Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 44
- SuraName
- تفسیر سورۂ دخان
- SegmentID
- 1422
- SegmentHeader
- AyatText
- {10 ـ 16} {فارتقِبْ}؛ أي: انتظر فيهم العذابَ؛ فإنَّه قد قربَ وآنَ أوانه، {يومَ تأتي السماءُ بدخانٍ مبينٍ. يغشى الناسَ}؛ أي: يعمُّهم ذلك الدخان، ويقال لهم: {هذا عذابٌ أليمٌ}. واختلف المفسِّرون في المراد بهذا الدُّخان: فقيل: إنَّه الدخان الذي يغشى الناسَ ويعمُّهم حين تقرب النار من المجرمين في يوم القيامة، وأنَّ الله توعَّدهم بعذاب يوم القيامةِ، وأمر نبيَّه أن ينتظر بهم ذلك اليوم. ويؤيد هذا المعنى أنَّ هذه الطريقة هي طريقةُ القرآن في توعُّد الكفَّار والتأنِّي بهم وترهيبهم بذلك اليوم وعذابه وتسلية الرسول والمؤمنين بالانتظار بمن آذاهم. ويؤيِّده أيضاً أنَّه قال في هذه الآية: {أنَّى لهم الذِّكْرى وقد جاءَهُم رسولٌ مبينٌ}، وهذا يُقال يومَ القيامةِ للكفار حين يطلبون الرجوعَ إلى الدُّنيا، فيقال: قد ذهب وقتُ الرجوع. وقيل: إنَّ المراد بذلك ما أصاب كفارَ قريش حين امتنعوا من الإيمان واستَكْبروا على الحقِّ، فدعا عليهم النبيُّ - صلى الله عليه وسلم -، فقال: «اللهمَّ أعِنِّي عليهم بسنينَ كَسِني يوسُفَ». فأرسل الله عليهم الجوع العظيم، حتى أكلوا الميتات والعظام، وصاروا يَرَوْنَ الذي بين السماء والأرض كهيئة الدخان، وليس به، وذلك من شدَّة الجوع، فيكون على هذا قولُه: {يوم تأتي السماءُ بدخانٍ}: أن ذلك بالنسبة إلى أبصارهم وما يشاهدون، وليس بدخانٍ حقيقةً، ولم يزالوا بهذه الحالة حتى اسْتَرْحموا رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم -، وسألوه أن يَدْعُوَ اللهَ لهم أن يكشِفَه الله عنهم، [فَدَعا رَبَّه]؛ فكشفه الله عنهم، وعلى هذا فيكون قوله: {إنَّا كاشِفو العذابِ قليلاً إنَّكم عائدونَ}: إخبارٌ بأنَّ الله سيصرِفُه عنهم ، وتوعُّدٌ لهم أن يعودوا إلى الاستكبار والتكذيب، وإخبارٌ بوقوعه، فوقع، وأنَّ الله سيعاقِبُهم بالبطشة الكبرى، قالوا: وهي وقعةُ بدرٍ. وفي هذا القول نظرٌ ظاهرٌ. وقيل: إنَّ المراد بذلك أن ذلك من أشراط الساعة، وأنَّه يكون في آخرِ الزَّمان دخانٌ يأخذُ بأنفاس الناس ويصيبُ المؤمنين منه كهيئةِ الدُّخان. والقول هو الأول. وفي الآية احتمالُ أنَّ المراد بقوله: {فارْتَقِبْ يوم تأتي السماءُ بدُخانٍ مبينٍ. يغشى الناسَ هذا عذابٌ أليمٌ. ربَّنا اكشِفْ عنَّا العذابَ إنَّا مؤمنونَ. أنَّى لهم الذِّكرى وقد جاءهُم رسولٌ مبينٌ. ثم تولَّوا عنه وقالوا معلمٌ مجنونٌ}: أنَّ هذا كلَّه [يكون] يوم القيامةِ، وأنَّ قولَه تعالى: {إنَّا كاشفو العذابِ قليلاً إنَّكم عائدونَ. يوم نَبْطِشُ البطشةَ الكُبرى إنَّا منتقمونَ}: أنَّ هذا ما وقع لقريش كما تقدم. وإذا أنزلت هذه الآيات على هذين المعنيين؛ لم تجد في اللفظ ما يمنعُ من ذلك، بل تَجِدُها مطابقةً لهما أتمَّ المطابقة، وهذا الذي يظهر عندي ويترجَّح. والله أعلم.
- AyatMeaning
- [16-10] ﴿فَارْتَقِبْ ﴾ یعنی ان پر عذاب نازل ہونے کا انتظار کیجیے، یہ عذاب بہت قریب ہے اور اس کا وقت آن پہنچا ہے ﴿یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍۙ۰۰ یَّغْشَى النَّاسَ ﴾ ’’جس دن آسمان صریح دھواں لائے گا جو لوگوں پر چھا جائے گا۔‘‘ یہ دھواں سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور ان سے کہا جائے گا: ﴿هٰؔذَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ یہ بہت درد ناک عذاب ہے۔ اہل تفسیر میں اس بارے میں اختلاف ہے کہ اس دھویں سے کیا مراد ہے، چنانچہ ایک قول یہ ہے کہ یہ وہ دھواں ہے کہ جب مجرم جہنم کی آگ کے قریب پہنچیں گے تو یہ انھیں اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور ان کو اندھا کر دے گا۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو قیامت کے روز جہنم کے عذاب کی وعید سنائی ہے اور نبی اکرم e کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ اس دن کا انتظار کریں۔ اس تفسیر کی اس بات سے تائید ہوتی ہے کہ قرآن کا طریقہ یہ ہے کہ وہ قیامت کے روز کے بارے میں کفار کو وعید سناتا ہے اور اس روز کے عذاب سے انھیں ڈراتا ہے۔ رسول e اور مومنین کو تسلی دیتے ہوئے ان کو تکلیفیں پہنچانے والے کفار کے بارے میں انتظار کا حکم دیتا ہے۔ نیز اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں فرمایا: ﴿اَنّٰى لَهُمُ الذِّكْرٰى وَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مُّبِیْنٌ﴾ ’’اس وقت ان کو نصیحت کہاں مفید ہوگی جبکہ ان کے پاس واضح رسول پہنچ چکے۔‘‘ یہ ارشاد کفار کو قیامت کے روز اس وقت سنایا جائے گا جب وہ دنیا میں دوبارہ بھیجے جانے کی درخواست کریں گے، چنانچہ ان سے کہا جائے گا کہ دنیا میں لوٹ جانے کا وقت گزر چکا ہے۔ اس کی تفسیر میں دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ عذاب ہے جو کفار قریش پر اس وقت نازل ہوا جب انھوں نے ایمان لانے سے انکار کر دیا اور حق کے مقابلے میں تکبر کیا۔ رسول اللہ e نے ان کے لیے بدعا فرمائی: ’اَللّٰھُمَّ أَعِنِّی عَلَیْھِمْ بِسِنِینَ کَسِنِی یُوسُفُ‘ ’’اے اللہ! ان کے مقابلے میں ان قحط کے سالوں کے ذریعے سے میری مدد فرما جیسا کہ حضرت یوسف کے زمانے میں قحط کے سال تھے‘‘(صحیح البخاري، الأدب، باب تسمیۃ الولید، حدیث: 6200، و صحیح مسلم، صفات المنافقین، باب الدخان، حدیث: 2798) پس اللہ تعالیٰ نے ان پر بہت بڑا قحط بھیجا یہاں تک کہ وہ مردار اور ہڈیاں کھانے پر مجبور ہو گئے اور ان کی یہ حالت ہو گئی کہ انھیں آسمان اور زمین کے درمیان دھواں سا نظر آتا تھا، حالانکہ دھواں نہیں تھا۔ یہ کیفیت بھوک کی شدت کی وجہ سے تھی۔ تب اس تفسیر کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ ﴾ سے مراد یہ ہے کہ جو وہ مشاہدہ کریں گے وہ ان کی بصارت کی نسبت سے ہو گا۔ وہ حقیقت میں دھواں نہیں ہو گا، ان پر یہی حالت طاری رہی یہاں تک کہ انھوں نے رسول اللہ e سے رحم کی بھیک مانگتے ہوئے درخواست کی کہ وہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ان سے اس قحط کو دور کر دے ۔پس اللہ تعالیٰ نے اس قحط کو ہٹا دیا۔ تب اس تفسیر کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿اِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِیْلًا اِنَّـكُمْ عَآىِٕدُوْنَ﴾ ’’ہم تھوڑے دنوں کے لیے عذاب ٹال دیتے ہیں، مگر تم پھر (کفر کی طرف) لوٹ آتے ہو۔‘‘ میں اس بات کی خبر ہے کہ اللہ تعالیٰ عنقریب تم سے اس عذاب کو ہٹا دے گا اور یہ ان کے تکبر اور تکذیب کے رویہ کو دوبارہ اختیار کرنے پر سخت وعید ہے۔ نیز اس عذاب کے وقوع کی پیش گوئی ہے۔ پس یہ عذاب واقع ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ عنقریب انھیں ایک زبردست عذاب کی گرفت میں لے گا اور (بعض) اہل علم کا خیال ہے کہ اس سے مراد جنگ بدر ہے۔ یہ قول بظاہر محل نظر ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ آخری زمانے میں ایک دھواں لوگوں کو اپنی گرفت میں لے لے گا اور وہ سانس نہیں لے سکیں گے، مگر اہل ایمان کو دھواں بس عام دھویں کی طرح تکلیف دے گا۔ پہلا قول، صحیح تفسیر ہے۔ آیات کریمہ:﴿فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍۙ۰۰ یَّغْشَى النَّاسَ١ؕ هٰؔذَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ۰۰ رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ اِنَّا مُؤْمِنُوْنَ۰۰ اَنّٰى لَهُمُ الذِّكْرٰى وَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مُّبِیْنٌۙ۰۰ ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوْا مُعَلَّمٌ مَّجْنُوْنٌ﴾ میں اس امر کا بھی احتمال موجود ہے کہ یہ سب کچھ قیامت کے روز واقع ہو گا اور رہا اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی: ﴿اِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِیْلًا اِنَّـكُمْ عَآىِٕدُوْنَۘ۰۰ یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرٰى ١ۚ اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ ﴾ تو یہ ان واقعات کی طرف اشارہ ہے جو قریش کو پیش آئے۔ جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے۔ جب ان آیات کریمہ کو ان دونوں معنی پر محمول کیا جائے تو آپ آیات کے الفاظ میں کوئی ایسی چیز نہیں پائیں گے جو اس سے مانع ہو بلکہ آپ اس کے الفاظ کو ان معانی کے پوری طرح مطابق پائیں گے، میرے نزدیک یہی معنی ظاہر اور راجح ہے۔ واللّٰہ اعلم۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [16-
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF