Tafseer Alssadi Urdu / Arabic

تفسیر سورۂ تکویر تفسير آيت: 1 - 14

{1697}

تفسیر سورۂ تکویر

1697 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ تکویر

{1697} بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔

1697 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ تکویر تفسير آيت: 1 - 14

{1697} تفسير الآيات: 1 - 14

تفسير آيت: 1 - 14

1697 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ تکویر

{1697} {إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ (1) وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ (2) وَإِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ (3) وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ (4) وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ (5) وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ (6) وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ (7) وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ (8) بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ (9) وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (10) وَإِذَا السَّمَاءُ كُشِطَتْ (11) وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ (12) وَإِذَا الْجَنَّةُ أُزْلِفَتْ (13) عَلِمَتْ نَفْسٌ مَا أَحْضَرَتْ (14)}.

جب سورج لپیٹ دیا جائے گا(1) اور جب تارے جھڑ جائیں گے(2) اور جب پہاڑ چلا دیے جائیں گے(3) اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں بے کار چھوڑ دی جائیں گی(4) اور جب وحشی جانور اکٹھے کیے جائیں گے(5) اور جب سمندر بھڑکائے جائیں گے(6) اور جب روحیں (جسموں سے) ملا دی جائیں گی(7) اور جب زندہ درگور کی ہوئی(بچی) سوال کی جائے گی(8)کس گناہ کی وجہ سے وہ قتل کی گئی تھی ؟(9) اور جب اعمال نامے پھیلا دیے جائیں گے (10) اور جب آسمان کی کھال اتار دی جائے گی (11) اور جب جہنم بھڑکائی جائے گی (12) اور جب جنت قریب کر دی جائے گی (13) تو جان لے گا ہر نفس جو کچھ اس نے حاضر کیا (14)

1697 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ تکویر

{1697} {1 ـ 14} أي: إذا حصلتْ هذه الأمور الهائلةُ؛ تميَّز الخلقُ، وعلم كلٌّ ما قدَّمه لآخرته وما أحضره فيها من خيرٍ وشرٍّ، وذلك أنَّه إذا كان يومُ القيامةِ؛ تُكَوَّرُ الشمس؛ أي: تُجمع وتلفُّ ويُخسف القمر ويلقيان في النار، {وإذا النُّجوم انكدرتْ}؛ أي: تغيَّرت وتناثرت من أفلاكها، {وإذا الجبال سُيِّرَتْ}؛ أي: صارت كثيباً مهيلاً، ثم صارت كالعهن المنفوش، ثم تغيَّرت وصارت هباءً منبثًّا وأزيلت عن أماكنها، {وإذا العِشارُ عُطِّلَتْ}؛ أي: عَطَّل الناس يومئذٍ نفائسَ أموالهم التي كانوا يهتمُّون لها، ويراعونها في جميع الأوقات، فجاءهم ما يُذْهِلُهم عنها، فنبَّه بالعشار ـ وهي النوق التي تتبعها أولادُها، وهي أنفس أموال العرب إذ ذاك عندهم ـ على ما هو في معناها من كل نفيس. {وإذا الوحوشُ حُشِرَتْ}؛ أي: جُمِعَتْ ليوم القيامةِ؛ ليقتصَّ الله من بعضها لبعض، ويري العبادَ كمالَ عدلِهِ، حتى إنَّه يقتصُّ للشاة الجمَّاء من الشاةِ القرناء ثم يقال لها: كوني تراباً ، {وإذا البحارُ سُجِّرَتْ}؛ أي: أوقدت فصارت على عظمها ناراً تتوقَّد، {وإذا النُّفوس زُوِّجَتْ}؛ أي: قُرِنَ كلُّ صاحب عمل مع نظيره، فجُمِعَ الأبرار مع الأبرار والفجَّار مع الفجَّار، وزوِّج المؤمنون بالحور العين والكافرون بالشياطين، وهذا كقوله تعالى: {وسيقَ الذين كَفَروا إلى جهنَّم زُمَراً}، {وسيق الذين اتَّقَوْا ربَّهم إلى الجنَّةِ زُمَراً}، {احْشُروا الذين ظَلَموا وأزواجَهم}. {وإذا الموؤُدةُ سُئِلَتْ}: وهي التي كانت الجاهليَّة الجهلاء تفعله من دفن البنات وهنَّ أحياء من غير سببٍ إلاَّ خشيةَ الفقر، فتسأل: {بأيِّ ذنبٍ قُتِلَتْ}، ومن المعلوم أنَّها ليس لها ذنبٌ، ولكن هذا فيه توبيخٌ وتقريعٌ لقاتليها، {وإذا الصُّحُفُ}: المشتملة على ما عمله العاملون من خيرٍ وشرٍّ، {نُشِرَتْ}: وفرِّقت على أهلها؛ فآخذٌ كتابه بيمينه وآخذٌ كتابه بشماله أو من وراء ظهره. {وإذا السماءُ كُشِطَتْ}؛ أي: أزيلت؛ كما قال تعالى: {يومَ تَشَقَّقُ السماءُ بالغمام}، {يومَ نَطْوي السماءَ كطَيِّ السِّجِلِّ للكُتُبِ}، {والأرضُ جميعاً قبضَتُه يوم القيامةِ والسموات مطوياتٌ بيمينه}، {وإذا الجحيمُ سُعِّرَتْ}؛ أي: أوقد عليها فاستعرتْ والتهبت التهاباً لم يكنْ لها قبل ذلك، {وإذا الجنَّةُ أزْلِفَتْ}؛ أي: قرِّبت للمتقين، {علمت نفسٌ}؛ أي: كلُّ نفس لإتيانها في سياق الشرط، {ما أحضرتْ}؛ أي: ما حضر لديها من الأعمال التي قدَّمتها؛ كما قال تعالى: {ووجدوا ما عملوا حاضراً}. وهذه الأوصافُ التي وصَفَ [اللَّهُ] بها يوم القيامة من الأوصاف التي تنزعج لها القلوب، وتشتدُّ من أجلها الكروب، وترتعد الفرائصُ، وتعمُّ المخاوف، وتحثُّ أولي الألباب للاستعداد لذلك اليوم، وتزجُرُهم عن كلِّ ما يوجب اللوم، ولهذا قال بعض السلف: من أراد أن يَنْظُرَ ليوم القيامة كأنه رأي عينٍ؛ فليتدبَّر سورة {إذا الشمسُ كُوِّرَتْ}.

[14-1] یعنی جب یہ ہولناک امور ظاہر ہوں گے تو مخلوق جدا جدا ہو جائے گی، ہر ایک کو علم ہو جائے گا کہ اس نے اپنی آخرت کے لیے کیا آگے بھیجا ہے اور آخرت میں اس نے کیا بھلائی اور برائی پیش کی ہے، یہ اس وقت ہو گا جب قیامت کے روز سورج بے نور ہو جائے گا، اس کو اکٹھا کر کے لپیٹ دیا جائے گا اور چاند کو گرہن لگ جائے گا اور دونوں کو آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ ﴿وَاِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ﴾ ’’اور جب تارے بے نور ہوجائیں گے۔‘‘ یعنی متغیر ہو جائیں گے اور اپنے افلاک سے ٹوٹ کر بکھر جائیں گے۔ ﴿وَاِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ﴾ ’’اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے۔‘‘ یعنی ریت کے بھر بھرے ٹیلے بن جائیں گے، پھر دھنکی ہوئی رنگ دار اون کی مانند بن جائیں گے، پھر بدل کر اڑتا ہوا غبار بن جائیں گے اور ان کو اپنی جگہوں سے ہٹا دیا جائے گا۔ ﴿وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ﴾ ’’اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی۔‘‘ یعنی جب لوگ اپنے بہترین اموال کو بے کار چھوڑ دیں گے، جن کا وہ ہر وقت بہت اہتمام اور دھیان رکھا کرتے تھے، پس ان پر ایسا وقت آئے گا جو ان کو ان اموال سے غافل کر دے گا۔ عِشَارٌ ایسی اونٹنیوں کو کہا جاتا ہے جن کے پیچھے ان کے بچے ہوتے ہیں، یہ عربوں کا بہترین مال تصور کیا جاتا ہے، جو اس وقت ان کے پاس ہوتا تھا ، اس معنی کے مطابق ہر نفیس مال۔ ﴿وَاِذَا الْوُحُوْشُ٘ حُشِرَتْ﴾ ’’اور جب وحشی جانور اکھٹے کیے جائیں گے۔‘‘ یعنی قیامت کے روز جمع کیے جائیں گے تاکہ اللہ تعالیٰ ان میں سے ایک کو دوسرے سے قصاص لے کر دے اور بندے اس کے کمال عدل کا مشاہدہ کریں۔ حتیٰ کہ وہ بے سینگ بکری کو سینگ والی بکری سے قصاص دلائے گا، پھر اس سے کہا جائے گا کہ مٹی ہو جا۔ ﴿وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ﴾ ’’اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں گے۔‘‘ یعنی ان کو گرم کیا جائے گا اور ان کے اتنے بڑے ہونے کے باوجود وہ آگ بن کر بھڑک اٹھیں گے۔ ﴿وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ﴾ ’’اور جب روحیں ملادی جائیں گی۔‘‘ یعنی ہر صاحب عمل کو اسی جیسے صاحب عمل کا ساتھی بنا دیا جائے گا۔ پس ابرابر کو ابرار کے ساتھ، فجار کو فجار کے ساتھ جمع کر دیا جائے گا، اہل ایمان کو حوروں کے ساتھ جوڑے جوڑے بنا دیا جائے گا اور کفار کو شیاطین کے ساتھ۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے: ﴿وَسِیْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًا ﴾ (الزمر:39؍72) ’’ اور کافروں کو گروہ گروہ بناکر جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔‘‘ اور ﴿وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْؔجَنَّةِ زُمَرًا ﴾(الزمر:39؍73) ’’اور ان لوگوں کو جو اپنے رب سے ڈرتے رہے، گروہ گروہ بناکر جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔‘‘ ﴿ اُحْشُ٘رُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ ﴾ (الصافات:37؍22) ’’ان لوگوں کو جنھوں نے ظلم کا ارتکاب کیا اور ان کے ہم جنسوں کو اکٹھا کرو۔‘‘ ﴿ وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ﴾ زمانہ جاہلیت کے جہلاء بیٹیوں کو فقیری کے ڈر سے کسی سبب کے بغیر زندہ دفن کر دیا کرتے تھے، پس اس زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا: ﴿ بِاَیِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ﴾ ’’کہ وہ کسی گناہ کی وجہ سے قتل کی گئی؟‘‘ اور یہ بات معلوم ہے کہ ان بیٹیوں کا کوئی گناہ نہیں تھا، مگر اس (کے ذکر) میں بیٹیوں کے قاتلین کے لیے زجر و توبیخ اور جھڑکی ہے۔ ﴿ وَاِذَا الصُّحُفُ ﴾ اور جب وہ اعمال نامے جو عمل کرنے والوں کے اچھے برے اعمال پر مشتمل ہوں گے ﴿ نُ٘شِرَتْ﴾ ان کو الگ الگ کر کے عمل کرنے والوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ پس کسی نے اپنا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں لے رکھا ہو گا اور کسی نے بائیں ہاتھ میں لے رکھا ہو گا یا اپنی پیٹھ پیچھے چھپا رکھا ہو گا۔ ﴿ وَاِذَا السَّمَآءُ كُشِطَتْ﴾ ’’اور جب آسمان کی کھال کھینچ لی جائے گی۔‘‘ یعنی آسمان کو زائل کر دیا جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَیَوْمَ تَ٘شَ٘قَّقُ السَّمَآءُ بِالْغَمَامِ ﴾ (الفرقان:25؍25) ’’جس روز آسمان بادلوں کے ساتھ پھٹ جائے گا۔‘‘ فرمایا :﴿ یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ كَ٘طَیِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ﴾ (الأنبیاء: 21؍104) ’’جس روز ہم آسمانوں کو یوں لپیٹ دیں گے جس طرح اوراق کا دفتر لپیٹ دیتے ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌۢ بِیَمِیْنِهٖ ﴾ (الزمر:39؍67) ’’قیامت کے روز تمام زمین اس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ پر لپٹے ہوئے ہوں گے۔‘‘ ﴿ وَاِذَا الْؔجَحِیْمُ سُعِّرَتْ﴾ جب جہنم میں آگ جلائی جائے گی اور جہنم بھڑک کر اتنا شعلہ زن ہو جائے گا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا نہ تھا۔ ﴿ وَاِذَا الْؔجَنَّةُ اُزْلِفَتْ﴾ یعنی جنت اہل تقویٰ کے قریب کر دی جائے گی۔ ﴿ عَلِمَتْ نَ٘فْ٘سٌ ﴾ تو ہر نفس جان لے گا، نَفْسٌ کا لفظ عام ہے کیونکہ اسے شرط کے سیاق میں (نکرہ) لایا گیا ہے ﴿ مَّاۤ اَحْضَرَتْ﴾ یعنی وہ اعمال جو اس کے پاس موجود ہوں گے اور جو اس نے آگے بھیجے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا ﴾ (الکہف:18؍49) ’’اور انھوں نے جو عمل کیے ، ان کو وہ موجود پائیں گے۔‘‘ یہ اوصاف جن سے اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کو موصوف کیا ہے، ایسے اوصاف ہیں جن سے دل دہل جاتے ہیں، کرب میں شدت آ جاتی ہے، جسم کانپنے لگتا ہے، خوف چھا جاتا ہے، یہ اوصاف خرد مند لوگوں کو اس دن کے لیے تیاری کرنے پر آمادہ کرتے ہیں اور ہر اس کام سے روکتے ہیں جو ملامت کا موجب ہے۔ اسی لیے سلف میں سے کسی کا قول ہے: جو کوئی قیامت کے دن کو اسی طرح دیکھنا چاہے، گویا وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے، تو وہ سورۂ تکویر میں تدبر کرے۔

1697 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ تکویر تفسير آيت: 15 - 29

{1698} تفسير الآيات:: 15 - 29

تفسير آيت: 15 - 29

1698 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ تکویر

{1698} {فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ (15) الْجَوَارِ الْكُنَّسِ (16) وَاللَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ (17) وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ (18) إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ (19) ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ (20) مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ (21) وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ (22) وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ (23) وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ (24) وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطَانٍ رَجِيمٍ (25) فَأَيْنَ تَذْهَبُونَ (26) إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ (27) لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ (28) وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (29)}.

پس قسم کھاتا ہوں میں پیچھے ہٹنے والے (15) چلنے والے، چھپ جانے والے تاروں کی (16) اور رات کی جب وہ چلی جاتی ہے (17) اور صبح کی جب وہ روشن ہوتی ہے (18) بلاشبہ یہ (قرآن) ، البتہ قول ہے رسول کریم (جبریل) کا(19) جو قوت والا ہے نزدیک عرش والے کے بلند مرتبہ ہے (20) اطاعت کیا جاتا ہے وہاں (آسمانوں میں)، امین ہے (21) اور نہیں ساتھی تمھارا دیوانہ (22) اور البتہ تحقیق اس (نبی) نے دیکھا ہے اس (جبریل) کو کھلے کنارے میں (23) اور نہیں ہے وہ غیب (کی باتوں) پر بخیل (24) اور نہیں ہے یہ (قرآن) قول کسی شیطان مردود کا (25) پس کہاں جاتے ہوتم؟ (26) نہیں ہے یہ (قرآن کچھ اور) مگر نصیحت جہانوں کے لیے(27) واسطے اس شخص کے جو چاہے تم میں سے یہ کہ وہ سیدھا چلے (28) اور نہیں چاہتے تم مگر یہ کہ چاہے اللہ رب العالمین (29)

1698 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ تکویر

{1698} {15 ـ 16} أقسم تعالى {بالخُنَّسِ}: وهي الكواكب التي تخنس؛ أي: تتأخَّر عن سير الكواكب المعتاد إلى جهة المشرق، وهي النجوم السبعة السيَّارة؛ الشمس والقمر والزُّهرة والمشتري والمريخ وزُحل وعطارد؛ فهذه السبعة لها سيران: سيرٌ إلى جهة المغرب مع سائر الكواكب والفلك. وسير معاكسٌ لهذا من جهة المشرق تختصُّ به هذه السبعة دون غيرها، فأقسم الله بها في حال خنوسها؛ أي: تأخُّرها، وفي حال جريانها، وفي حال كُنوسها؛ أي: استتارها بالنهار. ويُحتمل أنَّ المراد بها جميع الكواكب السيَّارة وغيرها.

[15، 16] اللہ تبارک و تعالیٰ نے پیچھے ہٹنے والے ستاروں کی قسم کھائی ہے ﴿ بِالْ٘خُنَّ٘سِ﴾ اس سے مراد وہ ستارے ہیں جو مشرق کی جہت میں، کواکب کی عادی رفتار سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور ہفت سیارگان یہ ہیں: سورج، چاند، زہرہ، مشتری، مریخ، زحل اور عطارد۔ ان ساتوں سیاروں کاچلنا دو جہتوں میں ہے۔ ایک چلنا مغرب کی جہت میں تمام کواکب اور فلک کے ساتھ اورایک چلنا اس جہت کے برعکس مشرق کی جہت میں، یہ چلنا صرف انھی سات سیاروں کے ساتھ مختص ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کے پیچھے ہٹنے کے حال میں، ان کے چلنے اور ان کے چھپ جانے یعنی دن کے وقت مستور ہونے کے حال کی قسم کھائی ہے اور اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد تمام کواکب اور سیارے وغیرہ ہوں۔

1698 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ تکویر

{1698} {17 ـ 18} {والليل إذا عسعس}؛ أي: أقبل، وقيل أَدبر ، والنهار {إذا تَنَفَّسَ}؛ أي: بدت علائم الصبح، وانشقَّ النور شيئاً فشيئاً حتى يستكمل وتطلع الشمس.

[17، 18] ﴿ وَالَّیْلِ اِذَا عَسْعَسَ﴾ یعنی رات کی قسم جب وہ جانے لگے، اور کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ جب رات آنے لگے۔﴿ وَالصُّبْحِ اِذَا تَ٘نَفَّ٘سَ﴾ یعنی جب صبح کی علامات ظاہر ہونے لگیں اور روشنی تھوڑی تھوڑی پھوٹنے لگے، یہاں تک کہ مکمل ہو جائے اور سورج نکل آئے۔

1698 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ تکویر

{1698} {19} وهذه آياتٌ عظامٌ أقسم الله عليها لقوَّة سند القرآن وجلالته وحفظه من كلِّ شيطانٍ رجيم، فقال: {إنَّه لَقولُ رسولٍ كريم}: وهو جبريل عليه السلام، نزل به من الله تعالى؛ كما قال تعالى: {وإنَّه لَتنزيل ربِّ العالمين. نَزَلَ به الرُّوحُ الأمينُ. على قلبكَ لتكونَ من المُنذِرينَ}. ووصفه الله بالكريم لكرم أخلاقِهِ و [كثرة] خصالِهِ الحميدة؛ فإنَّه أفضل الملائكة وأعظمهم رتبةً عند ربِّه.

[19] یہ بڑی بڑی نشانیاں جن کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے، قرآن کی سند کی قوت، اس کی جلالت اور ہر شیطان مردود سے اس کی حفاظت کی بنا پر ہے۔اس لیے فرمایا ﴿ اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِیْمٍ﴾ ’’بے شک یہ معزز فرشتے کا قول ہے۔‘‘ اور وہ ہیں جبریلu جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے لے کر نازل ہوئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ۰۰ نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُۙ۰۰ عَلٰى قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ﴾ (الشعراء: 26؍192-194) ’’یہ قرآن رب کائنات کی طرف سے نازل کردہ ہے، اسے روح الامین لے کر نازل ہوئے آپ کے قلب پر تاکہ آپ تنبیہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔‘‘اللہ تعالیٰ نے اسے اس کے اچھے اخلاق اور قابل تعریف خصائل کی وجہ سے﴿ کَرِیْمٌ﴾ کی صفت سے موصوف کیا ہے کیونکہ یہ فرشتوں میں سب سے افضل اور اپنے رب کے ہاں سب سے بڑے رتبے کا حامل ہے۔

1698 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ تکویر

{1698} {20} {ذي قوَّةٍ}: على ما أمره الله به، ومن قوَّته أنَّه قَلَبَ ديار قوم لوطٍ بهم فأهلكهم، {عند ذي العرش}؛ أي: جبريل مقرَّبٌ عند الله، له منزلةٌ رفيعةٌ وخصيصةٌ من الله اختصَّه بها، {مكينٌ}؛ أي: له مكانةٌ ومنزلةٌ فوق منازل الملائكة كلِّهم.

[20] ﴿ ذِیْ قُوَّةٍ﴾ اللہ تعالیٰ نے اسے جو حکم دیا، اس کی تعمیل کی قوت اور طاقت رکھنے والا ہے۔ یہ جبریل uکی قوت تھی کہ انھوں نے لوط uکی قوم کی بستیوں کو ان پر الٹ کر ان کو ہلاک کر دیا۔ ﴿ عِنْدَ ذِی الْ٘عَرْشِ﴾ ’’عرش والے کے پاس‘‘ یعنی جبریل uاللہ تعالیٰ کے ہاں بہت مقرب ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی خاص اور بلند قدر و منزلت ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو مختص کیا ہے ﴿مَكِیْنٍ﴾ یعنی تمام ملائکہ سے بڑھ کر ان کی قدر و منزلت ہے۔

1698 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ تکویر

{1698} {21} {مطاع ثَمَّ}؛ أي: جبريل مطاعٌ في الملأ الأعلى؛ لأنَّه من الملائكة المقرَّبين، نافذ فيهم أمرُه، مطاعٌ رأيه، {أمينٍ}؛ أي: ذو أمانة وقيام بما أُمِرَ به، لا يزيد ولا ينقص ولا يتعدَّى ما حُدَّ له، وهذا كلُّه يدلُّ على شرف القرآن عند الله تعالى: فإنَّه بعث به هذا الملك الكريم الموصوف بتلك الصفات الكاملة، والعادةُ أنَّ الملوك لا ترسل الكريم عليها إلاَّ في أهمِّ المهمَّات وأشرف الرسائل.

[21] ﴿مُّطَاعٍ ثَمَّ﴾ یعنی ملأ اعلیٰ میں جبریل uکی اطاعت کی جاتی ہے،ان کے پاس مقرب فرشتوں کی ایک جماعت ہے جن پر ان کا حکم نافذ ہوتا ہے اور ان کی رائے کی اطاعت کی جاتی ہے ﴿ اَمِیْنٍ﴾ یعنی امانت دار ہیں، ان کو جو حکم دیا جاتا ہے، اس کی تعمیل کرتے ہیں اس میں کمی بیشی نہیں کرتے، اور جو حدود ان کے لیے مقرر کی گئی ہیں، ان سے تجاوز نہیں کرتے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ہاں قرآن کریم کے شرف پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ اس کے ساتھ ایک عالی مرتبہ فرشتے کو بھیجا، جو ان صفات کاملہ سے موصوف ہے، عام عادت یہ ہے کہ بادشاہ کسی عالی مرتبہ ہستی کو اہم ترین مہم اور بلند مرتبہ پیغام ہی کے لیے بھیجا کرتے ہیں۔

1698 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ تکویر

{1698} {22} ولما ذكر فضل الرسول الملكيِّ الذي جاء بالقرآن؛ ذكر فضل الرسول البشريِّ الذي نزل عليه القرآنُ، ودعا إليه الناس، فقال: {وما صاحِبُكم}: وهو محمدٌ - صلى الله عليه وسلم - {بمجنونٍ}؛ كما يقوله أعداؤه المكذِّبون برسالته، المتقوِّلون عليه [من] الأقوال التي يريدون أن يطفِئوا بها ما جاء به ، بل هو أكملُ الناس عقلاً، وأجزلُهم رأياً، وأصدقُهم لهجةً.

[22] اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول ملکی کی جو قرآن لے کر آیا، فضیلت بیان کرنے کی بعد رسول بشری کی فضیلت کا ذکر کیا، جس پر قرآن نازل ہوا اور جس کی طرف اس نے لوگوں کو دعوت دی، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَمَا صَاحِبُكُمْ﴾ ’’اور تمھارے ساتھی نہیں ہیں۔‘‘ اور وہ ہیں محمد مصطفیٰe ﴿ بِمَجْنُوْنٍ﴾ ’’مجنون‘‘ جیسا کہ آپ کی رسالت کو جھٹلانے والے، آپ کے دشمن کہتے ہیں، آپ کے بارے میں طرح طرح کے جھوٹ گھڑتے ہیں، جن کے ذریعے سے وہ اس نور کو بجھا دینا چاہتے ہیں، جسے لے کر آپ آئے ہیں بلکہ آپ تو عقل میں سب سے زیادہ کامل، رائے میں سب سے زیادہ صائب اور قول میں سب سے زیادہ سچے ہیں۔

1698 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ تکویر

{1698} {23} {ولقد رآه بالأفُقِ المُبين}؛ أي: رأى محمدٌ - صلى الله عليه وسلم - جبريل عليه السلام بالأفُقِ البيِّن الذي هو أعلى ما يلوح للبصر.

[23] ﴿ وَلَقَدْ رَاٰهُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ﴾ یعنی حضرت محمد مصطفیٰe نے جبریل uکو دیکھا جبکہ وہ آسمان کے کھلے افق پر تھے، جو اتنا بلند ہوتا ہے کہ آنکھ کو واضح نظر آتا ہے۔

1698 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ تکویر

{1698} {24} {وما هو على الغيب بضَنينٍ}؛ أي: وما هو على ما أوحاه الله إليه بِمُتَّهَم يزيد فيه أو ينقص أو يكتم بعضه، بل هو - صلى الله عليه وسلم - أمينُ أهل السماء وأهل الأرض، الذي بلَّغ رسالات ربِّه البلاغَ المبين، فلم يَشُحَّ بشيءٍ منه عن غنيٍّ ولا فقيرٍ ولا رئيسٍ ولا مرؤوسٍ ولا ذكرٍ ولا أنثى ولا حضريٍّ ولا بدويٍّ، ولذلك بعثه الله في أمَّةٍ أميَّةٍ جاهلةٍ جهلاء، فلم يمت - صلى الله عليه وسلم - حتى كانوا علماء ربَّانيِّين وأحباراً متفرِّسين، إليهم الغاية في العلوم، وإليهم المنتهى في استخراج الدقائق والمفهوم ، وهم الأساتذة، وغيرهم قصاراه أن يكون من تلاميذهم.

[24] ﴿ وَمَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ﴾ ’’اور وہ پوشیدہ باتوں کے بتانے میں بخیل نہیں۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو آپ کی طرف وحی کی ہے، آپ اس کے بارے میں بخیل نہیں ہیں کہ اس میں سے کچھ چھپا لیں بلکہ آپ (e) تو آسمان والوں اور زمین والوں کے امین ہیں، جنھوں نے اپنے رب کی رسالت کو کھلے طور پر پہنچا دیا بلکہ آپ نے رسالت میں سے کسی چیز کو پہنچانے میں کسی مال دار، کسی محتاج، کسی رئیس، کسی رعیت، کسی مرد، کسی عورت، کسی شہری اور کسی دیہاتی سے کبھی بخل سے کام نہیں لیا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک ان پڑھ اور جاہل امت میں مبعوث کیا۔ جب آپ نے وفات پائی تو یہ لوگ علمائے ربانی اور دانش مندان ذی فراست بن چکے تھے۔ تمام علوم کی غایت و انتہا یہی لوگ تھے اور دقائق و مفاہیم کے استخراج میں یہی منتہیٰ تھے، یہ لوگ اساتذہ تھے اور دیگر لوگوں کی انتہا یہ ہے کہ وہ ان کے تلامذہ تھے۔

1698 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ تکویر

{1698} {25} {وما هو بقول شيطانٍ رجيمٍ}: لما ذكر جلالة كتابه وفضلَه بذكر الرسولين الكريمين اللذين وَصَلَ إلى الناس على أيديهما، وأثنى الله عليهما بما أثنى؛ دَفَعَ عنه كلَّ آفةٍ ونقصٍ مما يقدحُ في صدقه، فقال: {وما هو بقول شيطانٍ رجيمٍ}؛ أي: في غاية البعد عن الله وعن قربه.

[25] ﴿ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَ٘یْطٰنٍ رَّجِیْمٍ﴾ ’’اوریہ شیطان مردود کا کلام نہیں۔‘‘ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ان دو مکرم رسولوں کا ذکر کر کے اپنی کتاب کی جلالت اور فضیلت کا ذکر کیا اور ان کی مدح و ثنا کی، جن کے ذریعے سے یہ کتاب لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچی، اس لیے اس نے اس کتاب سے ہر آفت اور ہر نقص کو دور ہٹا دیا جو اس کی صداقت میں قادح ہو سکتا ہے، بنابریں فرمایا: ﴿ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَ٘یْطٰنٍ رَّجِیْمٍ﴾ ’’اوریہ شیطان مردود کا کلام نہیں۔‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے قرب سے بہت دور ہے۔

1698 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ تکویر

{1698} {26} {فأين تذهبون}؛ أي: كيف يخطر هذا ببالكم؟! وأين عَزَبَتْ عنكم أذهانكم حتى جعلتم الحقَّ الذي هو في أعلى درجات الصدق بمنزلة الكذب الذي هو أنزلُ ما يكون وأرذلُ وأسفلُ الباطل؟! هل هذا إلاَّ من انقلاب الحقائق؟!

[26] ﴿ فَاَیْؔنَ تَذْهَبُوْنَ﴾ ’’ پھر تم کدھر جارہے ہو۔‘‘ یعنی تمھارے دل میں یہ بات کیسے آئی اور تمھاری عقل کہاں چلی گئی کہ تم نے حق کو جو صداقت کے بلند ترین درجے پر ہے، بمنزلہ جھوٹ قرار دے دیا، جو سب سے گھٹیا، سب سے رذیل اور سب سے اسفل باطل ہے ۔ کیا یہ حقائق کو بدلنے کے سوا کچھ اور ہے؟

1698 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ تکویر

{1698} {27} {إنْ هو إلاَّ ذكرٌ للعالمين}: يتذكَّرون به ربَّهم وماله من صفات الكمال وما ينزَّه عنه من النقائص والرذائل والأمثال، ويتذكَّرون به الأوامر والنواهي وحكمها؛ ويتذكَّرون به الأحكام القدريَّة والشرعيَّة والجزائيَّة، وبالجملة يتذكَّرون به مصالح الدارين، وينالون بالعمل به السعادتين.

[27] ﴿ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْ٘عٰلَمِیْنَ﴾ ’’یہ تو جہان والوں کے لیے نصیحت ہے۔‘‘ یعنی جس کے ذریعے سے وہ اپنے رب، اس کی صفات کمال اور ان صفات کو یاد رکھتے ہیں جن کے ذریعے سے تمام نقائص، رذائل اور امثال سے اس کی تنزیہہ ثابت ہوتی ہے، اس کے ذریعے سے وہ اوامر و نواہی اور ان کے حکم کو یاد رکھتے ہیں اور اس کے ذریعے سے احکام قدریہ، احکام شرعیہ اور احکام جزائیہ کو یاد رکھتے ہیں۔ وہ بالجملہ دنیا و آخرت کے مصالح کو یاد رکھتے ہیں اور عمل کے ذریعے سے دنیا اور آخرت کی سعادت کو پالیتے ہیں۔

1698 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ تکویر

{1698} {28} {لمن شاء منكم أن يَسْتَقيمَ}: بعد ما تبيَّن الرشد من الغيِّ والهدى من الضَّلال.

[28] ﴿ لِمَنْ شَآءَ مِنْكُمْ اَنْ یَّسْتَقِیْمَ﴾ ’’اس کے لیے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے۔‘‘ گمراہی میں سے رشد اور ضلالت میں سے ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد۔

1698 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ تکویر

{1698} {29} {وما تشاؤون إلاَّ أن يشاء الله ربُّ العالمين}؛ أي: فمشيئتُه نافذةٌ لا يمكن أن تعارضَ أو تمانع. وفي هذه الآية وأمثالها ردٌّ على فرقتي القدريَّة النُّفاة والقدريَّة المجبرة؛ كما تقدَّم مثالها. والله أعلم والحمد لله.

[29] ﴿ وَمَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ ’’اور تم بغیر پروردگار عالم کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے۔‘‘ پس اس کی مشیت نافذ ہے، ممکن نہیں کہ اس کی مشیت کی مخالفت کی جا سکے یا اس کو روکا جا سکے۔ اس آیت کریمہ اور اس جیسی دیگر آیات میں دو فرقوں، یعنی قدریہ اور جبریہ، جو اللہ تعالیٰ کی مشیت کا انکار کرتے ہیں، کا رد ہے۔ جیسا کہ اس کی مثالیں گزر چکی ہیں ۔ وَاللہُ أَعْلَمُ۔

1698 || Details || Previous Page | Next Page |

Index Page First Page