Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 16
- SegmentHeader
- AyatText
- {34} ثم أمرهم تعالى بالسجود لآدم إكراماً له وتعظيماً وعبودية لله تعالى؛ فامتثلوا أمر الله، وبادروا كلهم بالسجود، {إلا إبليس أبى} امتنع عن السجود، واستكبر عن أمر الله، وعلى آدم قال: {أأسجد لمن خلقت طيناً} وهذا الإباء منه، والاستكبار نتيجة الكفر الذي هو منطوٍ عليه، فتبينت حينئذ عداوته لله ولآدم وكفره واستكباره. وفي هذه الآيات من العِبَر والآيات إثبات الكلام لله تعالى، وأنه لم يزل متكلماً يقول ما شاء، ويتكلم بما شاء وأنه عليم حكيم، وفيه أن العبد إذا خفيت عليه حكمة الله في بعض المخلوقات، والمأمورات؛ فالواجب عليه التسليم واتهامُ عقله والإقرار لله بالحكمة؛ وفيه اعتناء الله بشأن الملائكة وإحسانه بهم بتعليمهم ما جهلوا، وتنبيههم على ما لم يعلموه. وفيه فضيلة العلم من وجوه: منها: أن الله تعرف لملائكته بعلمه وحكمته. ومنها: أن الله عرفهم فضل آدم بالعلم، وأنه أفضل صفة تكون في العبد. ومنها: أن الله أمرهم بالسجود لآدم إكراماً له لمَّا بانَ فضل علمه. ومنها: أن الامتحان للغير إذا عجزوا عما امتحنوا به ثم عرفه صاحب الفضيلة فهو أكمل مما عرفه ابتداء. ومنها: الاعتبار بحال أبوي الإنس والجن وبيان فضل آدم وأفضال الله عليه وعداوة إبليس له، إلى غير ذلك من العبر.
- AyatMeaning
- [34] پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدمuکے اکرام و تعظیم اور اللہ تعالی کی عبودیت کے اظہار کے لیے آدمuکے سامنے سجدہ ریز ہوں۔ انھوں نے اللہ تعالی کے حکم کی اطاعت کی اور تمام فرشتے اسی وقت سجدے میں گر گئے ﴿اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ اَبٰی﴾ سوائے ابلیس کے، اس نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے اللہ تعالی کے حکم کے سامنے تکبر کا اظہار کیا اور آدمuسے اپنے آپ کو بڑا سمجھا۔ اس نے تکبر سے کہا: ﴿ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا﴾ (بنی اسرائیل: 17؍61) ’’کیا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے تخلیق کیا ہے۔‘‘ یہ انکار اور استکبار اس کے اس کفر کا نتیجہ تھا جو اس کی سرشت میں پوشیدہ تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ اور آدمuسے اس کی عداوت ظاہر ہو گئی اور اس کا کفر و استکبار عیاں ہو گیا۔ ان آیات کریمہ سے کچھ نصیحتیں اور کچھ نکات ماخوذ ہوتے ہیں۔ (۱) اللہ تعالیٰ کے لیے کلام کا اثبات، وہ ہمیشہ سے کلام کرتا رہا ہے، وہ جو چاہتا ہے کہتا ہے، وہ جو چاہتا ہے کلام کرتا ہے، وہ علم والا اور حکمت والا ہے۔ (۲)بندے پر جب بعض مخلوقات اور مامورات میں پوشیدہ اللہ تعالیٰ کی حکمت مخفی رہ جائے تو اس پر سرتسلیم خم کرنا، اپنی عقل کو ناقص ٹھہرانا اوراللہ تعالیٰ کی حکمت کا اقرار کرنا واجب ہے۔ (۳) ان آیات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے معاملے کو اہمیت دی، ان پر احسان عظیم فرمایا، جس چیز کے بارے میں وہ جاہل تھے اس کی انھیں تعلیم دی اور جس کا انھیں علم نہ تھا اس پر انھیں متنبہ فرمایا۔ ان آیات میں مندرجہ ذیل وجوہ سے علم کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ (الف) اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو اپنے علم و حکمت کی معرفت عطا کی۔ (ب) اللہ تعالیٰ نے ان کو اس حقیقت سے واقف کرایا کہ آدمuکو بربنائے علم فضیلت حاصل ہے اور علم بندے کی افضل ترین صفت ہے۔ (ج) جب آدمuکے علم کی فضیلت واضح اور عیاں ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدمuکے اکرام و تکریم کے لیے اسے سجدہ کریں۔ (د) کسی اور کو کسی امتحان کے ذریعے سے آزمانا جبکہ اس امتحان میں کچھ لوگ پورے نہ اترے ہوں۔ پھر امتحان میں پورا اترنے والے صاحب فضیلت سے یہ امتحان لے تو یہ اس شخص سے زیادہ کامل ہے جس سے ابتدا میں امتحان لیا گیا تھا۔ (ھ) جن و انس کے والدین کے احوال سے عبرت پذیری، آدمuکی فضیلت، اس پر اللہ تعالیٰ کے احسانات اور آدم کے ساتھ ابلیس کی عداوت کا اظہار اور اس جیسی دیگر عبرتیں۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [34]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF