Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
118
SegmentHeader
AyatText
{224} المقصود من اليمين والقسم تعظيم المُقْسَمِ به وتأكيد المُقْسَم عليه. وكان الله تعالى قد أمر بحفظ الأيمان وكان مقتضى ذلك حفظها في كل شيء، ولكن الله تعالى استثنى من ذلك إذا كان البر باليمين يتضمن ترك ما هو أحب إليه فنهى عباده أن يجعلوا أيمانهم عرضة أي مانعة وحائلة عن أن يبروا أي يفعلوا خيراً ويتقوا شرًّا ويصلحوا بين الناس، فمن حلف على ترك واجب وجب حِنْثه وحرم إقامته على يمينه، ومن حلف على ترك مستحب استحب له الحِنْثُ، ومن حلف على فعل محرَّم وجب الحِنْثُ، أو على فعل مكروه استحب الحِنْث. وأما المباح فينبغي فيه حفظ اليمين عن الحِنْث. ويستدل بهذه الآية على القاعدة المشهورة أنه إذا تزاحمت المصالح قدم أهمها، فهنا تتميم اليمين مصلحة، وامتثال أوامر الله في هذه الأشياء مصلحة أكبر من ذلك، فقدمت لذلك. ثم ختم الآية بهذين الاسمين الكريمين فقال: {والله سميع}؛ أي: لجميع الأصوات، {عليم}؛ بالمقاصد والنيات، ومنه سماعه لأقوال الحالفين وعلمه بمقاصدهم هل هي خير أم شرٌّ، وفي ضمن ذلك التحذير من مجازاته، وأن أعمالكم ونياتكم قد استقر علمها عنده. ثم قال تعالى:
AyatMeaning
[224] حلف اور قسم کا مقصد اس ہستی کی تعظیم ہے جس کی قسم کھائی جائے اور اس چیز کی تاکید مراد ہے جس پر قسم کھائی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قسموں کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر معاملے میں قسم کی حفاظت کی جائے مگر اس سے اس قسم کو اللہ نے مستثنیٰ کر دیا ہے جس میں کسی کے ساتھ احسان (نہ کرنے) کی قسم کھائی گئی ہو۔ یہ اس بات کو متضمن ہے کہ وہ قسم توڑ کر اس چیز کو اختیار کرے جو اسے زیادہ پسند ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس بات سے منع کیا ہے کہ وہ اپنی قسموں کو نشانہ، یعنی انھیں نیکی کرنے سے رکاوٹ بنا لیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ بھلائی کے کام سرانجام دیں، برائی سے بچیں اور لوگوں کے درمیان صلح کروائیں۔ (اور اس طرح قسم نہ کھائیں کہ میں فلاں کے ساتھ احسان نہیں کروں گا، فلاں کے ساتھ نہیں بولوں گا، وغیرہ)۔ پس جو کوئی کسی واجب کو ترک کرنے کی قسم کھاتا ہے اس پر قسم توڑنا واجب ہے اور اس قسم پر قائم رہنا حرام ہے اور جو کوئی کسی مستحب کو چھوڑنے کی قسم کھاتا ہے اس پر اس قسم کو توڑنا مستحب ہے اور جو کسی حرام امر کے ارتکاب کا حلف اٹھاتا ہے اس پر حلف توڑنا واجب ہے اور اگر وہ کسی مکروہ فعل کے ارتکاب پر قسم اٹھاتا ہے تو اس پر اس قسم کو توڑنا مستحب ہے۔ رہے مباح امور تو ان کے بارے میں اٹھائی ہوئی قسم کی حفاظت کرنا زیادہ مناسب ہے۔ اس آیت کریمہ سے اس مشہور فقہی اور قانونی قاعدے پر استدلال کیا جاتا ہے اِذَا تَزَاحَمَتِ الْمَصَالِحُ قُدِّمَ اَھَمُّھَا ’’جب مصالح میں باہم ٹکراؤ ہو تو اس کو مقدم رکھا جائے گا جو ان میں سب سے زیادہ اہم ہو گا‘‘ پس یہاں قسم کا پورا کرنا ایک مصلحت ہے اور ان اشیاء میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کرنا اس سے زیادہ بڑی مصلحت ہے اس لیے اس کو مقدم رکھا جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے ان دو اسمائے کریمہ کے ذکر کے ساتھ آیت کا اختتام کیا ہے ﴿وَاللّٰهُ سَمِیْعٌ﴾ ’’اللہ سننے والا‘‘ یعنی اللہ تمام آوازوں کو سننے والا ہے ﴿ عَلِیْمٌ ﴾ یعنی وہ مقاصد اور نیتوں کو خوب جانتا ہے۔ گویا وہ قسم اٹھانے والوں کی بات کو سنتا ہے اور ان کے مقاصد کو بھی جانتا ہےکہ آیا یہ قسم کسی نیک مقصد کے لیے اٹھائی گئی ہے یا برے مقصد کے لیے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کو بھی متضمن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچا جائے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ تمھارے اعمال اور تمھاری نیتوں کو جانتا ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[224
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List