Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 78
- SegmentHeader
- AyatText
- {158} يخبر تعالى: {إن الصفا والمروة}؛ وهما معروفان {من شعائر الله}؛ أي: أعلام دينه الظاهرة التي تعبَّد الله بها عباده، وإذا كانا من شعائر الله فقد أمر الله بتعظيم شعائره فقال: {ومن يعظم شعائر الله فإنها من تقوى القلوب}؛ فدل مجموع النصين أنهما من شعائر الله، وأن تعظيم شعائره من تقوى القلوب، والتقوى واجبة على كل مكلف، وذلك يدل على أن السعي بهما فرض لازم للحج والعمرة كما عليه الجمهور، ودلت عليه الأحاديث النبوية، وفعله النبي - صلى الله عليه وسلم -، وقال: «خذوا عني مناسككم». {فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما}؛ هذا دفع لوهم من توهم وتحرج من المسلمين عن الطواف بينهما لكونهما في الجاهلية تعبد عندهما الأصنام، فنفى تعالى الجناح لدفع هذا الوهم لا لأنه غير لازم، ودل تقييد نفي الجناح فيمن تطوف بهما في الحج والعمرة أنه لا يتطوع بالسعي مفرداً إلا مع انضمامه لحج أو عمرة، بخلاف الطواف بالبيت فإنه يشرع مع العمرة والحج وهو عبادة مفردة. فأما السعي والوقوف بعرفة ومزدلفة ورمي الجمار فإنها تتبع النسك، فلو فعلت غير تابعة للنسك كانت بدعة، لأن البدعة نوعان: نوع يتعبد لله بعبادة لم يشرعها أصلاً، ونوع يتعبد له بعبادة قد شرعها على صفة مخصوصة فتفعل على غير تلك الصفة وهذا منه. وقوله: {ومن تطوع}؛ أي: فعل طاعة مخلصاً بها لله تعالى {خيراً}؛ من حج وعمرة وطواف وصلاة وصوم وغير ذلك، فهو خير له؛ فدل هذا على أنه كلما ازداد العبد من طاعة الله ازداد خيره وكماله ودرجته عند الله لزيادة إيمانه، ودل تقييد التطوع بالخير أن من تطوع بالبدع التي لم يشرعها الله ولا رسوله أنه لا يحصل له إلا العناء، وليس بخير له، بل قد يكون شرًّا له إن كان متعمداً عالماً لعدم مشروعية العمل. {فإن الله شاكر عليم}؛ الشاكر والشكور من أسماء الله تعالى الذي يقبل من عباده اليسير من العمل، ويجازيهم عليه العظيم من الأجر الذي إذا قام عبده بأوامره وامتثل طاعته أعانه على ذلك وأثنى عليه ومدحه وجازاه في قلبه نوراً وإيماناً وسعة وفي بدنه قوة ونشاطاً وفي جميع أحواله زيادة بركة ونماء وفي أعماله زيادة توفيق، ثم بعد ذلك يقدم على الثواب الآجل عند ربه كاملاً موفراً لم تنقصه هذه الأمور، ومن شكره لعبده أن من ترك شيئاً لله أعاضه الله خيراً منه، ومن تقرب منه شبراً تقرب منه ذراعاً، ومن تقرب منه ذراعاً تقرب منه باعاً، ومن أتاه يمشي أتاه هرولة، ومن عامله ربح عليه أضعافاً مضاعفة، ومع أنه شاكر فهو عليم بمن يستحق الثواب الكامل بحسب نيته وإيمانه وتقواه ممن ليس كذلك، عليم بأعمال العباد فلا يضيعها بل يجدونها أوفر ما كانت على حسب نياتهم التي اطلع عليها العليم الحكيم.
- AyatMeaning
- [158] اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے ﴿ اِنَّ الصَّفَا وَالْ٘مَرْوَةَ ﴾ ’’بے شک صفا اور مروہ‘‘ یعنی صفا اورمروہ دو معروف پہاڑیاں ﴿ مِنْ شَعَآىِٕرِ اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔‘‘ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے دین کی ظاہری علامتیں ہیں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی عبدیت کو جانچتا ہے، اور جب صفا اور مروہ دونوں اللہ تعالیٰ کے شعائر میں شمار ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے شعائر کی تعظیم کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ ﴾ (الحج : 22؍32) ’’اور جو کوئی اللہ کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے تو یہ فعل دلوں کا تقویٰ ہے۔‘‘ دونوں نصوص مجموعی طور پر اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کے شعائر ہیں اور اللہ تعالیٰ کے شعائر کی تعظیم کرنا دلوں کا تقویٰ ہے اور تقویٰ ہر مکلف پر فرض ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صفا و مروہ کی سعی (دونوں پہاڑیوں کے درمیان دوڑنا) فرض اور حج و عمرہ کا لازمی رکن ہے۔ جیسا کہ جمہور فقہاء کا مسلک ہے اور رسول اللہeکی احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔ آپ نے خود بھی یہ کام کیا اور فرمایا :’خُذُوا عَنِّی مَنَاسِکَکُمْ‘ ’’اپنے مناسک حج مجھ سے اخذ کرو۔‘‘(صحیح مسلم، الحج، باب استحباب رمي جمرۃ العقبۃ ……الخ، حديث:1297، و سنن البيھقی الکبری:5؍125) ﴿ فَ٘مَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِاعْتَمَرَ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا ﴾ ’’پس جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان کا طواف کرے‘‘ چونکہ جاہلیت کے زمانے میں صفا اور مروہ پر بت نصب تھے جن کی پوجا کی جاتی تھی اس لیے وہم دور کرنے اور مسلمانوں کے رفع حرج کے لیے فرمایا کہ ان کے طواف میں کوئی گناہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس وہم کو رفع کرنے کے لیے گناہ کی نفی کی ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ان کے مابین سعی لازم نہیں۔ نیز حج اور عمرہ میں ان کی سعی میں بطور خاص گناہ کی نفی، اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ حج یا عمرہ کے بغیر صرف ان کی سعی کرنا جائز نہیں۔ بخلاف طواف بیت اللہ کے۔ کیونکہ وہ حج اور عمرہ کے ساتھ بھی مشروع ہے اور طواف ایک مستقل عبادت بھی ہے (یعنی حج اور عمرے کے بغیر بھی طواف جائز ہے) لیکن صفا اور مروہ کے مابین سعی، عرفہ اور مزدلفہ میں وقوف اور رمی جمار یہ تمام افعال دیگر مناسک حج کے ساتھ کیے جاتے ہیں اگر یہ افعال دیگر مناسک حج کے ساتھ نہ کیے جائیں بلکہ اکیلے کیے جائیں تو یہ بدعت ہوں گے، اس لیے کہ بدعت کی دو اقسام ہیں۔ (۱) اللہ تعالیٰ کی کسی ایسے طریقے سے عبادت کرنا جو اصل میں اس نے مشروع نہیں کی۔ (۲) بدعت کی دوسری قسم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک عبادت ایک خاص طریقے پر مشروع کی ہے اور اس کو کسی مختلف طریقے سے کیا جائے۔ مذکورہ بدعات اسی دوسری قسم سے ہوں گی۔ ﴿ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا ﴾ ’’اور جو کوئی نیک کام کرے۔‘‘ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ کے لیے خلوص کے ساتھ نیکی کا کام کرتا ہے، جیسے حج، عمرہ، طواف، نماز اور روزہ وغیرہ نیکی کے کام تو یہ اس کے لیے بہتر ہے۔ اس میں اس امر کی دلیل ہے کہ بندۂ مومن جتنی زیادہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے کمال، اس کی بھلائیوں اور اس کے درجات میں، اس کے ایمان میں اضافے کی وجہ سے اضافہ ہوتا ہے۔ اور نیکیوں میں بھلائی کی قید اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو کوئی نیکی کے طور پر بدعات پر عمل کرتا ہے جن کو اللہ اور اس کے رسول نے مشروع نہیں کیا، اسے محض مشقت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ یہ اس کے لیے خیر نہیں۔ بلکہ اگر بدعات کا مرتکب ان کی عدم مشروعیت کا علم رکھتے ہوئے جان بوجھ کر اس پر عمل کرتا ہے تو بسا اوقات یہ اس کے لیے شر بن جاتی ہیں۔ ﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِیْمٌ ﴾ (اَلشَّاکِرُ) اور (اَلشَّکُوْرُ) اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ اَلشَّاکِرُ اور اَلشَّکُوْرُ اس ہستی کو کہتے ہیں جو بندوں کے تھوڑے عمل کو بھی قبول کر لیتی ہے اور اس پر بہت بڑا اجر عطا کرتی ہے۔ جب بندہ اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لاتا ہے اور اس کی اطاعت کرتا ہے تو وہ اپنے بندے کی مدد کرتا ہے اس کی مدح و ثنا کرتا ہے اور اسے یہ بدلہ دیتا ہے کہ وہ اس کے قلب کو نور اور ایمان سے لبریز کر دیتا ہے۔ اور اس کے بدن میں قوت و نشاط، اس کے احوال میں برکت اور نشوونما اور اس کے اعمال میں مزید توفیق عطا کرتا ہے۔ پھر یہ بندۂ مومن آخرت میں جب رب کے پاس حاضر ہو گا تو وہاں اسے وافر اور کامل ثواب ملے گا، مذکورہ دنیاوی جزائیں اس کے اخروی ثواب میں کمی نہیں کریں گی۔ اور اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے کے لیے قدر دانی یہ ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے عوض اسے اس سے بہتر چیز عطا کرتا ہے۔ اور جو اللہ تعالیٰ کے ایک بالشت قریب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہے، جو ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر اس کے قریب ہوتا ہے، جو چل کر اللہ تعالیٰ کی طرف آتا ہے اللہ تعالیٰ بھاگ کر اس کی طرف بڑھتا ہے، جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کئی گنا منافع سے اسے نوازتا ہے۔ اور باوجود اس بات کے کہ وہ بندوں کے اعمال کا قدر دان ہے، وہ یہ بات بھی خوب جانتا ہے کہ کون اپنی نیت، ایمان اور تقویٰ کے مطابق کامل ثواب کا مستحق ہے اور کون اس ثواب کا حق دار نہیں۔ وہ بندوں کے اعمال کا علم رکھتا ہے، پس وہ ان کے اعمال ضائع نہیں کرے گا۔ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنی نیتوں کے مطابق، جن کو اللہ علیم و حکیم جانتا ہے، ان عملوں کا ثواب پائیں گے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [158
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF