Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 31
- SuraName
- تفسیر سورۂ لقمان
- SegmentID
- 1189
- SegmentHeader
- AyatText
- {27} ثم أخبر عن سعة كلامِهِ وعظمةِ قوله بشرح يبلغُ من القلوبِ كلَّ مبلغ، وتنبهِرُ له العقول وتحير فيه الأفئدة وتسيح في معرفتِهِ أولو الألباب والبصائر، فقال: {ولو أنَّ ما في الأرض من شجرةٍ أقلامٌ}: يُكتب بها، {والبحرُ يَمُدُّه من بعدِهِ سبعةُ أبحرٍ}: مداداً يستمدُّ بها؛ لتكسَّرت تلك الأقلام، ولفني ذلك المداد، ولم تنفد {كلماتُ الله}: وهذا ليس مبالغةً لا حقيقةَ له، بل لمَّا علم تبارك وتعالى أنَّ العقول تتقاصر عن الإحاطة ببعض صفاته، وعلم تعالى أنَّ معرفته لعباده أفضل نعمةٍ أنعم بها عليهم وأجلُّ منقبةٍ حصَّلوها، وهي لا تمكِنُ على وجهها، ولكن ما لا يُدْرَكُ كلُّه لا يُتْرَكُ كلُّه، فنبَّههم تعالى على بعضها تنبيهاً تستنير به قلوبُهم، وتنشرحُ له صدورُهم، ويستدلُّون بما وصلوا إليه إلى ما لم يصلوا إليه، ويقولون كما قال أفضلُهم، وأعلمُهم بربِّه: «لا نُحْصي ثناءً عليك، أنت كما أثْنَيْتَ على نفسِك »، وإلاَّ؛ فالأمر أجلُّ من ذلك وأعظم. وهذا التمثيلُ من باب تقريب المعنى الذي لا يُطاق الوصول إليه إلى الأفهام والأذهان، وإلاَّ؛ فالأشجار وإنْ تضاعَفَتْ على ما ذُكِرَ أضعافاً كثيرةً، والبحور لو امتدَّت بأضعاف مضاعفةٍ؛ فإنَّه يُتَصَوَّر نفادها وانقضاؤها؛ لكونها مخلوقةً، وأمَّا كلام الله تعالى؛ فلا يُتَصَوَّرُ نفادُه، بل دلَّنا الدليلُ الشرعيُّ والعقليُّ على أنَّه لا نفاد له ولا منتهى؛ فكل شيء ينتهي إلاَّ الباري وصفاته، {وأنَّ إلى ربِّك المنتهى}، وإذا تصوَّر العقلُ حقيقة أوَّليَّته تعالى وآخريَّته، وأنَّ كلَّ ما فرضه الذهنُ من الأزمان السابقة مهما تسلسل الفرضُ والتقدير؛ فهو تعالى قبل ذلك إلى غير نهاية، وأنَّه مهما فرض الذهنُ والعقل من الأزمان المتأخرة وتسلسلَ الفرضُ والتقديرُ وساعد على ذلك مَنْ ساعد بقلبِهِ ولسانِهِ؛ فالله تعالى بعد ذلك إلى غير غايةٍ ولا نهاية، والله في جميع الأوقات يحكُم ويتكلَّم ويقولُ ويفعل كيف أرادَ، وإذا أراد، لا مانعَ له من شيء من أقواله وأفعاله؛ فإذا تصوَّر العقلُ ذلك؛ عرف أن المثل الذي ضربه الله لكلامه لِيُدْرِكَ العبادُ شيئاً منه، وإلاَّ؛ فالأمرُ أعظم وأجلُّ. ثم ذكر جلالة عزَّته وكمال حكمتِهِ، فقال: {إنَّ الله عزيزٌ حكيمٌ}؛ أي: له العزَّة جميعاً الذي ما في العالم العلويِّ والسفليِّ من القوَّة إلاَّ منه، هو الذي أعطاها للخلق؛ فلا حول ولا قوَّةَ إلاَّ به، وبعزَّته قهر الخلق كلَّهم، وتصرَّف فيهم ودبَّرهم، وبحكمته خَلَقَ الخلق، وابتدأه بالحكمة، وجعل غايتَه والمقصودَ منه الحكمة، وكذلك الأمرُ والنهي وُجِدَ بالحكمة، وكانت غايتُه المقصودةُ الحكمةَ؛ فهو الحكيم في خلقه وأمره.
- AyatMeaning
- [27] اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کی وسعت اور اپنے قول کی عظمت کو ایسی شرح کے ساتھ بیان کیا جو دل کی گہرائیوں تک اتر جاتی ہے، جس سے عقل و خرد حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں اور عقل مند اور اصحاب بصیرت اس کی معرفت میں سیاحت کرتے ہیں، چنانچہ فرمایا: ﴿وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌؔ﴾ ’’اور اگر یوں ہو کہ زمین میں جتنے درخت ہیں (سب کے سب) قلم ہوں۔‘‘ جن کے ساتھ لکھا جائے ﴿وَّالْبَحْرُ یَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ ﴾ ’’اور سمندر روشنائی ہو اور اس کے بعد سات سمندر اور‘‘ روشنائی بن جائیں جن سے لکھنے میں مدد لی جائے تو قلم ٹوٹ جائیں گے اور یہ روشنائی ختم ہو جائے گی لیکن ﴿كَلِمٰتُ اللّٰهِ ﴾ اللہ تعالیٰ کی باتیں لکھنے سے کبھی ختم نہ ہوں گی۔ یہ مبالغہ نہیں ہے، جس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی، بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ عقل انسانی اللہ کی بعض صفات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے اور وہ جانتا ہے کہ بندوں کے لیے اس کی معرفت سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اس نے انھیں سرفراز کیا ہے اور سب سے بڑی منقبت ہے جو انھیں حاصل ہوئی ہے جس کا کامل طور پر ادراک ممکن نہیں، مگر جس چیز کا کامل ادراک ممکن نہ ہو اس کو کامل طور پر ترک نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان میں سے بعض صفات کی طرف اس طرح توجہ دلائی ہے جس سے ان کے قلب منور ہوتے ہیں اور انھیں شرح صدر حاصل ہوتی ہے وہ اس منزل تک پہنچنے کے لیے جس پر وہ نہیں پہنچے، اس چیز سے راہ نمائی لیتے ہیں جس تک وہ پہنچ چکے ہیں۔ اور وہ اسی طرح کہتے ہیں جیسے ان میں سے بہترین انسان اور اپنے رب کی سب سے زیادہ معرفت رکھنے والی ہستی نے کہا: ’لَا نُحْصِي ثَنَاءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ،(اصل لفظ (لَا اُحْصِي) ہے اور یہ مؤلفa کی سبقت قلم ہے) ’’ہم تیری ثنا بیان نہیں کر سکتے، تو ایسے ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی ثنا بیان کی۔‘‘(صحیح مسلم، الصلاۃ، باب ما یقال في الرکوع والسجود؟، ح: 486) ورنہ حقیقت یہ ہے کہ معاملہ اس سے جلیل تر اور عظیم تر ہے۔ یہ تمثیل ان معانی کو قریب کرنے کے باب میں سے ہے جہاں تک پہنچنے کی ذہن اور فہم طاقت نہیں رکھتا۔ ورنہ اگر درختوں کو کئی گنا کر لیا جائے اور سمندروں کو بھی کئی گنا کر کے ان کی روشنائی بنا لی جائے تب بھی ان کے ختم ہونے کا تو تصور کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ مخلوق ہیں... رہا اللہ تبارک و تعالیٰ کا کلام، تو اس کے ختم ہونے کا تصور نہیں کیا جا سکتا بلکہ عقلی اور نقلی دلیل دلالت کرتی ہے کہ اس کا کلام ختم ہوتا ہے نہ اس کی کوئی انتہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کے سوا باقی ہر چیز کی انتہا ہے۔ ﴿وَاَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْ٘مُنْ٘تَهٰى ﴾ (النجم:53؍42) ’’اور تیرے رب ہی کے پاس پہنچنا ہے۔‘‘ جب عقل اللہ تعالیٰ کی ’’اولیت‘‘ اور ’’آخریت‘‘ کا تصور کرے تو، ذہن گزرے ہوئے زمانوں کو فرض کرے۔ وہ ازمان گزشتہ کا جتنا بھی اندازہ لگائے گا تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے بھی پہلے ہے جس کا کوئی منتہیٰ نہیں۔ اسی طرح عقل وذہن میں آنے والے زمانوں کے بارے میں خواہ کتنا ہی اندازہ کر لیں اور قلب و زبان کے ذریعے سے اس کی مدد بھی لے لیں، اللہ تعالیٰ ان کے ان اندازوں سے بھی زیادہ متأخر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے تمام اوقات میں فیصلہ کرتا ہے، کلام کرتا ہے، وہ جیسے چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے اپنا قول و فعل صادر کرتا ہے اسے اپنے اقوال و افعال سے کوئی چیز مانع نہیں۔ جب عقل نے اس حقیقت کا تصور کر لیا تو معلوم ہوا کہ یہ مثال جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے ضمن میں بیان کی ہے صرف اس لیے ہے کہ بندوں کو اس کا تھوڑا سا ادراک ہو جائے ورنہ اللہ تعالیٰ کا کلام اس سے عظیم تر اور جلیل تر ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عزت کے جلال اور کمال حکمت کا ذکر کیا فرمایا: ﴿اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ ﴾ ’’بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی تمام عزت و غلبے کا وہی مالک ہے تمام عالم علوی اور عالم سفلی میں جو بھی قوت پائی جاتی ہے وہ اسی کی طرف سے ہے، وہی ہے جس کی توفیق کے بغیر گناہ سے بچنے کی ہمت ہے نہ نیکی کرنے کی طاقت ہے۔ وہ اپنے غلبے کے ذریعے سے تمام مخلوق پر غالب ہے، ان میں تصرف اور ان کی تدبیرکرتا ہے۔ اس نے اپنی حکمت سے تمام مخلوق کو پیدا کیا۔ اس تخلیق سے اس کی غرض و غایت اور مقصد بھی حکمت ہی ہے اسی طرح امرونہی بھی اس کی حکمت ہی سے وجود میں آئے ہیں، اور ان کو وجود میں لانے کی غایت مقصود بھی حکمت ہی ہے۔ پس وہ اپنے خلق و امر میں حکمت والا ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [27]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF