Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 3
- SuraName
- تفسیر سورۂ آل عمران
- SegmentID
- 191
- SegmentHeader
- AyatText
- {102 ـ 105} هذه الآيات فيها حث الله عباده المؤمنين أن يقوموا بشكر نعمه العظيمة بأن يتقوه حق تقواه، وأن يقوموا بطاعته وترك معصيته مخلصين له بذلك، وأن يقيموا دينهم ويستمسكوا بحبله الذي أوصله إليهم، وجعله السبب بينهم وبينه وهو دينه وكتابه، والاجتماع على ذلك وعدم التفرق، وأن يستديموا ذلك إلى الممات. وذكرهم ما هم عليه قبل هذه النعمة وهو أنهم كانوا أعداء متفرقين فجمعهم بهذا الدين وألّف بين قلوبهم وجعلهم إخواناً، وكانوا على شفا حفرة من النار فأنقذهم من الشقاء، ونهج بهم طريق السعادة؛ لذلك بين {الله لكم آياته لعلكم تهتدون}؛ إلى شكر الله والتمسك بحبله. وأمرهم بتتميم هذه الحالة، والسبب الأقوى الذي يتمكنون به من إقامة دينهم بأن يتصدى منهم طائفة يحصل فيها الكفاية {يدعون إلى الخير}؛ وهو الدين: أصوله وفروعه وشرائعه {ويأمرون بالمعروف}؛ وهو ما عرف حسنه شرعاً وعقلاً {وينهون عن المنكر}؛ وهو ما عرف قبحه شرعاً وعقلاً {وأولئك هم المفلحون}؛ المدركون لكل مطلوب الناجون من كل مرهوب، ويدخل في هذه الطائفة أهل العلم والتعليم والمتصدون للخطابة ووعظ الناس عموماً وخصوصاً والمحتسبون، الذين يقومون بإلزام الناس بإقامة الصلوات وإيتاء الزكاة والقيام بشرائع الدين، وينهونهم عن المنكرات. فكل من دعا الناس إلى خير على وجه العموم أو على وجه الخصوص، أو قام بنصيحة عامة أو خاصة فإنه داخل في هذه الآية الكريمة. ثم نهاهم عن سلوك مسلك المتفرقين الذين جاءهم الدين والبينات الموجب لقيامهم به واجتماعهم، فتفرقوا واختلفوا وصاروا شيعاً، ولم يصدر ذلك عن جهل وضلال وإنما صدر عن علم وقصد سيئ وبغي من بعضهم على بعض، ولهذا قال: {وأولئك لهم عذاب عظيم}؛ ثم بين متى يكون هذا العذاب العظيم ويمسهم هذا العذاب الأليم فقال:
- AyatMeaning
- [105-102] ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو حکم دیا ہے کہ اس سے ایسے ڈریں جیسے ڈرنے کا حق ہے، پھر اس تقویٰ پر قائم اور ثابت قدم رہیں۔ اور موت تک استقامت ہو۔ کیونکہ انسان جس طرح کی زندگی گزارتا ہے، اسے ویسی ہی موت نصیب ہوتی ہے۔ جو شخص صحت، نشاط اور طاقت کی حالت میں اللہ کے تقویٰ اور اس کی اطاعت پر قائم رہتا ہے، اور ہمیشہ اس کی طرف متوجہ رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے موت کے وقت استقامت عطا فرماتا ہے اور اسے حسن خاتمہ سے نوازتا ہے۔ اللہ سے کماحقہ تقویٰ رکھنے کی وضاحت جناب عبداللہ بن مسعودtنے ان الفاظ میں کی ہے: (ھُوَ أَنْ یُّطَاعَ فَلاَ یُعصٰی، وَیُذْکَرَ فَلَا یُنْسٰی وَیُشْکَرَ فَلَا یُکْفَر) ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی فرماںبرداری کی جائے، نافرمانی نہ کی جائے، اسے یاد کیا جائے، فراموش نہ کیا جائے، اس کا شکر کیا جائے، ناشکری نہ کی جائے۔‘‘ اس آیت میں وضاحت ہے تقویٰ کے سلسلے میں اللہ کا کیا حق ہے۔ اس بارے میں بندے کا فرض کیا ہے۔ وہ اللہ کے اس فرمان میں بیان ہوا ہے: ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾ (التغابن:64؍16)’ ’جہاں تک تمھارا بس چلے، اللہ سے ڈرتے رہو‘‘ دل اور جسم کے متعلق تقویٰ کی تفصیلات بہت زیادہ ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ جس جس کام کا حکم دے، اسے انجام دینا اور جس جس کام سے منع کرے، اس سے باز رہنا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کام کا حکم دیا ہے جو تقویٰ اختیار کرنے میں مدد دیتا ہے، وہ ہے متحد رہنا، اللہ کے دین پر مضبوطی سے کاربند رہنا، تمام مومنوں کا یک آواز ہونا، مل جل کر رہنا اور اختلاف نہ کرنا۔ دین پر متحد رہنے سے اور باہمی الفت و مودت سے ان کا دین بھی درست رہے گا اور دنیا بھی درست رہے گی۔ اتحاد کی وجہ سے وہ ہر کام کرسکیں گے، اور انھیں وہ تمام فوائد حاصل ہوں گے جن کا دارومدار اتفاق و اتحاد پر ہے۔ یہ فوائد اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں۔ علاوہ ازیں نیکی اور تقویٰ میں تعاون بھی ممکن ہوجائے گا۔ اس کے برعکس اختلاف اور تفرقہ کی وجہ سے ان کا نظام درہم برہم ہوجائے گا، باہمی رابطے ٹوٹ جائیں گے اور ہر شخص اپنے ذاتی فائدے کے لیے بھاگ دوڑ کرے گا، اگرچہ اس سے اجتماعی طورپر نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک نعمت ذکر فرمائی اور حکم دیا کہ اسے یاد رکھیں ۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءًؔ ﴾ ’’اور اللہ کی اس وقت کی نعمت یاد کرو، جب تم (یہ نعمت حاصل ہونے سے پہلے) ایک دوسرے کے دشمن تھے‘‘ ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے۔ ایک دوسرے کا مال چھینتے تھے، قبیلوں کی قبیلوں سے دشمنی تھی، ایک ہی شہر کے رہنے والے آپس میں عداوت اور جنگ و جدل کا شکار تھے۔ غرض بہت بری حالت تھی۔ یہ وہ حالت ہے جو نبیeکی بعثت سے پہلے عرب میں عام تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرتeکو مبعوث فرمایا، اور وہ لوگ ایمان لے آئے، تو وہ اسلام کی بنیاد پر اکٹھے ہوگئے، ان کے دلوںمیں ایمان کی وجہ سے محبت پیدا ہوگئی۔ وہ باہمی محبت اور مدد کے لحاظ سے فرد واحد کی حیثیت اختیار کرگئے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَاَلَّفَ بَیْنَ قُ٘لُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا ﴾ ’’اس نے تمھارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے۔‘‘ اس کے بعد فرمایا: ﴿ وَؔكُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ ﴾ ’’اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے‘‘ یعنی تم جہنم کے مستحق ہوچکے تھے۔ صرف اتنی کسر رہ گئی تھی کہ تمھیں موت آجائے تو جہنم میں داخل ہوجاؤ۔ ﴿فَاَنْؔقَذَكُمْ مِّنْهَا ﴾ ’’تو اس نے تمھیں اس سے بچالیا‘‘ وہ اس طرح کہ تم پر یہ احسان کیا کہ تمھیں محمدeپر ایمان نصیب فرمادیا۔ ﴿كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ ﴾ ’’اللہ اسی طرح تمھارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے‘‘ یعنی ان کی وضاحت اور تشریح کرتا ہے، اور تمھارے لیے حق و باطل اور ہدایت و گمراہی الگ الگ کرکے واضح کردیتا ہے ﴿ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ ﴾ ’’تاکہ تم (حق کو پہچان کر اور اس پر عمل کرکے) ہدایت پاؤ‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ بندے دلوں اور زبانوں کے ساتھ اس کی نعمت کو یاد کریں، تاکہ ان میں شکر اور اللہ کی محبت کے جذبات پروان چڑھیں ا ور اللہ تعالیٰ مزید فضل و احسانات سے نوازے۔ اللہ کی جو نعمت سب سے زیادہ ذکر کیے جانے کے قابل ہے وہ ہے اسلام کا شرف حاصل ہوجانے کی نعمت، اتباع رسول کی توفیق مل جانے کی نعمت اور مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کی موجودگی اور اختلاف و افتراق نہ ہونے کی نعمت۔ مطلب یہ ہے کہ اے مومنو! جن پر اللہ نے ایمان لانے اور اپنی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کی توفیق دے کر احسان فرمایا ہے، تم میں سے ﴿اُمَّةٌ ﴾ ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے ﴿ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ ﴾ ’’جو بھلائی کی طرف بلائے۔‘‘ (خیر) ’’بھلائی‘‘ میں ہر وہ چیز شامل ہے جو اللہ سے قریب کرنے والی، اور اس کی ناراضی سے دور کرنے والی ہو۔ ﴿ وَؔیَ٘اْمُرُوْنَ بِالْ٘مَعْرُوْفِ ﴾ ’’اور وہ نیک کاموں کا حکم کرے‘‘ (معروف) اسے کہتے ہیں جس کا اچھا ہونا عقل اور شریعت کی روشنی میں معلوم ہوچکا ہو۔ ﴿ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْؔكَرِ ﴾ ’’اور برے کاموں سے روکے‘‘ (منکر) اسے کہتے ہیں جس کا برا ہونا عقل اور شریعت کے ذریعے سے معلوم ہوچکا ہو۔ اس میں مومنوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ان میں ایک ایسی جماعت موجود ہونی چاہیے جو لوگوں کو اس کی راہ کی طرف بلائے، اور اس کے دین کی طرف رہنمائی کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہے۔ اس جماعت میں وہ علماء بھی شامل ہیں جو لوگوں کو دین سکھاتے ہیں، وہ مبلغ بھی جو دوسرے مذاہب والوں کو دین اسلام میں داخل ہونے کی، اور بدعملی میں مبتلا لوگوں کو دین پر کاربند ہونے کی تبلیغ کرتے ہیں، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے بھی، اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کی ڈیوٹی یہ ہے کہ وہ لوگوں کے حالات معلوم کرتے رہیں، اور انھیں شرعی احکام مثلاً نماز، روزہ، حج اور زکاۃ وغیرہ کی پابندی کروائیں اور غلط کاموں سے روکیں مثلاً ماپ تول کے پیمانوں اور باٹوں کو چیک کریں، بازار میں خریدوفروخت کرنے والوں کو دھوکا بازی سے اور لین دین کے ان معاملات سے روکیں جو شرعاً ناجائز ہیں۔ یہ سب کام فرض کفایہ ہیں۔ جیسے کہ آیت کریمہ کے الفاظ ﴿ وَلْتَؔكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ ﴾ ’’تم میں سے ایک جماعت ہونی چاہیے‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے، یعنی تم میں ایک جماعت ایسی موجود ہونی چاہیے جس سے مذکورہ بالا مقاصد حاصل ہوسکیں۔ یہ ایک جانا پہچانا اور مانا ہوا اصول ہے کہ جب کسی خاص کام کا حکم دیا جائے، تو اس میں ان تمام کاموں کا حکم شامل ہوتا ہے، جو اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ضروری ہوں۔ لہٰذا وہ تمام کام جن پر ان اشیاء کا وجود موقوف ہے، وہ سب ضروری ہیں اور اللہ کی طرف سے ان کا حکم سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً جہاد کے لیے طرح طرح کے سامان تیار کرنا، جن سے دشمنوں کا قلع قمع کیا جاسکے اور اسلام کا نام بلند کیا جاسکے، وہ علم سیکھنا جن کی مدد سے نیکی کی طرف بلایا جاسکے۔ علم و رہنمائی کے لیے مدارس کی تعمیر، لوگوں میں شریعت نافذ کرنے کے لیے حکمرانوں کی قولی،عملی اور مالی امداد۔ اور ایسے دوسرے کام جن پر ان امور کادارومدار ہے۔ یہ جماعت جو نیکی کی طرف بلانے، بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے لیے کمر بستہ ہے، یہ خاص مومنین ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ﴾ ’’اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘ یعنی کامیاب ہیں جنھیں مطلوب حاصل ہوگا اور خطرناک نتائج سے محفوظ رہیں گے۔ اس کے بعد انھیں اہل کتاب کی طرح اختلاف و انتشار میں گرفتار ہونے سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا ﴾ ’’اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنھوں نے تفرقہ ڈالا، اور اختلاف کیا‘‘ اور عجیب بات یہ ہے کہ انھوں نے اختلاف بھی کیا تو ﴿ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُ ﴾ ’’روشن دلیلیں آجانے کے بعد‘‘ حالانکہ ان کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ افتراق و اختلاف نہ ہوتا۔ انھیں دین پر دوسروں کی نسبت زیادہ پابندی اختیار کرنا چاہیےتھی۔ لیکن انھوں نے بالکل الٹ کام کیا حالانکہ انھیں معلوم تھا کہ وہ اللہ کے احکام کی مخالفت کررہے ہیں، اس لیے وہ سخت عذاب کے مستحق ہوگئے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا ہے: ﴿وَاُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ ’’اور انھی لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘
- Vocabulary
- AyatSummary
- [105
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF