Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
18
SuraName
تفسیر سورۂ کہف
SegmentID
845
SegmentHeader
AyatText
{6} ولما كان النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - حريصاً على هداية الخلق، ساعياً في ذلك أعظم السعي، فكان - صلى الله عليه وسلم - يفرح ويسرُّ بهداية المهتدين، ويحزن ويأسفُ على المكذِّبين الضالِّين؛ شفقةً منه - صلى الله عليه وسلم - عليهم، ورحمةً بهم؛ أرشده الله أن لا يَشْغَلَ نفسه بالأسف على هؤلاء الذين لا يؤمنون بهذا القرآن؛ كما قال في [الآية] الأخرى: {لعلَّك باخعٌ نفسَكَ أن لا يكونوا مؤمنين}، وقال: {فلا تذهب نفسك عليهم حسراتٍ}، وهنا قال: {فلعلَّك باخعٌ نفسَك}؛ أي: مهلكها غمًّا وأسفاً عليهم، وذلك أنَّ أجرك قد وَجَبَ على الله، وهؤلاء لو عَلِمَ اللهُ فيهم خيراً لهداهم، ولكنَّه علم أنهم لا يَصْلُحون إلا للنار؛ فلذلك خَذَلَهم فلم يهتدوا؛ فإشغالك نفسك غمًّا وأسفاً عليهم ليس فيه فائدةٌ لك. وفي هذه الآية ونحوها عبرةٌ؛ فإنَّ المأمور بدعاء الخلق إلى الله عليه التبليغ والسعي بكلِّ سبب يوصِلُ إلى الهداية، وسدِّ طرق الضَّلال والغواية، بغاية ما يمكِنُه، مع التوكُّل على الله في ذلك؛ فإن اهتدوا؛ فبها ونعمت، وإلاَّ؛ فلا يحزنْ ولا يأسفْ؛ فإنَّ ذلك مضعفٌ للنفس، هادمٌ للقُوى، ليس فيه فائدةٌ، بل يمضي على فعلِهِ الذي كُلِّف به وتوجَّه إليه، وما عدا ذلك؛ فهو خارجٌ عن قدرته. وإذا كان النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - يقولُ الله له: {إنَّك لا تَهْدي مَنْ أحببتَ}، وموسى عليه السلام يقول: {ربِّ إني لا أملِكُ إلاَّ نَفْسي وأخي ... } الآية؛ فمن عداهم من باب أولى وأحرى؛ قال تعالى: {فذكِّرْ إنَّما أنتَ مُذَكِّرٌ لست عليهم بمصيطرٍ}.
AyatMeaning
[6] چونکہ نبی اکرمe خلائق کی ہدایت کی بے انتہا خواہش رکھتے تھے اور ان کی ہدایت کے لیے بے حد کوشاں رہتے تھے۔ آپ دین اسلام اختیار کرنے والے کے ہدایت قبول کرنے پر بہت خوش ہوتے تھے۔ تکذیب کرنے والے گمراہ لوگوں پر رحم و شفقت کی بنا پر متاسف اور غم زدہ ہوتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا کہ آپ ان لوگوں کے رویے پر افسوس اور تاسف میں مشغول نہ ہوں جو اس قرآن پر ایمان نہیں لاتے۔ جیسا کہ ایک دوسری آیت میں فرمایا ہے: ﴿ لَعَلَّكَ بَ٘اخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ﴾ (الشعراء : 26؍3) ’’شاید آپ اسی غم میں اپنے آپ کو ہلکان کر لیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍ﴾ (فاطر : 35؍8) ’’پس ان لوگوں کے غم میں آپ کی جان نہ گھلے۔‘‘ یہاں فرمایا: ﴿فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ ﴾ ’’کیا آپ اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں گے۔‘‘ یعنی ان کے غم میں ، حالانکہ آپ کا اجروثواب تو اللہ تعالیٰ پر واجب ہو چکا ہے اگر ان لوگوں کی کوئی بھلائی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتی تو وہ ضرور ان کو ہدایت سے نواز دیتا۔ مگر اسے معلوم ہے کہ یہ لوگ آگ کے سوا، کسی چیز کے قابل نہیں ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور وہ راہ راست نہ پا سکے۔ آپ کا ان کے غم اور تاسف میں اپنے آپ کو مشغول کرنا آپ کو کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ اس آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات کریمہ میں عبرت ہے۔ مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے پر مامور شخص پر تبلیغ دعوت، ان تمام اسباب کے حصول میں کوشاں رہنا جو ہدایت کی منزل پر پہنچاتے ہیں ، امکان بھر گمراہی کے راستوں کو مسدود کرنا اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ پر توکل فرض ہے۔ پس اگر وہ راہ راست پر گامزن ہو جائیں تو بہتر ہے ورنہ اس کو ان کے افسوس میں گھلنا نہیں چاہیے کیونکہ یہ چیز نفس کو کمزور اور قویٰ کو منہدم کر دیتی ہے۔ اس میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ ایسا کرنے سے وہ مقصد فوت ہو جائے گا جس پر اسے مامور کیا گیا ہے۔ تبلیغ دعوت اور کوشش کے سوا ہر چیز اس کے اختیار سے باہر ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نبی اکرمe سے فرماتا ہے: ﴿ اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ ﴾ (القصص : 28؍56) ’’آپ اسے ہدایت نہیں دے سکتے جسے آپ چاہتے ہیں ۔‘‘ حضرت موسیٰu نے اعتراف کیا: ﴿ رَبِّ اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِیْ وَاَخِیْ ﴾ (المائدۃ : 5؍25) ’’اے میرے رب! میں اپنے آپ پر اور اپنے بھائی کے سوا کسی پر کوئی اختیار نہیں رکھتا۔‘‘ تو انبیائے کرام کے علاوہ دیگر لوگ بدرجہ اولیٰ کسی کو ہدایت دینے کا اختیار نہیں رکھتے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ فَذَكِّ٘رْ١ؕ۫ اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُذَكِّ٘رٌؕ۰۰لَسْتَ عَلَیْهِمْ بِمُصَۜیْطِرٍ ﴾ (الغاشیۃ : 88؍21، 22) ’’آپ نصیحت کیجیے۔ آپ تو صرف نصیحت کرنے والے ہیں ، آپ ان پر کوئی داروغہ مقرر نہیں ہوئے۔‘‘
Vocabulary
AyatSummary
[6]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List