Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
1
SuraName
تفسیر سورۂ فاتحہ
SegmentID
1
SegmentHeader
AyatText
{5} وقوله: {إياك نعبد وإياك نستعين}؛ أي: نخصك وحدك بالعبادة والاستعانة، لأن تقديم المعمول يفيد الحصر وهو إثبات الحكم للمذكور ونفيه عمّا عداه؛ فكأنه يقول: نعبدك، ولا نعبد غيرك، ونستعين بك، ولا نستعين بغيرك، وتقديم العبادة على الاستعانة من باب تقديم العام على الخاص، واهتماماً بتقديم حقه تعالى على حق عبده. والعبادة: اسم جامع لِمَا يحبه الله ويرضاه من الأعمال والأقوال الظاهرة والباطنة، والاستعانة هي: الاعتماد على الله تعالى في جلب المنافع ودفع المضار، مع الثقة به في تحصيل ذلك. والقيام بعبادة الله والاستعانة به هو الوسيلة للسعادة الأبدية والنجاة من جميع الشرور، فلا سبيل إلى النجاة إلا بالقيام بهما، وإنما تكون العبادة عبادةً إذا كانت مأخوذة عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مقصوداً بها وجه الله، فبهذين الأمرين تكون عبادة، وذكر الاستعانة بعد العبادة مع دخولها فيها؛ لاحتياج العبد في جميع عباداته إلى الاستعانة بالله تعالى؛ فإنه إن لم يعنه الله لم يحصل له ما يريده من فعل الأوامر واجتناب النواهي.
AyatMeaning
[5] ﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں‘‘ یعنی تجھ اکیلے ہی کو ہم عبادت اور استعانت کے لیے مخصوص کرتے ہیں کیونکہ (نحوی قاعدے کے مطابق) معمول کا اپنے عامل سے پہلے آنا حصر کے معنی پیدا کرتا ہے اور حصر سے مراد صرف مذکور کے لیے حکم کا اثبات اور اس کے سوا کسی اور کے لیے اس حکم کی نفی کرنا ہے۔ گویا بندہ کہتا ہے۔ ’’ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے۔ اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور تیرے سوا کسی سے مدد کے طلبگار نہیں ہوتے۔‘‘ عبادت کو استعانت پر مقدم کرنا عام کو خاص پر مقدم کرنے کی نوع میں سے ہے، نیز اللہ تعالیٰ کے حق کو بندے کے حق پر مقدم کرنے کا اہتمام ہے۔ ’’عبادت‘‘ ایک ایسا اسم ہے جو ان تمام ظاہری اور باطنی اعمال و اقوال کا جامع ہے جن کو اللہ پسند کرتا ہے اور جن سے وہ راضی ہوتا ہے۔ (اِسْتِعَانَۃ)کا مطلب، جلب منافع اور دفع ضرر کے حصول میں پورے وثوق کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسہ کرنا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کا قیام اور منافع کے حصول اور نقصان کے ازالے میں صرف اسی سے مدد کا طلبگار ہونا ابدی سعادت کا وسیلہ اور تمام برائیوں سے نجات کا ذریعہ ہے۔ پس نجات کا راستہ یہی ہے کہ عبادت بھی صرف ایک اللہ کی کی جائے اور مدد بھی صرف اسی سے مانگی جائے۔ اور عبادت اس وقت تک عبادت نہیں جب تک کہ اسے رسول اللہeسے حاصل نہ کیا گیا ہو اور اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا نہ ہو۔ ان دو امور کے وجود سے عبادت متحقق ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ’’استعانت‘‘ کو ’’عبادت‘‘ کے بعد ذکر کیا ہے حالانکہ استعانت عبادت میں داخل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بندہ اپنی تمام عبادات میں اللہ تعالیٰ کی مدد کا محتاج ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد نہ فرمائے تو بندہ اللہ تعالیٰ کے اوامر پر عمل اور اس کی منہیات سے اجتناب نہیں کر سکتا۔
Vocabulary
AyatSummary
[5]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List