Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
31
SuraName
تفسیر سورۂ لقمان
SegmentID
1187
SegmentHeader
AyatText
{20 ـ 21} يمتنُّ تعالى على عباده بنعمِهِ، ويدعوهم إلى شكرها ورؤيتها وعدم الغفلة عنها، فقال: {ألم تروا}؛ أي: تشاهدوا وتُبصروا بأبصاركم وقلوبكم، {أنَّ الله سخَّر لكم ما في السمواتِ}: من الشمس والقمر والنُّجوم كلِّها مسخرات لنفع العباد، {وما في الأرض}: من الحيوانات والأشجار والزُّروع والأنهار والمعادن ونحوها؛ كما قال تعالى: {هو الذي خَلَقَ لكم ما في الأرض جميعاً}، {وأسبغَ عليكم}؛ أي: عمَّكم وغمركم نعمَه الظاهرةَ والباطنةَ؛ التي نعلم بها والتي تخفى علينا؛ نعم الدنيا ونعم الدين، حصول المنافع ودفع المضار؛ فوظيفتُكم أن تقوموا بشكرِ هذه النعم بمحبَّة المنعم والخضوع له وصرفها في الاستعانة على طاعتِهِ وأنْ لا يُستعان بشيء منها على معصيته. {و} لكن مع توالي هذه النعم {مِنَ الناس مَن}: لم يَشْكُرْها، بل كَفَرها، وكفر بمنْ أنعم بها، وجحدَ الحقَّ الذي أنزل به كتبه، وأرسل به رسله، فجعل {يجادِلُ في الله}؛ أي: يجادل عن الباطل ليدحضَ به الحقَّ، ويدفع به ما جاء به الرسول من الأمر بعبادةِ الله وحده، وهذا المجادلُ على غير بصيرة؛ فليس جدالُه عن علم؛ فيترك وشأنه، ويسمح له في الكلام. {ولا هدىً}: يقتدي به بالمهتدين {ولا كتابٍ منيرٍ}؛ أي: نيِّر مبين للحق؛ فلا معقول ولا منقول ولا اقتداء بالمهتدين، وإنما جداله في الله مبنيٌّ على تقليد آباءٍ غير مهتدين، بل ضالِّين مضلِّين، ولهذا قال: {وإذا قيلَ لهم اتَّبِعوا ما أنزلَ الله}: على أيدي رسله؛ فإنَّه الحقُّ، وبُيِّنَتْ لهم أدلتُه الظاهرة، {قالوا} معارضينَ ذلك: {بل نتَّبِعُ ما وَجَدْنا عليه آباءنا}: فلا نترك ما وجدنا عليه آباءنا لقول أحدٍ كائناً مَن كان. قال تعالى في الردِّ عليهم وعلى آبائهم: {أوَلَوْ كان الشيطانُ يدعوهم إلى عذابِ السعير}؛ أي: فاستجاب له آباؤهم، ومشوا خلفه، وصاروا من تلاميذ الشيطان، واستولت عليهم الحيرة؛ فهل هذا موجب لاتِّباعهم لهم ومشيهم على طريقتهم؟! أم ذلك يرهِبُهم من سلوك سبيلهم، وينادي على ضلالهم وضلال من تبعهم؟! وليس دعوة الشيطان لآبائهم ولهم محبة لهم ومودة، وإنَّما ذلك عداوةٌ لهم ومكرٌ لهم، وبالحقيقة أتباعه من أعدائِهِ الذين تمكَّن منهم، وظَفِرَ بهم، وقرَّتْ عينُه باستحقاقهم عذابَ السعير بقَبول دعوته.
AyatMeaning
[20، 21] اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی نعمتیں یاد دلاتا ہے اور انھیں ان نعمتوں پر شکر کرنے، ان کا مشاہدہ کرنے اور ان سے عدم غفلت کا حکم دیتا ہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿اَلَمْ تَرَوْا ﴾ کیا تم نے مشاہدہ نہیں کیا؟ کیا تم نے اپنی ظاہری اور دل کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش نہیں کی؟ ﴿اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ ﴾ کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے (سورج، چاند اور ستاروں میں سے) جو کچھ آسمان میں ہے، اسے تمھارے لیے مسخر کر دیا ہے۔‘‘ یہ سب بندوں کے فائدے کے لیے مسخر ہیں۔﴿وَمَا فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’اور جو کچھ زمین میں ہے۔‘‘ یعنی تمام حیوانات، درخت، کھیتیاں، دریا اور معدنیات وغیرہ کو تمھارے لیے مسخر کر دیا ہے جیسا کہ فرمایا: ﴿هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ﴾ (البقرۃ:2؍29) ’’وہی تو ہے جس نے زمین کی سب چیزیں تمھارے لیے پیدا کیں۔‘‘ ﴿وَاَسْبَغَ عَلَیْكُمْ ﴾ اور جس نے تمھیں دین و دنیا کی نعمتوں، بہت سی منفعتوں کے حصول اور مضرتوں سے دور ہونے جیسی وافر، ظاہری اور باطنی نعمتوں سے ڈھانپ لیا ہے۔ ان میں سے بعض کو ہم جانتے ہیں اور بعض کو نہیں جانتے۔ تمھارا وظیفہ یہ ہونا چاہیے کہ تم منعم کی محبت کے ساتھ اور اس کے سامنے سرافگندہ ہو کر ان نعمتوں پر شکر کا اظہار کرو، ان نعمتوں کو اس کی اطاعت میں صرف کرو اور ان نعمتوں سے ان کی نافرمانی پر مدد نہ لو۔ ﴿وَ﴾ ’’اور‘‘ ان نعمتوں کے پے درپے عطا ہونے کے باوجود ﴿مِنَ النَّاسِ مَنْ ﴾ ’’لوگوں میں ایسا آدمی بھی ہے جو‘‘ ان نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا بلکہ ان نعمتوں پر ناشکری کرتا ہے۔ اس ہستی کا انکار کرتا ہے جس نے اسے ان نعمتوں سے نوازا اور اس نے اس کے اس حق کو تسلیم نہ کیا جس کے لیے اس نے کتابیں نازل کیں اور اپنے رسول بھیجے۔ ﴿یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ ﴾ اور اس نے باطل دلائل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں جھگڑنا شروع کیا تاکہ حق کو نیچا دکھائے اور اس دعوت کو جسے رسول لے کر آیا ہے، یعنی اللہ وحدہ کی عبادت کی دعوت کو ٹھکرا دے اور یہ جھگڑنے والا شخص ﴿بِغَیْرِ عِلْمٍ ﴾ کسی علم اور کسی بصیرت کے بغیر جھگڑتا ہے۔ پس اس کا جھگڑا کسی علمی بنیاد پر مبنی نہیں ہے کہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور اس کے ساتھ بات چیت میں نرمی کی جائے ﴿وَّلَا هُدًى ﴾ اور نہ کسی ہدایت پر مبنی ہے، جس کی بنا پر ہدایت یافتہ لوگوں کی پیروی کی جاتی ہے ﴿وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِیْرٍ ﴾ اور نہ اس کا مجادلہ کسی روشن اور حق کو واضح کرنے والی کسی کتاب پر مبنی ہے۔ پس اس کا مجادلہ کسی معقول یا منقول دلیل پر مبنی ہے نہ ہدایت یافتہ لوگوں کی اقتدا پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس کی بحث و جدال تو صرف اپنے ان آباء و اجداد کی تقلید پر مبنی ہے جو کسی طرح بھی راہ راست پر نہ تھے، بلکہ خود گمراہ اور گمراہ کنندہ تھے۔ ﴿وَاِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ ﴾ ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو اللہ نے نازل کیا ہے اس کی اتباع کرو۔‘‘ یعنی جو کچھ اس نے رسولوں کے ذریعے سے نازل فرمایا ہے کیونکہ یہی حق ہے اور ان کے سامنے اس کے ظاہری دلائل بیان کیے ہیں ﴿قَالُوْا ﴾ تو وہ اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں: ﴿بَلْ نَ٘تَّ٘بِـعُ مَا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَا ﴾ ’’بلکہ ہم تو اسی کی پیروی کریں گے جس پر اپنے باپ دادا کو پایا۔‘‘ یعنی ہم کسی کی خاطر، خواہ وہ کوئی بھی ہو، ان عقائد و نظریات کو نہیں چھوڑ سکتے جن پر ہمارے باپ دادا عمل پیرا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا اور ان کے باپ دادا کا رد کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اَوَلَوْ كَانَ الشَّ٘یْطٰ٘نُ یَدْعُوْهُمْ اِلٰى عَذَابِ السَّعِیْرِ ﴾ ’’خواہ شیطان ان کو دوزخ کے عذاب کی طرف بلاتا ہو۔‘‘ یعنی ان کے آباء و اجداد نے شیطان کی آواز پر لبیک کہا اور اس کے پیچھے چل پڑے اور یوں وہ شیطان کے چیلوں میں شامل ہو گئے اور ان پر حیرت و تردد نے غلبہ پا لیا۔ کیا یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ ان کی پیروی کی جائے اور ان کے طریقے پر چلا جائے یا یہ چیز ان کو ان کے آباء و اجداد کے مسلک پر چلنے سے ڈراتی ہے اور ان کی اور ان کے پیروکاروں کی گمراہی کا اعلان کرتی ہے؟ ان کے آباء واجداد کے لیے شیطان کی دعوت کسی محبت اور مودت کی بنا پر نہیں بلکہ یہ تو ان کے ساتھ عداوت اور فریب ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس کے پیروکار اس کے دشمن ہیں جن پر قابو پانے میں وہ کامیاب ہوا ہے۔ جب لوگ اس کی دعوت کو قبول کر کے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کے مستحق بنتے ہیں تو اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔
Vocabulary
AyatSummary
[20،
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List