Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 3
- SuraName
- تفسیر سورۂ آل عمران
- SegmentID
- 223
- SegmentHeader
- AyatText
- {180} أي: ولا يظن الذين يبخلون؛ أي: يمنعون ما عندهم مما آتاهم الله من فضله من المال والجاه والعلم وغير ذلك، مما منحهم الله وأحسن إليهم به، وأمرهم ببذل ما لا يضرهم منه لعباده فبخلوا بذلك، وأمسكوه وضنوا به على عباد الله، وظنوا أنه خير لهم بل هو شر لهم في دينهم ودنياهم وعاجلهم وآجلهم، {سيطوقون ما بخلوا به يوم القيامة}؛ أي يجعل ما بخلوا به طوقاً في أعناقهم يعذبون به كما ورد في الحديث الصحيح: «إن البخيل يمثل له ماله يوم القيامة شجاعاً أقرع له زبيبتان يأخذ بلهزمته يقول: أنا مالك، أنا كنزك» ، وتلا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مصداق ذلك هذه الآية، فهؤلاء حسبوا أن بخلهم نافعهم ومجدٍ عليهم فانقلب عليهم الأمر، وصار من أعظم مضارهم وسبب عقابهم. {ولله ميراث السموات والأرض}؛ أي: هو تعالى مالك الملك وتردّ جميع الأملاك إلى مالكها وينقلب العباد من الدنيا ما معهم درهم ولا دينار ولا غير ذلك من المال. قال تعالى: {إنا نحن نرث الأرض ومن عليها وإلينا يرجعون}، وتأمل كيف ذكر السبب الابتدائي والسبب الغائي، الموجب كل واحد منهما أن لا يبخل العبد بما أعطاه الله. أخبر أولاً أن الذي عنده وفي يده فضل من الله ونعمة ليس ملكاً للعبد، بل لولا فضل الله عليه وإحسانه لم يصل إليه منه شيء. فمنْعُه ذلك منْعٌ لفضل الله وإحسانه، ولأن إحسانه موجب للإحسان إلى عبيده، كما قال تعالى: {وأحسن كما أحسن الله إليك}، فمن تحقق أن ما بيده فضل من الله لم يمنع الفضل الذي لا يضره بل ينفعه في قلبه وماله وزيادة إيمانه وحفظه من الآفات. ثم ذكر ثانياً أن هذا الذي بيد العباد، كلُّها ترجع إلى الله ويرثها تعالى وهو خير الوارثين، فلا معنى للبخل بشيء هو زائل عنك، منتقل إلى غيرك. ثم ذكر ثالثاً السبب الجزائي فقال: {والله بما تعملون خبير}، فإذا كان خبيراً بأعمالكم جميعها ويستلزم ذلك الجزاء الحسن على الخيرات والعقوبات على الشر لم يتخلف من في قلبه مثقال ذرة من إيمان عن الإنفاق الذي يجزي به الثواب ولا يرضى بالإمساك الذي به العقاب.
- AyatMeaning
- [180] یعنی جو لوگ بخل کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ مال، جاہ، علم اور دیگر چیزیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا ہے اور ان کو حکم دیا کہ ان چیزوں میں سے اس کے بندوں پر اتنا ضرور خرچ کریں جس سے خود ان کو نقصان نہ پہنچے۔ مگر انھوں نے بخل کیا اور ان چیزوں کو بندوں پرخرچ کرنے سے روک رکھا اور سمجھتے رہے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ ان کے لیے بہتر ہے (یہ ان کے لیے بہتر نہیں) بلکہ یہ تو ان کے دین و دنیا و آخرت کے لیے بدترین چیز ہے۔ ﴿سَیُطَوَّ٘قُ٘وْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ﴾ یعنی جس چیز کے بارے میں انھوں نے بخل کیا، اللہ تعالیٰ اسے طوق بنا کر ان کی گردن میں ڈال دے گا اور اس سبب سے انھیں عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے، چنانچہ رسول اللہeنے فرمایا: ’اِنَّ الْبَخِیْلَ یُمَثَّلُ لَہُ مَالُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شُجَاعاً اَقْرَعَ لَہُ زَبِیْبَتَانِ یَاخُذُ بِلِھْزِمَتَیْہِ یَقُولُ : اَنَا مَالُکَ اَنَا کَنْزُکَ‘ ’’قیامت کے روز بخیل کے مال کو ایک بڑا سانپ بنا دیا جائے گا جس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے وہ بخیل کو اس کے جبڑوں سے پکڑ لے گا اور کہے گا ’’میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔‘‘پھر رسول اللہeنے اس کے مصداق کے طور پر یہی آیت تلاوت فرمائی۔(صحیح البخاري، التفسیر، باب:﴿ولا يحسبن الذين يبخلون ...... من فضلہ﴾، حديث:4565، بلفظ: من آتاہ اللہ مالا فلم يؤد زکاتہ) یہ لوگ سمجھتے تھے کہ ان کا بخل ان کے لیے نفع مند اور عزت کا باعث ہے مگر معاملہ الٹ نکلا اور یہی بخل ان کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ اور عذاب کا باعث بن گیا۔ ﴿ وَلِلّٰهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اقتدار اور بادشاہی کا مالک ہے تمام املاک اپنے مالک کی طرف لوٹتی ہیں اور بندے اس دنیا سے اس حالت میں جائیں گے کہ ان کے ساتھ درہم و دینار ہوں گے نہ کوئی مال و متاع۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَمَنْ عَلَیْهَا وَ اِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ﴾ (مریم : 19؍40) ’’زمین اور جو لوگ اس کے اوپر ہیں ہم ہی ان کے وارث ہیں اور انھیں ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘ غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے سبب ابتدائی اور سبب انتہائی کو کیسے ذکر فرمایا ہے اور یہ دونوں اس بات کے موجب ہیں کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چیزوں میں بخل نہ کرے۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ بندے کے پاس اور بندے کے ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ بندے کی ملکیت نہیں، بلکہ وہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی نعمت ہے۔ اگر بندے پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کا احسان نہ ہوتا تو ان میں سے کوئی چیز بھی اسے عطا نہ ہوتی۔ لہٰذا جو کوئی یہ چیزیں لوگوں کو عطا کرنے میں بخل کرتا ہے وہ گویا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کو لوگوں تک پہنچنے سے روکتا ہے۔ کیونکہ بندے پر اللہ تعالیٰ کا احسان اس بات کا موجب ہوتا ہے کہ وہ بندہ اللہ کے بندوں پر احسان کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ ﴾ (القصص : 28؍77) ’’جیسی اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے تو بھی لوگوں کے ساتھ ویسی ہی بھلائی کر۔‘‘ پس جسے اس بات کا یقین ہو گیا کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل و کرم کو دوسروں تک پہنچانے سے کبھی نہیں رکے گا جس سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ یہ فعل اس کے دل اور مال میں اسے فائدہ ہی پہنچاتا ہے اس کے ایمان میں اضافہ کا باعث بنتا ہے اور اسے آفات سے محفوظ رکھتا ہے۔ ثانیاً: اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ یہ سب کچھ جو بندے کے ہاتھ میں ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس کا وارث ہو گا اور وہ سب سے اچھا وارث ہے۔ کسی ایسی چیز میں آپ کا بخل کرنا کیا معنی رکھتا ہے جو چیز آپ کے پاس سے زائل ہو کر کسی دوسرے کے پاس منتقل ہو جائے گی۔ ثالثًا: اللہ تعالیٰ نے سبب جزائی کا ذکر فرمایا چنانچہ فرمایا: ﴿ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾ جب اللہ تعالیٰ تمھارے تمام اعمال کی خبر رکھتا ہے تو یہ حقیقت اس بات کی مستلزم ہے کہ وہ اچھے اعمال پر اچھی جزا دے اور برے اعمال پر بری سزا دے۔ اب جس کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان ہے وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے سے باز نہیں رہ سکتا جس کا بدلہ ثواب ہے۔ اور بخل پر راضی نہیں ہو سکتا، جو عذاب کا باعث ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [180
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF