيته الخاصة؛ فدل قوله: {رب العالمين} على انفراده بالخلق، والتدبير، والنعم، وكمال غناه، وتمام فقر العالمين إليه بكل وجه واعتبار.
[2] ﴿اَلْحَمْدُلِلّٰہِ﴾ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات کمال اور اس کے ان افعال کی ثنا ہے جو فضل و عدل کے درمیان دائر ہیں۔ پس ہر پہلو سے کامل حمد کا مالک وہی ہے۔ ﴿رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ ’’جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘ ﴿رَبِّ﴾ وہ ہستی ہے جو تمام جہانوں کی مربی ہے۔ ﴿الْعَالَمِیْن﴾ سے مراد اللہ تعالیٰ کے سوا تمام مخلوق ہے۔ پہلے اس نے اس کو پیدا کیا، ان کے لیے ان کی زندگی کا سروسامان مہیا کیا اور پھر انھیں اپنی ان عظیم نعمتوں سے نوازا کہ اگر وہ نہ ہوتیں تو ان کے لیے زندہ رہنا ممکن نہ ہوتا۔ پس مخلوق کے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کردہ ہے۔ مخلوق کے لیے اللہ تعالیٰ کی تربیت (پرورش کرنے) کی دو قسمیں ہیں: (۱) تربیت عامہ (۲) تربیت خاصہ تربیت عامہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو پیدا کیا، ان کو رزق بہم پہنچایا اور ان مفادات و مصالح کی طرف ان کی راہ نمائی کی جن میں ان کی دنیاوی زندگی کی بقا ہے۔ تربیت خاصہ وہ تربیت ہے جو اس کے اولیاء کے لیے مخصوص ہے پس وہ ایمان کے ذریعے سے ان کی تربیت کرتا ہے، انھیں ایمان کی توفیق سے نوازتا اور ان کی تکمیل کرتا ہے وہ ان سے ان تمام امور کو دور کرتا ہے جو راہ حق پر چلنے سے انھیں باز رکھتے ہیں اور ان تمام رکاوٹوں کو ہٹاتا ہے جو ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حائل ہوتی ہیں۔ تربیت خاصہ کی حقیقت یہ ہے کہ اس سے ہر بھلائی کی توفیق ملتی اور ہر برائی سے حفاظت نصیب ہوتی ہے۔ شاید یہی معنی انبیائے کرام oکی دعاؤں کا سر نہاں ہے کہ ان میں اکثر ’’رب‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ انبیائے کرام کی فریادیں تمام کی تمام اللہ تعالیٰ کی ربوبیت خاصہ کے تحت آتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے تمام مخلوق کو تخلیق کیا ہے۔ وہ اکیلا ہی ان کی تدبیر کرتا ہے اور اسے کمال بے نیازی حاصل ہے اور تمام عالم ہر پہلو اور ہر اعتبار سے اس کا محتاج ہے۔
1
|| Details ||
Previous Page |
Next Page |
|
تفسیر سورۂ فاتحہ
{1} {4} {مالك يوم الدين} المالك: هو من اتصف بصفة الملك التي من آثارها أنه يأمر وينهى، ويثيب ويعاقب، ويتصرف بمماليكه بجميع أنواع التصرفات وأضاف الملك ليوم الدين، وهو يوم القيامة، يوم يدان الناس فيه بأعمالهم خيرها وشرها؛ لأن في ذلك اليوم يظهر للخلق تمام الظهور، كمال ملكه وعدله وحكمته وانقطاع أملاك الخلائق، حتى أنه يستوي في ذلك اليوم الملوك والرعايا والعبيد والأحرار، كلهم مذعنون لعظمته خاضعون لعزته منتظرون لمجازاته راجون ثوابه خائفون من عقابه، فلذلك خصه بالذكر، وإلا فهو المالك ليوم الدين وغيره من الأيام.
[4] ﴿مٰالِکِ یَوْمِ الدِیّنِ﴾ ’’وہ جزا کے دن کا مالک ہے‘‘ (اَلْمَالِک) وہ ہستی ہے جو ملک کی صفت سے متصف ہو۔ جس کے آثار یہ ہیں کہ وہ ہستی حکم دیتی ہے اور روکتی ہے، نیکی پر ثواب عطا کرتی ہے اور گناہوں پر سزا دیتی ہے، وہ اپنی مملوکات میں ہر قسم کا تصرف کرتی ہے اور اس کی ملکیت کی اقسام میں سے ایک جزا کا دن بھی ہے اور وہ قیامت کا دن ہے۔ جس دن لوگوں کو ان کے اچھے یا برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا، اس لیے اس روز اللہ تعالیٰ کی ملکیت کاملہ اور اس کا عدل اور حکمت مخلوق پر بالکل ظاہر ہو جائے گی اور یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ مخلوق کے اختیارات میں کچھ نہیں ہے، حتی کہ اس دن بادشاہ اور رعایا اور غلام اور آزاد سب برابر ہوں گے۔ اس روز تمام مخلوق اس کی عظمت و عزت کے سامنے سرنگوں اور سرفگندہ ہوگی۔ تمام لوگ اس کی سزا و جزا کے فیصلے کے منتظر ہوں گے، اس کے ثواب کے امیدوار اور اس کی سزا سے خائف ہوں گے۔ اسی بنا پر اس نے خاص طور پر اس دن کی ملکیت کا ذکر کیا ہے ورنہ قیامت کے دن اور دیگر دنوں کا وہی مالک ہے۔
1
|| Details ||
Previous Page |
Next Page |
|
تفسیر سورۂ فاتحہ
{1} {5} وقوله: {إياك نعبد وإياك نستعين}؛ أي: نخصك وحدك بالعبادة والاستعانة، لأن تقديم المعمول يفيد الحصر وهو إثبات الحكم للمذكور ونفيه عمّا عداه؛ فكأنه يقول: نعبدك، ولا نعبد غيرك، ونستعين بك، ولا نستعين بغيرك، وتقديم العبادة على الاستعانة من باب تقديم العام على الخاص، واهتماماً بتقديم حقه تعالى على حق عبده. والعبادة: اسم جامع لِمَا يحبه الله ويرضاه من الأعمال والأقوال الظاهرة والباطنة، والاستعانة هي: الاعتماد على الله تعالى في جلب المنافع ودفع المضار، مع الثقة به في تحصيل ذلك. والقيام بعبادة الله والاستعانة به هو الوسيلة للسعادة الأبدية والنجاة من جميع الشرور، فلا سبيل إلى النجاة إلا بالقيام بهما، وإنما تكون العبادة عبادةً إذا كانت مأخوذة عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مقصوداً بها وجه الله، فبهذين الأمرين تكون عبادة، وذكر الاستعانة بعد العبادة مع دخولها فيها؛ لاحتياج العبد في جميع عباداته إلى الاستعانة بالله تعالى؛ فإنه إن لم يعنه الله لم يحصل له ما يريده من فعل الأوامر واجتناب النواهي.
[5] ﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں‘‘ یعنی تجھ اکیلے ہی کو ہم عبادت اور استعانت کے لیے مخصوص کرتے ہیں کیونکہ (نحوی قاعدے کے مطابق) معمول کا اپنے عامل سے پہلے آنا حصر کے معنی پیدا کرتا ہے اور حصر سے مراد صرف مذکور کے لیے حکم کا اثبات اور اس کے سوا کسی اور کے لیے اس حکم کی نفی کرنا ہے۔ گویا بندہ کہتا ہے۔ ’’ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے۔ اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور تیرے سوا کسی سے مدد کے طلبگار نہیں ہوتے۔‘‘ عبادت کو استعانت پر مقدم کرنا عام کو خاص پر مقدم کرنے کی نوع میں سے ہے، نیز اللہ تعالیٰ کے حق کو بندے کے حق پر مقدم کرنے کا اہتمام ہے۔ ’’عبادت‘‘ ایک ایسا اسم ہے جو ان تمام ظاہری اور باطنی اعمال و اقوال کا جامع ہے جن کو اللہ پسند کرتا ہے اور جن سے وہ راضی ہوتا ہے۔ (اِسْتِعَانَۃ)کا مطلب، جلب منافع اور دفع ضرر کے حصول میں پورے وثوق کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسہ کرنا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کا قیام اور منافع کے حصول اور نقصان کے ازالے میں صرف اسی سے مدد کا طلبگار ہونا ابدی سعادت کا وسیلہ اور تمام برائیوں سے نجات کا ذریعہ ہے۔ پس نجات کا راستہ یہی ہے کہ عبادت بھی صرف ایک اللہ کی کی جائے اور مدد بھی صرف اسی سے مانگی جائے۔ اور عبادت اس وقت تک عبادت نہیں جب تک کہ اسے رسول اللہeسے حاصل نہ کیا گیا ہو اور اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا نہ ہو۔ ان دو امور کے وجود سے عبادت متحقق ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ’’استعانت‘‘ کو ’’عبادت‘‘ کے بعد ذکر کیا ہے حالانکہ استعانت عبادت میں داخل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بندہ اپنی تمام عبادات میں اللہ تعالیٰ کی مدد کا محتاج ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد نہ فرمائے تو بندہ اللہ تعالیٰ کے اوامر پر عمل اور اس کی منہیات سے اجتناب نہیں کر سکتا۔
1
|| Details ||
Previous Page |
Next Page |
|
تفسیر سورۂ فاتحہ
{1} {6} {اهدنا الصراط المستقيم}؛ أي: دلنا وأرشدنا، ووفقنا إلى الصراط المستقيم، وهو الطريق الواضح الموصل إلى الله وإلى جنته، وهو معرفة الحق والعمل به، فاهدنا إلى الصراط، واهدنا في الصراط، فالهداية إلى الصراط لزوم دين الإسلام وترك ما سواه من الأديان، والهداية في الصراط تشمل الهداية لجميع التفاصيل الدينية علماً وعملاً؛ فهذا الدعاء من أجمع الأدعية وأنفعها للعبد؛ ولهذا وجب على الإنسان أن يدعو الله به في كل ركعة من صلاته لضرورته إلى ذلك؛ وهذا الصراط المستقيم هو:
[6] پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾ یعنی سیدھے راستے کی طرف ہماری راہ نمائی فرما اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق سے ہمیں نواز۔ (صراط مستقیم) سے مراد وہ واضح راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کی جنت تک پہنچاتا ہے۔ یہ معرفت حق اور اس پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے۔ پس اس راستے کی طرف راہ نمائی فرما اور اس راستے میں ہمیں اپنی راہ نمائی سے نواز۔ صراط مستقیم کی طرف راہ نمائی کا مطلب، دین اسلام کو اختیار کرنا اور اسلام کے سوا دیگر تمام ادیان کا ترک کر دینا ہے اور صراط مستقیم میں راہ نمائی سے نوازنے کے معنی یہ ہیں کہ تمام دینی معاملات میں علم و عمل کے اعتبار سے ہماری صحیح اور مکمل راہ نمائی فرما۔ لہٰذا یہ دعا سب سے زیادہ جامع اور بندۂ مومن کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ بنا بریں انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنی نماز کی ہر رکعت میں اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کیونکہ وہ اس کا ضرورت مند ہے۔
1
|| Details ||
Previous Page |
Next Page |
|
تفسیر سورۂ فاتحہ
{1} {7} {صراط الذين أنعمت عليهم} من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين {غير} صراط {المغضوب عليهم} الذي عرفوا الحق وتركوه كاليهود ونحوهم، وغير صراط {الضالين} الذين تركوا الحق على جهل وضلال كالنصارى ونحوهم.
[7] یہ صراط مستقیم نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کا راستہ ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں سے سرفراز فرمایا یہ ﴿اَلْمَغْضُوبِ عَلَیْھِمْ﴾ لوگوں کا راستہ نہیں، جن پر غضب نازل ہوا، جنھوں نے حق کو پہچان کر بھی اسے ترک کر دیا، مثلاً یہود وغیرہ۔ اور نہ یہ ﴿الضَّآلِّیْنَ﴾ یعنی گمراہ لوگوں کا راستہ ہے جنھوں نے نصاریٰ کی مانند حق کو ترک کر کے جہالت اور گمراہی کو اختیار کیا۔ پس یہ سورت اپنے ایجاز و اختصار کے باوجود ایسے مضامین پر مشتمل ہے جو قرآن مجید کی کسی اور سورت میں نہیں پائے جاتے۔ سورۂ فاتحہ توحید کی اقسام ثلاثہ کو متضمن ہے۔ ۱۔ توحید ربوبیت : اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾سے ماخوذ ہے۔ ۲۔ توحید الوہیت : یعنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو عبادت کا مستحق سمجھنا۔ لفظ ’’اللہ‘‘ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَ﴾ سے ماخوذ ہے۔ ۳۔ توحید اسماء و صفات : توحید اسماء و صفات سے مراد ہے کہ بغیر کسی تعطیل، تمثیل اور تشبیہ کے اللہ تعالیٰ کے لیے ان صفات کمال کا اثبات کرنا جن کو خود اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے اور رسول اللہeنے ثابت کیا ہے اور اس پر لفظ (اَلْحَمْدُ) دلالت کرتا ہے۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں اس کا ذکر گزر چکا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾ اثبات نبوت کو متضمن ہے کیونکہ سیدھے راستے کی طرف راہ نمائی نبوت و رسالت کے بغیر ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿مٰالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾سے اعمال کی جزا و سزا ثابت ہوتی ہے، نیز یہ جزا و سزا عدل و انصاف سے ہوگی کیونکہ ’’دین‘‘ کے معنی ہیں، عدل کے ساتھ بدلہ دینا۔ اور سورۂ فاتحہ تقدیر کے اثباتکو بھی متضمن ہے، نیز اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ بندہ ہی درحقیقت فاعل ہے۔ قدریہ اور جبریہ کے نظریات کے برعکس۔ بلکہ ﴿اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾ تمام اہل بدعت و ضلالت کی تردیدکو متضمن ہے کیونکہ صراط مستقیم سے مراد حق کی معرفت اور اس پر عمل پیرا ہونا ہے اور بدعتی اور گمراہ شخص ہمیشہ حق کا مخالف ہوتا ہے۔ ﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَ﴾ اس بات کو متضمن ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خالص رکھا جائے، چاہے اس کا تعلق عبادات سے ہو یا استعانت سے۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
1
|| Details ||
Previous Page |
Next Page |
|