Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
42
SuraName
تفسیر سورۂ شورٰی
SegmentID
1401
SegmentHeader
AyatText
{38} {والذين استجابوا لربِّهم}؛ أي: انقادوا لطاعته، ولبَّوْا دعوته، وصار قصدُهُم رضوانَه وغايتُهُم الفوزَ بقربِهِ، ومن الاستجابة لله إقامُ الصَّلاة وإيتاءُ الزَّكاة؛ فلذلك عطفَهما على ذلك من باب عطف العامِّ على الخاصِّ الدالِّ على شرفه وفضله، فقال: {وأقاموا الصلاةَ}؛ أي: ظاهرها وباطنها فرضها ونفلها، {ومما رَزَقْناهم يُنفِقونَ}: من النفقات الواجبة؛ كالزكاة والنفقة على الأقارب ونحوهم، والمستحبَّة؛ كالصدقات على عموم الخلق. {وأمرُهُم}: الدينيُّ والدنيويُّ، {شورى بينهم}؛ أي: لا يستبدُّ أحدٌ منهم برأيه في أمر من الأمور المشتركة بينهم، وهذا لا يكون إلاَّ فرعاً عن اجتماعهم وتوالُفِهم وتوادُدِهم وتحابُبِهم؛ وكمال عقولهم أنَّهم إذا أرادوا أمراً من الأمور التي تحتاجُ إلى إعمال الفكرِ والرأي فيها؛ اجتمعوا لها وتشاوروا وبحثوا فيها، حتى إذا تبيَّنت لهم المصلحةُ؛ انتهزوها وبادروها، وذلك كالرأي في الغزو والجهاد وتولية الموظَّفين لإمارةٍ أو قضاءٍ أو غيره، وكالبحث في المسائل الدينيَّة عموماً؛ فإنَّها من الأمور المشتركة، والبحثُ فيها لبيان الصَّواب مما يحبُّه الله، وهو داخلٌ في هذه الآية.
AyatMeaning
[38] ﴿وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ ﴾ ’’اور جو اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں۔‘‘ یعنی جو اس کی اطاعت کرتے ہیں، اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا ان کا مطمحِ نظر اور اس کے قرب کا حصول ان کی غرض و غایت بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دعوت کا جواب دینے سے مراد ہے، نماز قائم کرنا اور زکاۃ ادا کرنا، اس لیے ان کا استجابت پر عطف کیا ہے، یہ خاص پر عام کے عطف کے باب میں سے ہے، جو اس کے فضل و شرف کی دلیل ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ﴾ یعنی اس کے ظاہر و باطن اور فرائض و نوافل کو قائم کرتے ہیں۔ ﴿وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ﴾ ’’اور ہم نے جو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘ یعنی نفقات واجبہ ، مثلاً: زکاۃ اور اقارب پر خرچ کرنا وغیرہ اور نفقات مستحبہ ، مثلاً: عام مخلوق پر صدقہ کرنا۔ ﴿وَاَمْرُهُمْ ﴾ ان کے دینی اور دنیاوی معاملات ﴿شُوْرٰى بَیْنَهُمْ ﴾ ’’باہم مشورے سے طے پاتے ہیں۔‘‘ یعنی مشترکہ امور میں ان میں سے کوئی بھی اپنی رائے کو مسلط نہیں کرتا۔ یہ وصف ان کی اجتماعیت، آپس کی الفت، مودت اور محبت ہی کا حصہ ہے۔ ان کا کمال عقل ہے کہ جب وہ کسی ایسے کام کا ارادہ کرتے ہیں جس میں غوروفکر کی ضرورت ہو تو وہ اکٹھے ہو کر اس بارے میں بحث و تمحیص اور آپس میں مشورہ کرتے ہیں، جب ان پر مصلحت واضح ہو جاتی ہے تو اسے جلدی سے قبول کر لیتے ہیں، جیسے غزوہ، جہاد، امارت یا قضا وغیرہ کے لیے عمّال مقرر کرنے میں مشورہ کرنا اور دینی مسائل میں بحث و تحقیق کرنا کیونکہ یہ اعمال مشترکہ امور میں شمار ہوتے ہیں تاکہ صحیح رائے واضح ہو جائے جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ یہ بھی اسی آیت کریمہ کے تحت آتا ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[38]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List