Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
81
SuraName
تفسیر سورۂ تکویر
SegmentID
1697
SegmentHeader
AyatText
{1 ـ 14} أي: إذا حصلتْ هذه الأمور الهائلةُ؛ تميَّز الخلقُ، وعلم كلٌّ ما قدَّمه لآخرته وما أحضره فيها من خيرٍ وشرٍّ، وذلك أنَّه إذا كان يومُ القيامةِ؛ تُكَوَّرُ الشمس؛ أي: تُجمع وتلفُّ ويُخسف القمر ويلقيان في النار، {وإذا النُّجوم انكدرتْ}؛ أي: تغيَّرت وتناثرت من أفلاكها، {وإذا الجبال سُيِّرَتْ}؛ أي: صارت كثيباً مهيلاً، ثم صارت كالعهن المنفوش، ثم تغيَّرت وصارت هباءً منبثًّا وأزيلت عن أماكنها، {وإذا العِشارُ عُطِّلَتْ}؛ أي: عَطَّل الناس يومئذٍ نفائسَ أموالهم التي كانوا يهتمُّون لها، ويراعونها في جميع الأوقات، فجاءهم ما يُذْهِلُهم عنها، فنبَّه بالعشار ـ وهي النوق التي تتبعها أولادُها، وهي أنفس أموال العرب إذ ذاك عندهم ـ على ما هو في معناها من كل نفيس. {وإذا الوحوشُ حُشِرَتْ}؛ أي: جُمِعَتْ ليوم القيامةِ؛ ليقتصَّ الله من بعضها لبعض، ويري العبادَ كمالَ عدلِهِ، حتى إنَّه يقتصُّ للشاة الجمَّاء من الشاةِ القرناء ثم يقال لها: كوني تراباً ، {وإذا البحارُ سُجِّرَتْ}؛ أي: أوقدت فصارت على عظمها ناراً تتوقَّد، {وإذا النُّفوس زُوِّجَتْ}؛ أي: قُرِنَ كلُّ صاحب عمل مع نظيره، فجُمِعَ الأبرار مع الأبرار والفجَّار مع الفجَّار، وزوِّج المؤمنون بالحور العين والكافرون بالشياطين، وهذا كقوله تعالى: {وسيقَ الذين كَفَروا إلى جهنَّم زُمَراً}، {وسيق الذين اتَّقَوْا ربَّهم إلى الجنَّةِ زُمَراً}، {احْشُروا الذين ظَلَموا وأزواجَهم}. {وإذا الموؤُدةُ سُئِلَتْ}: وهي التي كانت الجاهليَّة الجهلاء تفعله من دفن البنات وهنَّ أحياء من غير سببٍ إلاَّ خشيةَ الفقر، فتسأل: {بأيِّ ذنبٍ قُتِلَتْ}، ومن المعلوم أنَّها ليس لها ذنبٌ، ولكن هذا فيه توبيخٌ وتقريعٌ لقاتليها، {وإذا الصُّحُفُ}: المشتملة على ما عمله العاملون من خيرٍ وشرٍّ، {نُشِرَتْ}: وفرِّقت على أهلها؛ فآخذٌ كتابه بيمينه وآخذٌ كتابه بشماله أو من وراء ظهره. {وإذا السماءُ كُشِطَتْ}؛ أي: أزيلت؛ كما قال تعالى: {يومَ تَشَقَّقُ السماءُ بالغمام}، {يومَ نَطْوي السماءَ كطَيِّ السِّجِلِّ للكُتُبِ}، {والأرضُ جميعاً قبضَتُه يوم القيامةِ والسموات مطوياتٌ بيمينه}، {وإذا الجحيمُ سُعِّرَتْ}؛ أي: أوقد عليها فاستعرتْ والتهبت التهاباً لم يكنْ لها قبل ذلك، {وإذا الجنَّةُ أزْلِفَتْ}؛ أي: قرِّبت للمتقين، {علمت نفسٌ}؛ أي: كلُّ نفس لإتيانها في سياق الشرط، {ما أحضرتْ}؛ أي: ما حضر لديها من الأعمال التي قدَّمتها؛ كما قال تعالى: {ووجدوا ما عملوا حاضراً}. وهذه الأوصافُ التي وصَفَ [اللَّهُ] بها يوم القيامة من الأوصاف التي تنزعج لها القلوب، وتشتدُّ من أجلها الكروب، وترتعد الفرائصُ، وتعمُّ المخاوف، وتحثُّ أولي الألباب للاستعداد لذلك اليوم، وتزجُرُهم عن كلِّ ما يوجب اللوم، ولهذا قال بعض السلف: من أراد أن يَنْظُرَ ليوم القيامة كأنه رأي عينٍ؛ فليتدبَّر سورة {إذا الشمسُ كُوِّرَتْ}.
AyatMeaning
[14-1] یعنی جب یہ ہولناک امور ظاہر ہوں گے تو مخلوق جدا جدا ہو جائے گی، ہر ایک کو علم ہو جائے گا کہ اس نے اپنی آخرت کے لیے کیا آگے بھیجا ہے اور آخرت میں اس نے کیا بھلائی اور برائی پیش کی ہے، یہ اس وقت ہو گا جب قیامت کے روز سورج بے نور ہو جائے گا، اس کو اکٹھا کر کے لپیٹ دیا جائے گا اور چاند کو گرہن لگ جائے گا اور دونوں کو آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ ﴿وَاِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ﴾ ’’اور جب تارے بے نور ہوجائیں گے۔‘‘ یعنی متغیر ہو جائیں گے اور اپنے افلاک سے ٹوٹ کر بکھر جائیں گے۔ ﴿وَاِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ﴾ ’’اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے۔‘‘ یعنی ریت کے بھر بھرے ٹیلے بن جائیں گے، پھر دھنکی ہوئی رنگ دار اون کی مانند بن جائیں گے، پھر بدل کر اڑتا ہوا غبار بن جائیں گے اور ان کو اپنی جگہوں سے ہٹا دیا جائے گا۔ ﴿وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ﴾ ’’اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی۔‘‘ یعنی جب لوگ اپنے بہترین اموال کو بے کار چھوڑ دیں گے، جن کا وہ ہر وقت بہت اہتمام اور دھیان رکھا کرتے تھے، پس ان پر ایسا وقت آئے گا جو ان کو ان اموال سے غافل کر دے گا۔ عِشَارٌ ایسی اونٹنیوں کو کہا جاتا ہے جن کے پیچھے ان کے بچے ہوتے ہیں، یہ عربوں کا بہترین مال تصور کیا جاتا ہے، جو اس وقت ان کے پاس ہوتا تھا ، اس معنی کے مطابق ہر نفیس مال۔ ﴿وَاِذَا الْوُحُوْشُ٘ حُشِرَتْ﴾ ’’اور جب وحشی جانور اکھٹے کیے جائیں گے۔‘‘ یعنی قیامت کے روز جمع کیے جائیں گے تاکہ اللہ تعالیٰ ان میں سے ایک کو دوسرے سے قصاص لے کر دے اور بندے اس کے کمال عدل کا مشاہدہ کریں۔ حتیٰ کہ وہ بے سینگ بکری کو سینگ والی بکری سے قصاص دلائے گا، پھر اس سے کہا جائے گا کہ مٹی ہو جا۔ ﴿وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ﴾ ’’اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں گے۔‘‘ یعنی ان کو گرم کیا جائے گا اور ان کے اتنے بڑے ہونے کے باوجود وہ آگ بن کر بھڑک اٹھیں گے۔ ﴿وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ﴾ ’’اور جب روحیں ملادی جائیں گی۔‘‘ یعنی ہر صاحب عمل کو اسی جیسے صاحب عمل کا ساتھی بنا دیا جائے گا۔ پس ابرابر کو ابرار کے ساتھ، فجار کو فجار کے ساتھ جمع کر دیا جائے گا، اہل ایمان کو حوروں کے ساتھ جوڑے جوڑے بنا دیا جائے گا اور کفار کو شیاطین کے ساتھ۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے: ﴿وَسِیْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًا ﴾ (الزمر:39؍72) ’’ اور کافروں کو گروہ گروہ بناکر جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔‘‘ اور ﴿وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْؔجَنَّةِ زُمَرًا ﴾(الزمر:39؍73) ’’اور ان لوگوں کو جو اپنے رب سے ڈرتے رہے، گروہ گروہ بناکر جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔‘‘ ﴿ اُحْشُ٘رُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ ﴾ (الصافات:37؍22) ’’ان لوگوں کو جنھوں نے ظلم کا ارتکاب کیا اور ان کے ہم جنسوں کو اکٹھا کرو۔‘‘ ﴿ وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ﴾ زمانہ جاہلیت کے جہلاء بیٹیوں کو فقیری کے ڈر سے کسی سبب کے بغیر زندہ دفن کر دیا کرتے تھے، پس اس زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا: ﴿ بِاَیِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ﴾ ’’کہ وہ کسی گناہ کی وجہ سے قتل کی گئی؟‘‘ اور یہ بات معلوم ہے کہ ان بیٹیوں کا کوئی گناہ نہیں تھا، مگر اس (کے ذکر) میں بیٹیوں کے قاتلین کے لیے زجر و توبیخ اور جھڑکی ہے۔ ﴿ وَاِذَا الصُّحُفُ ﴾ اور جب وہ اعمال نامے جو عمل کرنے والوں کے اچھے برے اعمال پر مشتمل ہوں گے ﴿ نُ٘شِرَتْ﴾ ان کو الگ الگ کر کے عمل کرنے والوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ پس کسی نے اپنا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں لے رکھا ہو گا اور کسی نے بائیں ہاتھ میں لے رکھا ہو گا یا اپنی پیٹھ پیچھے چھپا رکھا ہو گا۔ ﴿ وَاِذَا السَّمَآءُ كُشِطَتْ﴾ ’’اور جب آسمان کی کھال کھینچ لی جائے گی۔‘‘ یعنی آسمان کو زائل کر دیا جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَیَوْمَ تَ٘شَ٘قَّقُ السَّمَآءُ بِالْغَمَامِ ﴾ (الفرقان:25؍25) ’’جس روز آسمان بادلوں کے ساتھ پھٹ جائے گا۔‘‘ فرمایا :﴿ یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ كَ٘طَیِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ﴾ (الأنبیاء: 21؍104) ’’جس روز ہم آسمانوں کو یوں لپیٹ دیں گے جس طرح اوراق کا دفتر لپیٹ دیتے ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌۢ بِیَمِیْنِهٖ ﴾ (الزمر:39؍67) ’’قیامت کے روز تمام زمین اس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ پر لپٹے ہوئے ہوں گے۔‘‘ ﴿ وَاِذَا الْؔجَحِیْمُ سُعِّرَتْ﴾ جب جہنم میں آگ جلائی جائے گی اور جہنم بھڑک کر اتنا شعلہ زن ہو جائے گا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا نہ تھا۔ ﴿ وَاِذَا الْؔجَنَّةُ اُزْلِفَتْ﴾ یعنی جنت اہل تقویٰ کے قریب کر دی جائے گی۔ ﴿ عَلِمَتْ نَ٘فْ٘سٌ ﴾ تو ہر نفس جان لے گا، نَفْسٌ کا لفظ عام ہے کیونکہ اسے شرط کے سیاق میں (نکرہ) لایا گیا ہے ﴿ مَّاۤ اَحْضَرَتْ﴾ یعنی وہ اعمال جو اس کے پاس موجود ہوں گے اور جو اس نے آگے بھیجے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا ﴾ (الکہف:18؍49) ’’اور انھوں نے جو عمل کیے ، ان کو وہ موجود پائیں گے۔‘‘ یہ اوصاف جن سے اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کو موصوف کیا ہے، ایسے اوصاف ہیں جن سے دل دہل جاتے ہیں، کرب میں شدت آ جاتی ہے، جسم کانپنے لگتا ہے، خوف چھا جاتا ہے، یہ اوصاف خرد مند لوگوں کو اس دن کے لیے تیاری کرنے پر آمادہ کرتے ہیں اور ہر اس کام سے روکتے ہیں جو ملامت کا موجب ہے۔ اسی لیے سلف میں سے کسی کا قول ہے: جو کوئی قیامت کے دن کو اسی طرح دیکھنا چاہے، گویا وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے، تو وہ سورۂ تکویر میں تدبر کرے۔
Vocabulary
AyatSummary
[14-
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List