Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
20
SuraName
تفسیر سورۂ طٰہٰ
SegmentID
926
SegmentHeader
AyatText
{97} فقال له موسى: اذهبْ؛ أي: تباعَدْ عنِّي واستأخِرْ منِّي. {فإنَّ لك في الحياة أن تقولَ لا مِساسَ}؛ أي: تعاقَبُ في الحياة عقوبةً، لا يدنو منك أحدٌ ولا يَمَسُّك أحدٌ، حتى إنَّ من أراد القرب منك؛ قلت له: لا تَمَسَّني ولا تَقْرَبْ مني؛ عقوبةً على ذلك؛ حيث مسَّ ما لم يمسَّه غيره وأجرى ما لم يجرِهِ أحدٌ. {وإنَّ لك موعداً لن تُخْلَفَهُ}: فتُجازى بعملك من خيرٍ وشرٍّ. {وانظُرْ إلى إلهك الذي ظَلْتَ عليه عاكفاً}؛ أي: العجل، {لَنُحَرِّقَنَّه ثم لَنَنْسِفَنَّه في اليمِّ نَسْفاً}: ففعل موسى ذلك؛ فلو كان إلهاً؛ لامتنع ممَّن يريده بأذى ويسعى له بالإتلاف. وكان قد أشْرِبَ العجلُ في قلوب بني إسرائيل، فأراد موسى عليه السلام إتلافَه وهم ينظُرون على وجهٍ لا تمكن إعادتُه؛ بالإحراق والسَّحْق وذَرْيِهِ في اليمِّ ونسفِهِ؛ ليزول ما في قلوبهم من حبِّه كما زال شخصه، ولأنَّ في إبقائه محنةً؛ لأن في النفوس أقوى داعٍ إلى الباطل.
AyatMeaning
[97] پس موسیٰ u نے سامری سے کہا: ﴿ فَاذْهَبْ ﴾ مجھ سے دور ہو جا ﴿ فَاِنَّ لَكَ فِی الْحَیٰؔوةِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ﴾ یعنی تجھے زندگی میں ایسی سزا دی جائے گی کہ کوئی شخص تیرے قریب آئے گا نہ تجھے چھوئے گا۔ اگر کوئی شخص تیرے پاس آنا چاہے گا تو خود ہی پکار کر اسے کہہ دے گا ’’مجھے مت چھونا، میرے قریب نہ آنا‘‘ یہ تمھارے اس فعل کی سزا ہو گی… کیونکہ سامری نے اس چیز کو چھوا جسے کسی دوسرے نے نہیں چھوا اس نے وہ کچھ جاری کیا جو کسی اور نے جاری نہیں کیا۔ ﴿ وَاِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّ٘نْ تُخْلَفَهٗ﴾ ’’اور تیرے لیے ایک وعدہ ہے جو ہرگز تجھ سے نہیں ٹلے گا۔‘‘ پس اس وقت تجھے تیرے اچھے برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ﴿ وَانْ٘ظُ٘رْ اِلٰۤى اِلٰهِكَ الَّذِیْ ظَلْتَ عَلَیْهِ عَاكِفًا﴾ ’’اور دیکھ تو اپنے اس معبود کی طرف جس کی تو تعظیم و عبادت کرتا ہے۔‘‘ اس سے مراد بچھڑا ہے ﴿لَنُحَرِّؔقَنَّهٗ۠ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهٗ فِی الْیَمِّ نَسْفًا ﴾ ’’ہم اسے جلا کر، اس کا ریزہ ریزہ اڑا دیں گے۔‘‘ اور موسیٰ u نے ایسا ہی کیا۔ اگر وہ بچھڑا معبود ہوتا تو وہ ایذا دینے والے اور تلف کرنے والے سے بچ سکتا تھا۔ بنی اسرائیل کے دلوں میں بچھڑے کی محبت رچ بس گئی تھی، اس لیے موسیٰ u نے بنی اسرائیل کے سامنے اس کو تلف کرنے کا ارادہ کیا تاکہ وہ اس کو دوبارہ نہ بنا سکیں … اس کو جلانے اور اس کو ریزہ ریزہ کر کے سمندر میں بکھیرنے سے حضرت موسیٰu کا مقصد یہ تھا کہ جس طرح بچھڑا جسمانی طور پر ختم کر دیا گیا ہے اسی طرح ان کے دلوں سے اس کی محبت بھی زائل ہو جائے، نیز اس کے باقی رکھنے میں نفوس کے لیے فتنے کا امکان تھا کیونکہ نفسوں کے اندر باطل کی طرف بڑا قوی داعیہ ہوتا ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[97]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List