Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
3
SuraName
تفسیر سورۂ آل عمران
SegmentID
205
SegmentHeader
AyatText
{144} يقول تعالى: {وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل}؛ أي: ليس ببدع من الرسل، بل هو من جنس الرسل الذين قبله، وظيفتهم تبليغ رسالة ربهم وتنفيذ أوامره ليسوا بمخلدين، وليس بقاؤهم شرطاً في امتثال أوامر الله، بل الواجب على الأمم عبادة ربهم في كل وقت وبكل حال، ولهذا قال: {أفإن مات أو قُتل انقلبتم على أعقابكم}؛ بترك ما جاءكم به من إيمان أو جهاد أو غير ذلك، قال الله تعالى: {ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئاً}، إنما يضر نفسه، وإلا فالله تعالى غني عنه، وسيقيم دينه، ويعز عباده المؤمنين. فلما وبخ تعالى من انقلب على عقبيه، مدح من ثبت مع رسوله، وامتثل أمر ربه فقال: {وسيجزي الله الشاكرين}، والشكر لا يكون إلا بالقيام بعبودية الله تعالى في كل حال. وفي هذه الآية الكريمة إرشاد من الله تعالى لعباده أن يكونوا بحالة لا يزعزعهم عن إيمانهم أو عن بعض لوازمه فَقْدُ رئيس ولو عظم، وما ذاك إلا بالاستعداد في كل أمر من أمور الدين بعدة أناس من أهل الكفاءة فيه إذا فُقِدَ أحدُهم قام به غيره، وأن يكون عموم المؤمنين قصدهم إقامة دين الله والجهاد عنه بحسب الإمكان، لا يكون لهم قصد في رئيس دون رئيس، فبهذه الحال يستتب لهم أمرهم، وتستقيم أمورهم. وفي هذه الآية أيضاً أعظم دليل على فضيلة الصديق الأكبر أبي بكر وأصحابه الذين قاتلوا المرتدين بعد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لأنهم هم سادات الشاكرين.
AyatMeaning
[144] ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ﴾ یعنی وہ رسولوں میں سے کوئی انوکھا رسول نہیں ہیں بلکہ وہ ان رسولوں کی جنس سے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں اور ان کی ذمہ داری اپنے رب کا پیغام پہنچانا اور اس کے احکام کا نفاذ تھا۔ وہ ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ تھے اور نہ ان کی بقا اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کے لیے کوئی شرط تھی۔ بلکہ تمام امتوں پر یہ چیز فرض تھی کہ وہ ہر وقت اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اَفَاۡؔؔىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُ٘تِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ﴾ ’’کیا پس اگر ان کو موت آ گئی یا قتل کر دیے گئے، تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟‘‘ یعنی یہ نبی ایمان اور جہاد وغیرہ کے جو احکام لے کر مبعوث ہوئے ہیں کیا تم ان کو ترک کر کے الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ فرمایا: ﴿وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَیْهِ فَلَ٘نْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَیْـًٔـا﴾ ’’اور جو شخص الٹے پاؤں پھر جائے گا، تو ہرگز نہ بگاڑے گا اللہ کا کچھ‘‘ وہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے دین کو ضرور قائم کرے گا اور اپنے مومن بندوں کو غلبہ عطا کرے گا۔ جب اللہ تعالیٰ نے الٹے پاؤں پلٹ جانے والوں کو زجر و توبیخ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مدح و ثنا بھی کی جو اس کے رسولeکے ساتھ ثابت قدمی سے ڈٹے رہے اور انھوں نے اپنے رب کے حکم کی اطاعت کی۔ فرمایا: ﴿وَسَیَجْزِی اللّٰهُ الشّٰكِرِیْنَ﴾ ’’اللہ شکر گزار بندوں کو جزا دے گا‘‘ اور شکر کے تقاضے اس کے بغیر ادا نہیں ہوتے کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی عبودیت اختیار کی جائے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی راہنمائی فرمائی ہے کہ ان کے سربراہ کا مفقود ہونا خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو کسی بھی حالت میں ان کو ان کے ایمان یا کسی لازمہ ایمان سے نہ ہٹا دے مگر یہ تب ہی ممکن ہے کہ امور دین کے ہر ہر شعبہ میں کچھ لوگوں کو تیار کیا جائے جو اس شعبہ میں برابر ہوں۔ ان میں سے ایک کی عدم موجودگی میں دوسرا اس کی جگہ لے لے۔ نیز اہل ایمان کا عمومی مقصد اقامت دین اور اس کے دفاع میں اپنی استطاعت کے مطابق جہاد ہونا چاہیے۔ ان کا مقصد ایک سربراہ کی جگہ دوسرے سربراہ کو لانا نہیں ہونا چاہیے۔ اسی صورت میں ان کا معاملہ درست طریقے سے جاری رہ سکتا ہے اور دیگر تمام امور صحیح نہج پر چل سکتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں صدیق اکبر جناب ابوبکرtاور دیگر اصحاب کرام کی فضیلت پر بھی سب سے بڑی دلیل ہے، جنھوں نے رسول اللہeکے بعد مرتدین کے خلاف جنگ کی، کیونکہ وہ سادات اہل شکر میں شمار ہوتے ہیں۔
Vocabulary
AyatSummary
[144
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List