Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
33
SuraName
تفسیر سورۂ اَحزاب
SegmentID
1214
SegmentHeader
AyatText
{32} يقول تعالى: {يا نساءَ النبيِّ}: خطابٌ لهنَّ كلهنَّ {لستنَّ كأحدٍ من النساء إنِ اتَّقَيْتُنَّ}: الله؛ فإنَّكُنَّ بذلك تفقن النساء ولا يلحقكُنَّ أحدٌ من النساء؛ فكمِّلْنَ التقوى بجميع وسائلها ومقاصدها، فلهذا أرشدهنَّ إلى قطع وسائل المحرم، فقال: {فلا تَخْضَعْنَ بالقول}؛ أي: في مخاطبة الرجال، أو بحيث يسمعون، فَتَلِنَّ في ذلك، وتتكلَّمْنَ بكلام رقيق، يدعو ويطمع {الذي في قلبِهِ مرضٌ}؛ أي: مرض شهوة الزنا فإنه مستعدٌّ ينتظرُ أدنى محركٍ يحرِّكُه لأنَّ قلبه غيرُ صحيح؛ فإنَّ القلب الصحيح ليس فيه شهوةٌ لما حرَّم الله؛ فإنَّ ذلك لا تكاد تُميله ولا تُحركه الأسباب لصحةِ قلبه وسلامتِهِ من المرض؛ بخلاف مريض القلبِ الذي لا يتحمَّلُ ما يتحمَّلُ الصحيح، ولا يصبِرُ على ما يصبِرُ عليه؛ فأدنى سبب يوجَدُ ويدعوه إلى الحرام يُجيب دعوته ولا يتعاصى عليه؛ فهذا دليلٌ على أنَّ الوسائل لها أحكام المقاصد؛ فإنَّ الخضوع بالقول واللين فيه في الأصل مباح، ولكن لمَّا كان وسيلةً إلى المحرَّم؛ منع منه، ولهذا ينبغي للمرأة في مخاطبة الرجال أن لا تُلينَ لهم القول. ولمَّا نهاهنَّ عن الخضوع في القول؛ فربما تُوُهِّم أنهنَّ مأموراتٌ بإغلاظ القول؛ دَفَعَ هذا بقوله: {وقلنَ قولاً معروفاً}؛ أي: غير غليظ ولا جاف؛ كما أنه ليس بليِّنٍ خاضع. وتأمَّلْ كيف قال: {فلا تَخْضَعْنَ بالقول}، ولم يقل: فلا تَلِنَّ بالقول، وذلك لأنَّ المنهيَّ عنه القول الليِّن الذي فيه خضوع المرأة للرجل وانكسارُها عنده، والخاضِعُ هو الذي يُطمع فيه، بخلافِ من تكلَّمَ كلاماً ليِّناً ليس فيه خضوعٌ، بل ربَّما صار فيه ترفُّع وقهرٌ للخصم؛ فإنَّ هذا لا يطمع فيه خصمُه، ولهذا مدح الله رسولَه باللين، فقال: {فبما رحمةٍ من الله لِنتَ لهم}، وقال لموسى وهارون: {اذْهَبا إلى فرعونَ إنَّه طغى. فقولا له قَوْلاً ليِّناً لعله يَتَذَكَّر أو يخشى}. ودل قوله: {فيطمعَ الذي في قلبِهِ مرضٌ}؛ مع أمره بحفظ الفرج وثنائِهِ على الحافظين لفروجهم والحافظات، ونهيه عن قربان الزنا: أنَّه ينبغي للعبد إذا رأى من نفسه هذه الحالة، وأنه يهشُّ لفعل المحرم عندما يرى أو يسمع كلام من يهواه ويجد دواعي طمعِهِ قد انصرفتْ إلى الحرام، فليعرفْ أنَّ ذلك مرض، فليجتهدْ في إضعاف هذا المرض وحسم الخواطر الرديَّة ومجاهدة نفسه على سلامتها من هذا المرض الخطر وسؤال الله العصمة والتوفيق، وأنَّ ذلك من حفظ الفرج المأمور به.
AyatMeaning
[32] ﴿یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ ﴾ ’’ اے نبی کی بیویو!‘‘ تمام ازواج مطہرات سے خطاب ہے۔ ﴿لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ ﴾ ’’تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو، اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو‘‘ کیونکہ اس طرح تمھیں تمام عورتوں پر فوقیت حاصل ہو گی اور کوئی عورت تمھارے درجے کو نہیں پہنچ سکے گی۔ پس ازواج رسول نے تقویٰ کی اس کے تمام وسائل اور مقاصد کے ساتھ تکمیل کی، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تمام حرام و سائل کو منقطع کرنے میں ان کی راہنمائی فرمائی اور فرمایا: ﴿فَلَا تَخْ٘ضَ٘عْنَ بِالْقَوْلِ ﴾ ’’پس تم نزاکت کے ساتھ بات نہ کرو۔‘‘ یعنی مردوں کے ساتھ مخاطب ہوتے ہوئے یا اس وقت کہ لوگ تمھاری گفتگو سن رہے ہوں اور تم دھیمے لہجے اور رغبت دلانے والی نرم کلامی سے گفتگو کرو تو ہوسکتا ہے کہ تمھاری طرف مائل ہوجائے۔ ﴿الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ﴾ ’’وہ شخص جس کے دل میں روگ ہے۔‘‘ یعنی شہوت زنا کا مرض۔ بے شک ایسا شخص تیار رہتا ہے اور کسی ادنیٰ سے محرک کا منتظر رہتا ہے جو اس کو متحرک کر دے کیونکہ اس کا قلب صحت مند نہیں اور صحت مند قلب میں کسی ایسی چیز کی شہوت نہیں ہوتی جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہو۔ اس کے قلب کے صحت مند اور مرض سے سلامت ہونے کی وجہ سے اسباب اسے شہوت حرام کے لیے متحرک کر سکتے ہیں نہ اسے اس کی طرف مائل کر سکتے ہیں، بخلاف اس قلب کے جو مریض ہے وہ اس چیز کا متحمل نہیں ہو سکتا جس کا متحمل ایک صحت مند قلب ہو سکتا ہے، وہ اس چیز پر صبر نہیں کر سکتا جس پر ایک صحت مند صبر کر سکتا ہے۔ پس اگر ایک ادنیٰ سا سبب بھی اسے حرام کی طرف دعوت دے تو وہ اس کی دعوت پر لبیک کہے گا اور اس کی نافرمانی نہیں کرے گا۔ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ وسائل کے احکام بھی وہی ہیں جو مقاصد کے احکام ہیں کیونکہ دھیمے لہجے میں بات کرنا اور نرم کلامی، اصل میں مباح ہیں چونکہ اس قسم کی نرم کلامی حرام کردہ امر کے لیے وسیلہ بن سکتی ہے اس لیے اس سے روک دیا گیا، اس لیے عورت کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ مردوں سے مخاطب ہوتے وقت نرم لہجے میں بات نہ کرے۔ چونکہ انھیں نرم لہجے میں بات کرنے سے روکا گیا ہے اس لیے بسااوقات یہ وہم لاحق ہو سکتا ہے کہ انھیں درشت کلامی کا حکم ہے ، چنانچہ اس وہم کو اس ارشاد کے ذریعے سے دور کیا گیا ہے: ﴿وَّقُ٘لْ٘نَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا﴾ ’’اور دستور کے مطابق بات کیا کرو۔‘‘ یعنی جس طرح دھیما پن اور نرم کلامی نہیں ہونی چاہیے اسی طرح درشت لہجے اور بداخلاقی پر مشتمل کلام بھی نہیں ہونا چاہیے۔ غور کیجیے کیسے ارشاد فرمایا: ﴿فَلَا تَخْ٘ضَ٘عْنَ بِالْقَوْلِ ﴾ ’’نزاکت کے ساتھ بات نہ کرو۔‘‘ اور یہ نہیں کہا : فَلاَ تَلِنَّ بِالْقَوْلِ ’’بات کرنے میں نرمی نہ کرو۔‘‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی نرم کلامی ممنوع ہے جس میں مرد کے لیے عورت کی اطاعت اور اس کے انکسار کی جھلک ہو۔ اطاعت مند اور جھکنے والے کے بارے میں کسی قسم کا طمع کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس جو کوئی ایسے نرم لہجے میں بات کرتا ہے، جس میں اطاعت اور جھکاؤ کی جھلک نہیں ہوتی بلکہ اس میں ترفع اور مدمقابل کے لیے سختی ہوتی ہے، اس شخص کے بارے میں مدمقابل کوئی طمع نہیں کر سکتا، (ورنہ نرمی تو مطلوب ہے) اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول e کی نرم مزاجی کی مدح کرتے ہوئے فرمایا: ﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ ﴾ (آل عمران:3؍159) ’’پس اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے ہیں۔‘‘ حضرت موسیٰ اور ہارون iسے فرمایا: ﴿اِذْهَبَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى ۚۖ۰۰ فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّـرُ اَوْ یَخْشٰى﴾ (طہ:20/43۔44) ’’تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ نرمی سے بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت پکڑے یا ڈر جائے۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد: ﴿فَ٘یَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ ﴾ اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا شرم گاہ کی حفاظت کا حکم دینا، شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مردوں اور عورتوں کی مدح و ثنا اور اس کا زنا کے قریب جانے سے منع کرنا یہ سب کچھ دلالت کرتا ہے کہ بندے کے لیے مناسب یہ ہے کہ جب وہ اپنے نفس کو اس حالت میں دیکھے کہ وہ کسی حرام فعل کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے یا کسی محبوب ہستی کا کلام سن کر خوش ہوتا ہے اور اپنے اندر طمع کے داعیے کو حرام کی طرف رخ کرتے ہوئے پاتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مرض ہے۔ وہ اس مرض کو کمزور کرنے، ردی خیالات کا قلع قمع کرنے، اس خطرناک مرض سے نفس کو محفوظ کرنے کی پوری جدوجہد کرے اور اللہ تعالیٰ سے حفاظت اور توفیق کا سوال کرتا رہے۔ یہ بھی شرم گاہ کی حفاظت کے زمرے میں آتا ہے جس کا حکم دیا گیا ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[32]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List