Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 38
- SuraName
- تفسیر سورۂ ص
- SegmentID
- 1315
- SegmentHeader
- AyatText
- {63} {أتَّخَذْناهُم سِخْرِيًّا أم زاغَتْ عنهُمُ الأبصارُ}؛ أي: عدم رؤيتنا لهم دائرٌ بين أمرينِ: إمَّا أنَّنا غالِطونَ في عدِّنا إيَّاهم من الأشرارِ، بل هم من الأخيارِ، وإنَّما كلامُنا لهم من باب السُّخرية والاستهزاء بهم، وهذا هو الواقع؛ كما قال تعالى لأهل النار: {إنَّه كان فريقٌ من عِبادي يقولون رَبَّنا آمَنَّا فاغْفِرْ لنا، وارْحَمْنا وأنت خيرُ الراحمين. فاتَّخَذْتُموهم سِخْريًّا حتى أنْسَوْكُم ذِكْري وكنتُم منهم تضحكونَ}. والأمرُ الثاني: أنَّهم لعلَّهم زاغتْ أبصارُنا عن رؤيتهم معنا في العذاب، وإلاَّ؛ فهم معنا معذَّبون، ولكن تجاوزَتْهُم أبصارُنا! فيُحتمل أنَّ هذا الذي في قلوبهم، فتكون العقائدُ التي اعتقدوها في الدُّنيا وكثرة ما حكموا لأهل الإيمان بالنار تمكَّنتْ من قلوبِهم وصارتْ صبغةً لها، فدخلوا النار وهم بهذه الحالة، فقالوا ما قالوا. ويُحتمل أنَّ كلامَهم هذا كلامُ تمويهٍ؛ كما موَّهوا في الدُّنيا موَّهوا حتى في النار، ولهذا يقول أهلُ الأعراف لأهل النار: {أهؤلاء الذين أقْسَمْتُم لا ينالُهُمُ الله برحمةٍ، ادْخُلوا الجنةَ لا خوفٌ عليكم ولا أنتم تحزنونَ}.
- AyatMeaning
- [63] ﴿اَتَّؔخَذْنٰهُمْ سِخْرِیًّا اَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْاَبْصَارُ ﴾ ’’کیا ہم نے ان سے مذاق کیا تھا یا ہماری آنکھیں پھر گئی ہیں۔‘‘ یعنی ان کا ہمیں نظر نہ آنا دو اسباب میں سے ایک سبب پر مبنی ہے یا تو ہم ان کو اشرار شمار کرنے میں غلطی پر تھے، حالانکہ وہ اچھے لوگ تھے۔ تب ان کے بارے میں ہماری باتیں تمسخر و استہزا کے زمرے میں آئیں گی۔ حقیقت فی الواقع یہی ہے جیسا کہ جہنمیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنَّهٗ كَانَ فَرِیْقٌؔ مِّنْ عِبَادِیْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْ٘فِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ۰۰ فَاتَّؔخَذْتُمُوْهُمْ سِخْرِیًّا حَتّٰۤى اَنْسَوْؔكُمْ ذِكْرِیْ وَؔكُنْتُمْ مِّؔنْهُمْ تَضْحَكُوْنَ ﴾ (المؤمنون: 23؍109-110) ’’بے شک میرے بندوں میں سے کچھ لوگ جب یہ کہتے، اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے، پس ہمیں بخش دے، ہم پر رحم فرما اور تو سب سے اچھا رحم فرمانے والا ہے، تو تم نے ان کا تمسخر اڑایا اور انھیں نشانۂ تضحیک بنایا کرتے تھے۔‘‘ دوسری بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شاید وہ ہمارے ساتھ عذاب میں مبتلا ہوں مگر وہ ہماری نظروں سے اوجھل رہ گئے ہوں۔ ایک احتمال یہ ہے کہ ان کا اہل ایمان کے بارے میں یہ موقف، دنیا میں ان کے دلوں میں جڑ پکڑ کر عقائد میں ڈھل گیا تھا، انھوں نے اہل ایمان کے بارے میں نہایت کثرت سے جہنمی ہونے کا حکم لگایا، وہ ان کے دلوں میں بیٹھ گیا تھا اور ان کے دل اسی رنگ میں رنگے گئے تھے۔ اسی حال میں انھوں نے متذکرہ بالا الفاظ کہے۔ یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ ان کا کلام، خلاف واقعہ اور ملمّع سازی کے زمرے میں آتا ہے، جیسا کہ وہ دنیا میں ملمع سازی کیا کرتے تھے، حتی کہ انھوں نے جہنم میں بھی ملمع سازی کی اسی لیے اہل اعراف اہل جہنم سے کہیں گے: ﴿اَهٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَ٘قْسَمْتُمْ لَا یَنَالُهُمُ اللّٰهُ بِرَحْمَةٍ١ؕ اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمْ وَلَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ ﴾ (الاعراف: 7؍49) ’’کیا یہ وہی لوگ نہیں جن کے بارے میں تم لوگ قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ اللہ ان کو اپنی رحمت سے بہرہ مند نہیں کرے گا۔ ان کو یوں حکم ہوگا کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ تم پر کوئی خوف ہے نہ تم غمگین ہوگے۔‘‘
- Vocabulary
- AyatSummary
- [63]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF