Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 20
- SegmentHeader
- AyatText
- {41} {وآمنوا بما أنزلت}؛ وهو: القرآن الذي أنزله على عبده ورسوله محمد - صلى الله عليه وسلم -، فأمرهم بالإيمان به واتباعه، ويستلزم ذلك، الإيمان بمن أنزل عليه، وذكر الداعي لإيمانهم، فقال: {مصدقاً لما معكم}؛ أي: موافقاً له لا مخالفاً ولا مناقضاً، فإذا كان موافقاً لما معكم من الكتب غير مخالف لها فلا مانع لكم من الإيمان به؛ لأنه جاء بما جاءت به المرسلون، فأنتم أولى من آمن به وصدق به؛ لكونكم أهل الكتب والعلم. وأيضاً فإن في قوله: {مصدقاً لما معكم}؛ إشارة إلى أنكم إن لم تؤمنوا به عاد ذلك عليكم بتكذيب ما معكم؛ لأن ما جاء به هو الذي جاء به موسى وعيسى وغيرهما من الأنبياء، فتكذيبكم له تكذيب لما معكم. وأيضاً فإن في الكتب التي بأيديكم صفة هذا النبي الذي جاء بهذا القرآن، والبشارة به، فإن لم تؤمنوا به؛ كذبتم ببعض ما أنزل إليكم، ومن كذب ببعض ما أنزل إليه؛ فقد كذب بجميعه، كما أن من كفر برسولٍ؛ فقد كذب الرسل جميعهم، فلما أمرهم بالإيمان به نهاهم، وحذرهم عن ضده وهو الكفر به فقال: {ولا تكونوا أول كافر به}؛ أي: بالرسول والقرآن، وفي قوله: {أول كافر به}؛ أبلغ من قوله ولا تكفروا به؛ لأنهم إذا كانوا أول كافر به كان فيه مبادرتهم إلى الكفر [به] عكس ما ينبغي منهم، وصار عليهم إثمهم وإثم من اقتدى بهم من بعدهم. ثم ذكر المانع لهم من الإيمان وهو اختيار العرض الأدنى على السعادة الأبدية فقال: {ولا تشتروا بآياتي ثمناً قليلاً}؛ وهو ما يحصل لهم من المناصب والمآكل التي يتوهمون انقطاعها إن آمنوا بالله ورسوله، فاشتروها بآيات الله واستحبوها وآثروها {وإياي}؛ أي: لا غيري، {فاتقون}؛ فإنكم إذا اتقيتم الله وحده أوجبت لكم تقواه تقديم الإيمان بآياته على الثمن القليل، كما أنكم إذا اخترتم الثمن القليل؛ فهو دليل على ترحل التقوى من قلوبكم، ثم قال:
- AyatMeaning
- [41] فرمایا: ﴿ وَاٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ ﴾ ’’اور ایمان لاؤ اس پر جو میں نے نازل کیا۔‘‘ اس سے مراد قرآن مجید ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور رسول محمدeپر نازل فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ محمدeپر ایمان لائیں اور ان کی اتباع کریں اور آپ پر ایمان لانے اور اتباع کرنے کا حکم اس کتاب پر بھی ایمان لانے کو مستلزم ہے جو آپ پر نازل کی گئی۔ پھر اس داعی کا ذکر کیا جو انھیں ایمان کی طرف بلاتا ہے، فرمایا: ﴿مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ﴾ ’’تصدیق کرنے والا ہے ان چیزوں کی جو تمھارے پاس ہیں‘‘ یعنی یہ (قرآن) ان کتابوں کی موافقت کرتا ہے جو تمھارے پاس ہیں یہ ان کے مخالف ہے نہ مناقض۔ پس جب یہ قرآن ان کتابوں کی موافقت کرتا ہے جو تمھارے پاس ہیں اور ان کی مخالفت نہیں کرتا تو پھر تمھارے اس پر ایمان لانے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ کیونکہ محمدeوہی چیز لے کر آئے ہیں جو پہلے رسول لائے تھے۔ لہٰذا تم سب سے زیادہ مستحق ہو کہ تم اس پر ایمان لاؤ اور اس کی تصدیق کرو کیونکہ تم اہل کتاب اور اہل علم ہو۔ نیز اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ﴾ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اگر تم اس پر ایمان نہیں لاؤ گے تو یہ تکذیب خود تمھاری طرف لوٹے گی یعنی تم خود بھی ان کتابوں کے جھٹلانے والے ٹھہرو گے جو تمھارے پاس ہیں، اس لیے کہ یہ پیغمبر بھی وہی چیز لے کر آیا ہے جو حضرت موسیٰ اور عیسیٰ اور دیگر انبیاءoلے کر آئے، لہٰذا تمھارا محمدeکی تکذیب کرنا درحقیقت ان کتابوں کی تکذیب ہے جو تمھارے پاس ہیں۔ نیز اس لیے بھی کہ ان کتابوں میں، جو تمھارے پاس ہیں اس نبی کے اوصاف اور نشانیاں بیان ہوئی ہیں اور اس کی بشارت دی گئی جو یہ قرآن لے کر آیا ہے، اس لیے اگر تم اس پر ایمان نہیں لاتے تو تم نے گویا ان کتابوں کے بعض احکام کو جھٹلایا جو تمھارے پاس ہیں۔ پس جو کوئی اس کتاب کے کچھ حصے کو جھٹلاتا ہے جو اس کی طرف نازل کی گئی ہے تو وہ تمام کتابوں کو جھٹلاتا ہے۔ جیسے کوئی شخص کسی ایک رسول کا انکار کرتا ہے تو دراصل وہ تمام رسولوں کا انکار کرتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اس رسول پر ایمان لانے کا حکم دیا، تو ان کو ایمان کی ضد یعنی اس کے ساتھ کفر سے روکا اور اس سے ڈرایا۔ فرمایا: ﴿ وَلَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭؔ بِهٖ﴾ یعنی رسول اللہ اور قرآن کی تکذیب کرنے والے پہلے لوگ نہ بنو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ كَافِرٍۭؔ بِهٖ﴾ ’’اس کے اولین انکار کرنے والے‘‘ (وَلَا تَکْفُرُوْا بِہٖ) ’’اس کا انکار نہ کرو‘‘ سے زیادہ بلیغ ہے کیونکہ جب وہ اولین کفر کرنے والے ہوں گے تو گویا وہ کفر کی طرف بہت تیزی سے لپکے ہیں، اس رویہ کے برعکس جو ان کے لیے زیادہ مناسب تھا۔ ان کے اپنے کفر اور انکار کا گناہ تو ان کے ذمہ ہے ہی، بعد میں آنے والے ان لوگوں کا گناہ بھی ان کے کندھوں پر ہے جنھوں نے ان کی پیروی کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس مانع کا ذکر کیا جو ان کو ایمان لانے سے روکتا ہے اور وہ ہے دنیا کے ادنی فوائد کو ابدی سعادت پر ترجیح دینا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا﴾ ’’میری آیات (میں تحریف کر کے ان) کے عوض حقیر معاوضہ مت لو‘‘ اس سے مراد وہ دنیاوی مناصب اور کھانے پینے کی اشیاء ہیں جن کے بارے میں وہ اس وہم میں پڑے ہوئے ہیں کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے تو وہ ان چیزوں سے محروم ہو جائیں گے۔ پس انھوں نے ان ادنی چیزوں کو آیات الٰہی کے بدلے خرید لیا اور ادنی چیزوں کو آیات الٰہی پر ترجیح دی۔ ﴿ وَاِیَّ٘ایَ فَاتَّقُوْنِ ﴾ ’’مجھ ہی سے ڈرو‘‘ اور میرے سوا کسی سے نہ ڈرو۔ کیونکہ جب تم صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرو گے تو یہ چیز تم میں تقوی اور تھوڑی سی قیمت کے مقابلے میں آیات الٰہی پر ایمان کو مقدم رکھنے کی موجب ہو گی۔ جیسے جب تم آیات الٰہی کے بدلے تھوڑی سی قیمت کو پسند کر لیتے ہو تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ تمھارے دلوں سے تقویٰ کوچ کر گیا ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [41]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF