Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 54
- SuraName
- تفسیر سورۂ قمر
- SegmentID
- 1536
- SegmentHeader
- AyatText
- {25 ـ 26} {أألقي الذِّكر عليه من بيننا}؛ أي: كيف يخصُّه الله من بيننا وينزِّل عليه الذِّكر؛ فأيُّ مزيَّةٍ خصَّه من بيننا؟! وهذا اعتراضٌ من المكذِّبين على الله لم يزالوا يُدلون به ويصولون [ويحولون] ويردُّون به دعوة الرسل، وقد أجاب الله عن هذه الشبهة بقول الرسل لأممهم: {قالتْ رسُلُهم إن نحنُ إلاَّ بشرٌ مثلُكم ولكنَّ الله يَمُنُّ على مَنْ يشاءُ من عبادِه}: فالرسل مَنَّ الله عليهم بصفاتٍ وأخلاق وكمالاتٍ بها صلحوا لرسالات ربِّهم والاختصاص بوحيه، ومن رحمته وحكمته أن كانوا من البشر؛ فلو كانوا من الملائكة؛ لم يمكن البشر أن يتلقَّوا عنهم، ولو جعلَهم من الملائكة؛ لعاجل المكذِّبين لهم بالعقاب العاجل. والمقصود من هذا الكلام الصادر من ثمود لنبيِّهم صالح تكذيبه، ولهذا حكموا عليه بهذا الحكم الجائر، فقالوا: {بل هو كذَّابٌ أشِرٌ}؛ أي: كثير الكذب والشرِّ! فقبَّحهم الله ما أسفه أحلامهم وأظلمهم وأشدَّهم مقابلةً للصادقين الناصحين بالخطاب الشنيع.
- AyatMeaning
- [25، 26] ﴿ ءَاُلْ٘قِیَ الذِّكْرُ عَلَیْهِ مِنْۢ بَیْنِنَا﴾ ’’کیا ہمارے سب کے درمیان سے صرف اسی پر وحی اتاری گئی ہے؟‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ہم میں سے اس کو کس بنا پر خصوصیت عطا کرتا ہے اور اس پر ذکر نازل کرتا ہے؟ اس میں کون سی ایسی خوبی ہے جس کی بنا پر ہم میں سے صرف اسے ہی یہ خصوصیت عطا کی ہے؟ یہ وہ اعتراض ہے جو اہل تکذیب ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ پر کرتے چلے آئے ہیں، اسی کی بنیاد پر انبیاء و مرسلین کی دعوت پر حملہ آور ہوتے رہے اور اس کو رد کرتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کا جواب رسولوں کے اس قول کے ذریعے سے دیا جو انھوں نے امتوں سے کہا تھا: ﴿ قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّؔثْلُكُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ یَمُنُّ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ﴾ (ابراہیم:14؍11) ’’ان رسولوں نے ان سے کہا: واقعی ہم محض تم جیسے بشر ہی ہیں لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس پر احسان کرتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو ایسے اوصاف، اخلاق اور کمالات سے نوازا ہوتا ہے جن کی بنا پر وہ اپنے رب کی رسالت اور اس کی وحی کے اختصاص کی صلاحیت رکھتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور حکمت ہے کہ رسول نوع بشری میں سے ہیں۔ اگر رسول فرشتوں میں سے ہوتے تو انسانوں کا ان سے استفادہ کرنا ممکن نہ ہوتا۔ اگر فرشتوں کو رسول بنایا ہوتا تو جھٹلانے والوں پر فوراً عذاب نازل ہو جاتا۔ قومِ ثمود سے اپنے نبی صالحu کے بارے میں صادر ہونے والے اس کلام کا مقصد صرف حضرت صالحu کو جھٹلانا ہے، اس لیے انھوں نے آپ پر یہ ظالمانہ حکم لگایا ، چنانچہ انھوں نے کہا: ﴿ بَلْ هُوَ كَذَّابٌ اَشِرٌ﴾ ’’بلکہ وہ تو سخت جھوٹا اور شر کا حامل ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے، ان کی آرزوئیں کس قدر بے وقوفی پر مبنی ہیں اور وہ سچے خیر خواہوں کے مقابلے میں ان کو برے خطابات سے مخاطب کرنے میں کتنے ظالم اور کتنے سخت ہیں؟
- Vocabulary
- AyatSummary
- [25،
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF