Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
42
SuraName
تفسیر سورۂ شورٰی
SegmentID
1395
SegmentHeader
AyatText
{23} {ذلك الذي يبشِّر الله به عبادَه الذين آمنوا وعمِلوا الصالحاتِ}؛ أي: هذه البشارة العظيمة التي هي أكبرُ البشائر على الإطلاق بَشَّرَ بها الرحيم الرحمن على يد أفضل خلقه لأهل الإيمان والعمل الصالح؛ فهي أجلُّ الغايات، والوسيلةُ الموصلةُ إليها أفضلُ الوسائل، {قل لا أسألُكُم عليه}؛ أي: على تبليغي إيَّاكم هذا القرآن ودعوتكم إلى أحكامه {أجراً}؛ فلستُ أريدُ أخذَ أموالكم ولا التولِّي عليكم والترأس ولا غير ذلك من الأغراض {إلاَّ المودَّةَ في القُربى}. يُحتمل أنَّ المراد: لا أسألُكُم عليه أجراً؛ إلاَّ أجراً واحداً، هو لكم، وعائدٌ نفعُه إليكم، وهو أن تَوَدُّوني وتحبُّوني في القرابة؛ أي: لأجل القرابة، ويكون على هذا المودَّة الزائدة على مودَّة الإيمان؛ فإنَّ مودَّة الإيمان بالرسول وتقديم محبَّته على جميع المحابِّ بعد محبَّة الله فرضٌ على كلِّ مسلم، وهؤلاء طَلَبَ منهم زيادةً على ذلك أن يحبُّوه لأجل القرابِةِ؛ لأنَّه - صلى الله عليه وسلم - قد باشر بدعوته أقربَ الناس إليه، حتى إنَّه قيل: إنَّه ليس في بطون قريش أحدٌ إلاَّ ولرسول اللهِ - صلى الله عليه وسلم - فيه قرابةٌ. ويُحتملُ أنَّ المرادَ: إلاَّ مودة الله تعالى المودة الصادقة، وهي التي يصحبُها التقرُّب إلى الله والتوسُّل بطاعته الدالَّة على صحَّتها وصدقها، ولهذا قال: {إلاَّ المودَّة في القربى}؛ أي: في التقرُّب إلى الله. وعلى كلا القولين؛ فهذا الاستثناءُ دليلٌ على أنَّه لا يسألكم عليه أجراً بالكلِّيَّة؛ إلاَّ أن يكون شيئاً يعود نفعُه إليهم؛ فهذا ليس من الأجر في شيء، بل هو من الأجر منه لهم - صلى الله عليه وسلم -؛ كقوله تعالى: {وما نَقَموا منهم إلاَّ أن يؤمِنوا بالله العزيزِ الحميدِ}، وقولهم: ما لفلان عندك ذنبٌ إلاَّ أنَّه محسنٌ إليك. {ومَن يَقْتَرِفْ حسنةً}: من صلاةٍ أو صوم أو حجٍّ أو إحسانٍ إلى الخلق، {نَزِدْ له فيها حُسْناً}: بأن يشرحَ الله صدرَه وييسِّر أمره ويكون سبباً للتوفيق لعمل آخر، ويزدادَ بها عملُ المؤمن ويرتفعَ عند الله وعند خلقِهِ، ويحصُلَ له الثوابُ العاجل والآجل. {إنَّ الله غفورٌ شكورٌ}: يغفر الذنوبَ العظيمةَ، ولو بلغتْ ما بلغتْ عند التوبة منها، ويشكر على العمل القليل بالأجرِ الكثيرِ؛ فبمغفرتِهِ يغفرُ الذنوبَ ويستُر العيوبَ، وبشكرِهِ يتقبَّل الحسناتِ ويضاعِفُها أضعافاً كثيرةً.
AyatMeaning
[23] ﴿ذٰلِكَ الَّذِیْ یُبَشِّرُ اللّٰهُ عِبَادَهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’یہی وہ ہے جس کی اللہ اپنے بندوں کو جو ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں بشارت دیتا ہے۔‘‘ یہ عظیم خوشخبری جو بلاشبہ علی الاطلاق سب سے بڑی خوشخبری ہے، جس سے رحمان و رحیم نے، مخلوق میں سے بہترین ہستی کے ذریعے سے ایمان اور عمل صالح کے حاملین کو سرفراز فرمایا ہے۔ یہ جلیل ترین غایت مقصود ہے اور اس مقصد تک پہنچانے والا وسیلہ افضل ترین وسیلہ ہے۔ ﴿قُ٘لْ لَّاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَیْهِ ﴾ ’’آپ کہہ دیجیے! میں اس پر تم سے کوئی سوال نہیں کرتا۔‘‘ یعنی تمھیں یہ قرآن پہنچانے اور تمھیں اس کے احکام کی طرف دعوت دینے پر ﴿اَجْرًا ﴾ ’’اجر کا۔‘‘ میں تم سے تمھارا مال لینا چاہتا ہوں نہ تمھارا سردار بننا چاہتا ہوں اور نہ میری کوئی اور ہی غرض ہے ﴿اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْ٘قُ٘رْبٰى﴾ ’’مگر قرابت داری کی محبت۔‘‘ ایک احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد ہو کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، سوائے ایک اجر کے، وہ تمھارے ہی لیے ہے، اس کا فائدہ بھی تمھیں ہی پہنچتا ہے ، یعنی تم مجھ سے رشتہ داری کی وجہ سے محبت کرو اور یہ مودت، ایمان کی مودت سے زائد چیز ہے کیونکہ رسول (e) پر ایمان کی مودت اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے بعد رسول کی محبت کو تمام محبتوں پر مقدم رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اور ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایمان کی محبت زائد قرابت داری کی بنا پر اس سے محبت کرو کیونکہ رسول اللہ e نے قریب ترین رشتہ داروں تک اپنی دعوت پہنچائی۔ حتیٰ کہ کہا جاتا ہے کہ قریش کے گھرانوں میں کوئی ایسا گھرانہ نہ تھا جس کے ساتھ رسول اللہ e کی رشتہ داری نہ ہو ۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچی مودت و محبت ہو اور یہ ایسی محبت ہے جس کی مصاحبت میں تقرب الٰہی اور توسل ہوتے ہیں جن کی بنیاد اطاعت ہے، جو اس مودت و محبت کی صحت و صداقت کی دلیل ہے، اسی لیے فرمایا: ﴿ اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْ٘قُ٘رْبٰى ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف تقرب حاصل کرنے کے لیے۔ دونوں اقوال کے مطابق، یہ استثنا اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اکرم e تم سے اس پر کسی اجر کا مطالبہ نہیں کرتے، سوائے اس چیز کے کہ جس کا فائدہ خود تمھی کی طرف لوٹتا ہے۔ یہ کسی بھی طرح کوئی اجر نہیں، بلکہ یہ تو ان کے لیے رسول اللہ e کی طرف سے اجر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْ٘عَزِیْزِ الْحَمِیْدِ﴾ (البروج:85؍8) ’’وہ اہل ایمان سے صرف اس وجہ سے ناراض ہیں کہ وہ اللہ پر ایمان لائے، جو زبردست اور قابل تعریف ہے۔‘‘ اور جیسے کسی کا یہ کہنا:تمھارے نزدیک فلاں شخص کا بس یہی گناہ ہے کہ وہ تمھارے ساتھ بھلائی کرنے والا ہے۔ ﴿وَمَنْ یَّقْتَرِفْ حَسَنَةً ﴾ ’’اور جو کوئی نیکی کاکام کرے گا۔‘‘ یعنی نماز، روزہ اور حج پر کاربند رہتا ہے اور مخلوق کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا ہے۔ ﴿نَّزِدْ لَهٗ فِیْهَا حُسْنًا ﴾ ’’ہم اس کے لیے اس میں بھلائی بڑھا دیں گے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اس کے سینے کو کھول دیتا ہے، اس کے معاملے کو آسان کر دیتا ہے اور یہ نیکی کسی دوسرے نیک عمل کی توفیق کا ذریعہ بن جاتی ہے اور اس ذریعے سے مومن کے اعمال صالحہ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے نزدیک اس کا مرتبہ بلند ہو جاتا ہے اور وہ دنیاوی اور اخروی ثواب سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ ﴾ ’’بے شک اللہ بہت بخشنے والا، بہت قدردان ہے۔‘‘ وہ توبہ کرنے پر تمام بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے خواہ وہ کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں۔ وہ تھوڑے سے عمل پر بہت زیادہ اجر عطا کر کے اس عمل کی قدر دانی کرتا ہے۔ پس وہ اپنی مغفرت کے ذریعے سے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور عیبوں کو چھپاتا ہے اور اپنی قدر دانی کی بنا پر نیکیوں کو قبول کر کے ان میں کئی گنا اضافہ کرتا ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[23]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List