Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
94
SegmentHeader
AyatText
{189} فقوله تعالى: {يسألونك عن الأهلة}؛ ـ جمع هلال ـ ما فائدتها وحكمتها أو عن ذاتها {قل هي مواقيت للناس}؛ أي: جعلها الله تعالى بلطفه ورحمته على هذا التدبير، يبدو الهلال ضعيفاً في أول الشهر، ثم يتزايد إلى نصفه، ثم يشرع في النقص إلى كماله، وهكذا ليعرف الناس بذلك مواقيت عباداتهم؛ من الصيام وأوقات الزكاة والكفارات وأوقات الحج، ولما كان الحج يقع في أشهر معلومات، ويستغرق أوقاتاً كثيرة قال: {والحج}؛ وكذلك تعرف بذلك أوقات الديون المؤجلات، ومدة الإجارات ومدة العدد والحمل، وغير ذلك مما هو من حاجات الخلق، فجعله تعالى حساباً يعرفه كل أحد من صغير وكبير وعالم وجاهل، فلو كان الحساب بالسنة الشمسية لم يعرفه إلا النادر من الناس. {وليس البر بأن تأتوا البيوت من ظهورها}؛ وهذا كما كان الأنصار وغيرهم من العرب إذا أحرموا لم يدخلوا البيوت من أبوابها؛ تعبداً بذلك وظنًّا أنه برٌّ، فأخبر تعالى أنه ليس من البرِّ ؛ لأن الله تعالى لم يشرعه لهم، وكل من تعبد بعبادة لم يشرعها الله ولا رسوله فهو متعبد ببدعة، وأمرهم أن يأتوا البيوت من أبوابها؛ لما فيه من السهولة عليهم التي هي قاعدة من قواعد الشرع. ويستفاد من إشارة الآية أنه ينبغي في كل أمر من الأمور أن يأتيه الإنسان من الطريق السهل القريب الذي قد جعل له موصلاً، فالآمر بالمعروف والناهي عن المنكر، ينبغي أن ينظر في حالة المأمور، ويستعمل معه الرفق والسياسة التي بها يحصل المقصود أو بعضه، والمتعلم والمعلم ينبغي أن يسلك أقرب طريق وأسهله يحصل به مقصوده، وهكذا كل من حاول أمراً من الأمور، وأتاه من أبوابه، وثابر عليه فلا بد أن يحصل له المقصود بعون الملك المعبود. {واتقوا الله}؛ هذا هو البرُّ الذي أمر الله به، وهو لزوم تقواه على الدوام بامتثال أوامره واجتناب نواهيه، فإنه سبب للفلاح الذي هو الفوز بالمطلوب والنجاة من المرهوب، فمن لم يتق الله تعالى لم يكن له سبيل إلى الفلاح، ومن اتقاه فاز بالفلاح والنجاح.
AyatMeaning
[189] ﴿ اَلْاَهِلَّةِ ﴾ (ھِلَال) کی جمع ہے یعنی وہ سوال کرتے ہیں کہ چاند کا کیا فائدہ اور اس میں کیا حکمت ہے یا چاند کیا چیز ہے؟ ﴿ قُ٘لْ هِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ ﴾ ’’کہہ دیجیے! یہ اوقات مقررہ ہیں لوگوں کے لیے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے اسے درج ذیل نظم و تدبیر پر تخلیق کیا ہے۔ مہینے کے آغاز میں چاند بہت باریک اور کمزور سا ظاہر ہوتا ہے۔ پھر مہینے کے نصف تک بڑھتا چلا جاتا ہے۔ پھر گھٹنا شروع ہو جاتا ہے اور مہینے کے پورا ہونے تک گھٹتا رہتا ہے۔ (اس طرح یہ سلسلہ مستقل جاری رہتا ہے) اس میں حکمت یہ ہے کہ لوگ اس ذریعے سے اپنی عبادات کے اوقات، مثلاً: روزوں، زکاۃ کے اوقات، کفارے اور حج کے اوقات پہچان لیں اور چونکہ حج متعین مہینوں میں ہوتا ہے اور بہت زیادہ وقت اس میں صرف ہوتا ہے، اس لیے ﴿وَالْ٘حَجِّ ﴾ فرما کر اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا، یعنی چاند کے ذریعے سے حج کے مہینوں کا بھی علم ہوتا ہے۔ اسی طرح چاند کے ذریعے سے مدت معینہ پر ادا کیے جانے والے قرض، اجارات، عدت طلاق و وفات اور حمل وغیرہ کی مدت اور اوقات معلوم کیے جاتے ہیں جو کہ مخلوق کی ضرورت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے چاند کو ایسا حساب بنایا کہ جس سے ہر چھوٹا بڑا اور عالم و جاہل سب معلوم کر لیتے ہیں۔ اگر یہ حساب تقویم شمسی کے ذریعے سے ہوتا تو چند لوگ ہی اس حساب کی معرفت حاصل کر سکتے۔ ﴿ وَلَ٘یْسَ الْـبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِهَا ﴾ ’’نیکی یہ نہیں کہ تم گھروں کو پچھواڑے سے آؤ‘‘ یہ انصار وغیرہ اور بعض دیگر عربوں کے اس طریقے کی طرف اشارہ ہے کہ جب وہ حج کے لیے احرام باندھ لیتے تھے تو اپنے گھروں میں دروازوں میں سے داخل نہیں ہوتے تھے (بلکہ پچھواڑے سے داخل ہوتے تھے) اور اسے وہ نیکی اور عبادت تصور کرتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ایسا کرنا نیکی نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے مشروع نہیں کیا اور ایسا شخص جو کسی ایسی عبادت کا التزام کرتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے مشروع قرار نہیں دیا، تو وہ بدعت کا ارتکاب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ دروازوں سے اپنے گھروں میں داخل ہوا کریں، کیونکہ اسی میں ان کے لیے سہولت ہے جو شریعت کے قواعد میں سے ایک قاعدہ ہے۔ اس آیت کریمہ کے اشارے سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ تمام معاملات میں مناسب یہی ہے کہ انسان آسان اور قریب ترین راستہ استعمال کرے جسے اس منزل تک پہنچنے کے لیے مقرر کیا گیا ہو۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دینے والے کو چاہیے کہ وہ مامور کے احوال کو مدنظر رکھے۔ نرمی اور ایسی حکمت عملی سے کام لے جس سے پورا مقصد یا اس سے کچھ حصہ حاصل ہو سکتا ہو۔ متعلم اور معلم دونوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے قریب ترین اور سہل ترین راستہ استعمال کریں۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو کسی کام کا ارادہ کرتا ہے اور وہ اس کے لیے صحیح راستے سے داخل ہوتا ہے اور ہمیشہ اسی اصول پر عمل کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ضرور اپنے مقصد کو پالے گا۔ ﴿ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ﴾ ’’اور اللہ سے ڈرتے رہو‘‘ اور یہی حقیقی نیکی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور وہ ہے دائمی طور پر تقویٰ کا التزام، یعنی اس کے اوامر کے سامنے سرافگندہ ہونا اور اس کی منہیات سے اجتناب کرنا۔ تقویٰ فلاح کا سبب ہے جس کے ذریعے سے مطلوب (جنت) کے حصول میں کامرانی اور ڈرائے گئے امر (عذاب) سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ پس جو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا اس کے لیے فوز و فلاح کا کوئی راستہ نہیں اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہی فوز و فلاح اور کامیابی و کامرانی سے شاد کام ہو گا۔
Vocabulary
AyatSummary
[189
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List