Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 4
- SuraName
- تفسیر سورۂ نساء
- SegmentID
- 240
- SegmentHeader
- AyatText
- {8} وهذا من أحكام الله الحسنة الجليلة الجابرة للقلوب، فقال: {وإذا حضر القسمة}؛ أي: قسمة المواريث، {أولو القربى}؛ أي: الأقارب غير الوارثين بقرينة قوله: {القسمة}؛ لأن الوارثين من المقسوم عليهم، {واليتامى والمساكين}؛ أي: المستحقون من الفقراء؛ {فارزقوهم منه}؛ أي: أعطوهم ما تيسَّر من هذا المال الذي جاءكم بغير كدٍّ ولا تعب ولا عَناءٍ ولا نَصَبٍ؛ فإنَّ نفوسَهم متشوفةٌ إليه وقلوبَهم متطلعةٌ؛ فاجبُروا خواطرهم بما لا يضركم وهو نافعهم. ويؤخذ من المعنى أنَّ كل مَنْ له تطلُّع وتشوُّف إلى ما حضر بين يدي الإنسان ينبغي له أن يعطِيَهُ منه ما تيسَّر؛ كما كان النبي - صلى الله عليه وسلم - يقول: «إذا جاء أحدكم خادمه بطعامه؛ فليُجْلِسْه معه؛ فإن لم يُجْلِسْه معه؛ فليناوله لقمة أو لقمتين» ، أو كما قال. وكان الصحابة رضي الله عنهم إذا بدأت باكورة أشجارهم؛ أتوا بها رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، فَبَرَّكَ عليها، ونظر إلى أصغر وليد عنده، فأعطاه ذلك؛ علماً منه بشدة تشوفه لذلك، وهذا كله مع إمكان الإعطاء؛ فإن لم يمكن ذلك لكونه حقَّ سفهاء أو ثَمَّ أهمُّ من ذلك؛ فليقولوا لهم {قولاً معروفاً}؛ يردُّونهم ردًّا جميلا بقول حسن غير فاحش ولا قبيح.
- AyatMeaning
- [8] یہ اللہ تعالیٰ کے بہترین اور جلیل ترین احکام میں سے ہے جو ٹوٹے دلوں کو جوڑتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَاِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ ﴾ یعنی میراث کی تقسیم کے وقت ﴿ اُولُوا الْ٘قُ٘رْبٰى ﴾ یعنی وہ رشتہ دار جو میت کے وارث نہیں ہیں اور اس کا قرینہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ الْقِسْمَةَ ﴾ ہے کیونکہ ورثاء تو وہ لوگ ہیں جن میں وراثت تقسیم ہو گی ﴿ وَالْ٘یَ٘تٰمٰى وَالْمَسٰكِیْنُ ﴾ ’’یتیم اور مساکین‘‘ یعنی فقراء میں سے مستحق لوگ ﴿ فَارْزُقُ٘وْهُمْ مِّؔنْهُ ﴾ یعنی اس مال میں سے جو تمھیں بغیر کسی کدو کاوش اور بغیر کسی محنت کے حاصل ہوا۔ ان کو بھی جتنا ہو سکے عطا کردو۔ کیونکہ ان کا نفس بھی اس کا اشتیاق رکھتا ہے اور ان کے دل بھی منتظر ہیں۔ پس تم ان کی دل جوئی کی خاطر اتنا مال ان کو دے دو جس سے تمھیں نقصان نہ ہو اور ان کے لیے فائدہ مند ہو۔ اس معنیٰ سے یہ بات اخذ کی جاتی ہے کہ اگر انسان کے سامنے کوئی چیز رکھی جائے اور وہاں کوئی ایسا فرد موجود ہو جو کسی آس میں اس پر نظر رکھتا ہو تو اس شخص کے لیے مناسب ہے کہ جتنا بھی ہو سکے اس کو عطا کر دے۔ جیسا کہ نبی اکرمeنے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے سامنے کھانا پیش کرے تو وہ اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلائے اور اگر ایسا نہ کر سکے تو اسے ایک یا دو لقمے عطا کر دے۔‘‘ صحابہ کرامy کا طریقہ یہ تھا کہ جب ان کے سامنے موسم کا پہلا پھل آتا تو وہ اسے رسول اللہeکی خدمت میں پیش کرتے، آپ اس میں برکت کی دعا فرماتے اور پھر وہاں موجود سب سے چھوٹے بچے کو عطا کر دیتے، یہ جانتے ہوئے کہ یہ ننھا بچہ نہایت شدت سے اس کی خواہش رکھتا ہو گا۔ یہ سب کچھ اس وقت ہے جب عطا کرنا ممکن ہو اگر عطا کرنا ممکن نہ ہو ۔۔۔ مثلاً یہ بے سمجھ لوگوں کا حق ہے یا اس سے بھی اہم کوئی اور وجہ ہو تو ایسی صورت میں ﴿ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا ﴾ ان کو اچھی اور غیر قبیح بات کہہ کر بھلے طریقے سے لوٹا دو۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [8]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF