Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 28
- SuraName
- تفسیر سورۂ قصص
- SegmentID
- 1116
- SegmentHeader
- AyatText
- {8} فكأنَّها خافتْ عليه، وفعلتْ ما أمِرَت به، ألقته في اليمِّ، وساقه الله تعالى، حتى التقطه {آلُ فرعون}: فصار من لَقْطِهم، وهم الذين باشروا وُجْدانَه؛ {ليكون لهم عدوًّا وحَزَناً}؛ أي: لتكون العاقبةُ والمآلُ من هذا الالتقاط أن يكون عدوًّا لهم وحَزَناً يَحْزُنُهم؛ بسبب أنَّ الحذر لا ينفع من القدر، وأنَّ الذي خافوا منه من بني إسرائيل قيَّض الله أن يكونَ زعيمُهم يتربَّى تحت أيديهم وعلى نظرِهم وبكفالَتهم. وعند التدبُّر والتأمُّل تجدُ في طيِّ ذلك من المصالح لبني إسرائيل ودفع كثيرٍ من الأمور الفادحة بهم ومنع كثيرٍ من التعدِّيات قبلَ رسالته؛ بحيث إنَّه صار من كبار المملكة، وبالطبع لا بدَّ أن يحصُلَ منه مدافعةٌ عن حقوق شعبِهِ، هذا وهو هو ذو الهمة العالية والغيرة المتوقِّدة، ولهذا وصلتِ الحالُ بذلك الشعب المستضعف ـ الذي بلغ بهم الذُّلُّ والإهانةُ إلى ما قصَّ الله علينا بعضَه ـ أنْ صار بعضُ أفراده ينازِعُ ذلك الشعبَ القاهرَ العالي في الأرض كما سيأتي بيانُهُ، وهذا مقدِّمهٌ للظُّهور؛ فإن الله تعالى من سنَّته الجارية أن جعل الأمور تمشي على التدريج شيئاً فشيئاً، ولا تأتي دفعةً واحدة. وقوله: {إن فرعونَ وهامانَ وجنودَهما كانوا خاطِئينَ}؛ أي: فأرَدْنا أن نعاقِبهما على خطئهما، ونكيدهم جزاءً على مكرهم وكيدهم.
- AyatMeaning
- [8] چنانچہ انھوں نے وہی کچھ کیا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا اور موسیٰu کو صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ اس صندوق کو حفاظت کے ساتھ چلاتا رہا۔ حتی کہ فرعون کے گھر والوں نے اسے نکال لیا گویا وہ ان کے لیے راستے میں پڑا ہوا بچہ بن گیا جنھوں نے اسے نکالا تھا اور وہ اسے پاکر بہت خوش ہوئے ﴿ لِیَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا﴾ تاکہ ان کی عاقبت اور انجام یہ ہو کہ اٹھایا ہوا بچہ ان کا دشمن اور ان کے لیے حزن وغم اور صدمے کا باعث بنے، اس کا سبب یہ ہے کہ تقدیر الٰہی کے مقابلے میں احتیاط کام نہیں آتی۔ وہ چیز جس کے بارے میں وہ بنی اسرائیل سے خائف تھے اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا کہ ان کا قائد ان کے ہاتھوں میں ، ان کی نظروں کے سامنے اور ان کی کفالت میں تربیت پائے۔ جب آپ حضرت موسیٰ کے واقعے میں غور وفکر کریں گے تو اس ضمن میں آپ پائیں گے کہ بنی اسرائیل کے لیے بہت سے مصالح حاصل ہوئے اور بہت سے پریشان کن امور سے انھیں چھٹکارا حاصل ہوا، اسی طرح آپ کو رسالت ملنے سے پہلے بنی اسرائیل پر سے بہت سے مظالم ختم ہوگئے، کیونکہ آپ مملکت فرعون کے ایک بڑے عہدے دار کی حیثیت سے رہتے تھے....چونکہ آپ ایک بلند ہمت اور انتہائی غیرت مند انسان تھے اسی لیے طبعی طور پر آپ کی قوم کے بہت سے حقوق کا دفاع ہونا ضروری تھا۔ آپ کی ضعیف اور کمزور قوم.... جن کی کمزوری و ناتوانی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے.... کے بعض افراد اس ظالم و غاصب قوم کے خلاف جھگڑنے لگے تھے جیسا کہ اس کا بیان آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ یہ حضرت موسیٰu کے ظہور کے مقدمات تھے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ ہے کہ تمام امور آہستہ آہستہ اور بتدریج وقوع پذیر ہوتے ہیں ، کوئی واقعہ اچانک رونما نہیں ہوتا۔ فرمایا: ﴿ اِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِــِٕیْنَ ﴾ یعنی یہ سب مجرم تھے اس لیے ہم نے ان کو ان کے جرم کی سزا دینے کا ارادہ کیا اور ہم نے ان کے مکر اور سازش کرنے کی پاداش میں ان کے خلاف چال چلی۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [8]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF