Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
3
SuraName
تفسیر سورۂ آل عمران
SegmentID
214
SegmentHeader
AyatText
{161} الغلول: هو الكتمان من الغنيمة والخيانة في كل مالٍ يتولاه الإنسان وهو محرَّم إجماعاً، بل هو من الكبائر كما تدل عليه هذه الآية الكريمة وغيرها من النصوص، فأخبر الله تعالى أنه ما ينبغي ولا يليق بنبي أن يغل، لأن الغلول ـ كما علمت ـ من أعظم الذنوب وشر العيوب. وقد صان الله تعالى أنبياءه عن كل ما يدنسهم ويقدح فيهم، وجعلهم أفضل العالمين أخلاقاً وأطهرهم نفوساً، وأزكاهم وأطيبهم ونزههم عن كل عيب، وجعلهم محل رسالته ومعدن حكمته، {الله أعلم حيث يجعل رسالته}، فبمجرد علم العبد بالواحد منهم يجزم بسلامتهم من كل أمر يقدح فيهم، ولا يحتاج إلى دليل على ما قيل فيهم من أعدائهم، لأن معرفته بنبوتهم مستلزم لدفع ذلك، ولذلك أتى بصيغة يمتنع معها وجود الفعل منهم فقال: {وما كان لنبي أن يغل}؛ أي: يمتنع ذلك ويستحيل على من اختارهم الله لنبوته. ثم ذكر الوعيد على من غل فقال: {ومن يغلل يأت بما غل يوم القيامة}؛ أي: يأت به حامله على ظهره حيواناً كان أو متاعاً أو غير ذلك يعذب به يوم القيامة {ثم توفى كل نفس ما كسبت}؛ الغالُّ وغيره كلٌّ يوفَّى أجره ووزره على مقدار كسبه {وهم لا يظلمون}؛ أي: لا يزداد في سيئاتهم ولا يهضمون شيئاً من حسناتهم. وتأمل حسن هذا الاحتراز في هذه الآية الكريمة لمَّا ذكر عقوبة الغالِّ وأنه يأتي يوم القيامة بما غله، ولمَّا أراد أن يذكر توفيته وجزاءه وكان اقتصاره على الغال يوهم بالمفهوم أن غيره من أنواع العاملين قد لا يوفون، أتى بلفظ عامٍّ جامع له ولغيره.
AyatMeaning
[161] یہاں (غلول) سے مراد ہے مال غنیمت چھپانا اور اس چیز میں خیانت کرنا جس کا اسے منتظم بنایا گیا ہے۔ خیانت کے حرام ہونے پر اتفاق ہے بلکہ اس کا شمار کبائر میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ یہ آیت کریمہ اور دیگر نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ مال غنیمت میں خیانت کرنا ایک نبی کے شایان شان نہیں ۔ کیونکہ مال غنیمت میں خیانت، جیسا کہ آپ کو علم ہے۔۔۔ سب سے بڑا گناہ اور بدترین عیب ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے انبیائے کرام کو ہر عیب سے محفوظ رکھا ہے جو ان میں کسی اعتراض کا باعث بن سکتا ہے۔ اخلاق و اطوار کے لحاظ سے انھیں دنیا میں افضل ترین انسان، سب سے زیادہ پاک نفوس کے مالک اور سب سے زیادہ طیب و طاہرہستیاں بنایا ہے اور انھیں ہر عیب سے پاک کیا ہے۔ انھیں اپنی رسالت کا محل اور اپنی حکمت کا خزانہ بنایا ہے۔ ﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ﴾ (الانعام : 6؍124) ’’اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ اس کی رسالت کا کون سا محل ہے اور وہ اپنی رسالت کسے عنایت فرمائے۔‘‘ ان میں سے کسی ایک رسول کے بارے میں بندے کا مجرد علم، تمام رسولوں کے ہر عیب سے محفوظ اور سلامت ہونے کا قطعی فیصلہ کر دیتا ہے اور انبیاء و مرسلین کے بارے میں ان کے دشمنوں کی طرف سے جو کچھ کہا گیا ہے اس کے فاسد ہونے پر کسی دلیل کی حاجت نہیں، کیونکہ ان کی نبوت کی معرفت ان تمام اعتراضات کو دفع کرنے کو مستلزم ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے اسلوب کے ساتھ ذکر کیا جو اس فعل کے وجود کو مانع ہے چنانچہ فرمایا: ﴿وَمَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ﴾ یعنی جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نبوت کے لیے چنا ہے اس کے بارے میں یہ ممتنع اور محال ہے کہ وہ مال غنیمت میں خیانت کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت میں خیانت کرنے والوں کے لیے وعید سنائی ہے، فرمایا: ﴿وَمَنْ یَّغْلُ٘لْ یَ٘اْتِ بِمَا غَ٘لَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ﴾ یعنی مال غنیمت میں خیانت کرنے والا قیامت کے روز اس مال کو، خواہ وہ کوئی حیوان ہے یا مال و متاع وغیرہ، اپنی پیٹھ پر اٹھائے ہوئے آئے گا اور اس مال کے ذریعے سے اسے عذاب دیا جائے گا۔ ﴿ثُمَّ تُوَفّٰى كُ٘لُّ٘ نَ٘فْ٘سٍ مَّا كَسَبَتْ﴾ یعنی مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کو اس کی خیانت کی مقدار کے مطابق اس کے گناہ کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ﴿وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ﴾ ’’اور ان پر ظلم نہیں ہو گا‘‘ یعنی ان کی برائیوں میں اضافہ اور ان کی نیکیوں میں کمی نہیں کی جائے گی ۔اس آیت کریمہ میں آپ اس حسن احتراز (مفہوم مخالف سے بچاؤ کے احسن پیرائے) پر غور کیجیے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کی سزا کا ذکر کیا ہے کہ وہ قیامت کے روز خیانت شدہ مال کے ساتھ آئے گا اور چونکہ وہ اس غنیمت میں خیانت کرنے والے کی پوری جزا کا ذکر کرنا چاہتا ہے اور اس میں صرف غنیمت میں خیانت کی سزا کے ذکر پر اقتصار کیا ہے۔ یوں اس آیت کے مفہوم مخالف سے یہ وہم لازم آتا ہے کہ دیگر عمل کرنے والوں کو ہو سکتا ہے کہ پورا پورا بدلہ نہ دیا جائے۔ اس لیے یہاں ایسا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو غنیمت میں خیانت کرنے والوں اور دیگر عمل کرنے والوں، دونوں کے لیے جامع ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[161
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List