Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
11
SuraName
تفسیر سورہ ھود
SegmentID
645
SegmentHeader
AyatText
{35} {أم يقولونَ افتراه}: هذا الضمير محتملٌ أن يعود إلى نوح كما كان السياق في قصتِهِ مع قومه، وأنَّ المعنى: إنَّ قومه يقولون: افترى على الله كذباً، وكَذَبَ بالوحي الذي يزعم أنَّه من الله، وأنَّ الله أمره أن يقول: {قلْ إنِ افتريتُه فعليَّ إجرامي وأنا بريء مما تُجْرِمون}؛ أي: كلٌّ عليه وزره، {ولا تَزِرُ وازرةٌ وِزْرَ أخرى}. ويُحتمل أن يكون عائداً إلى النبيِّ محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، وتكون هذه الآية معترضةً في أثناء قصة نوح وقومه؛ لأنَّها من الأمور التي لا يعلمها إلا الأنبياء، فلما شرع الله في قصِّها على رسوله، وكانت من جملة الآيات الدالَّة على صدقه ورسالته؛ ذكر تكذيب قومه له، مع البيان التامِّ، فقال: {أم يقولونَ افتراه}؛ أي: هذا القرآن اختلقه محمدٌ من تلقاء نفسه؛ أي: فهذا من أعجب الأقوال وأبطلها؛ فإنَّهم يعلمون أنَّه لم يقرأ ولم يكتبْ ولم يرحلْ عنهم لدراسة على أهل الكتب، فجاء بهذا الكتاب الذي تحدَّاهم أن يأتوا بسورةٍ من مثله؛ فإذا زعموا مع هذا أنَّه افتراه؛ عُلِمَ أنَّهم معاندون، ولم يبقَ فائدةٌ في حجاجهم، بل اللائق في هذه الحال الإعراضُ عنهم، ولهذا قال: {قلْ إنِ افتريتُهُ فعليَّ إجرامي}؛ أي: ذنبي وكذبي. {وأنا بريءٌ مما تجرِمون}؛ أي: فلم تستلِجُّون في تكذيبي؟
AyatMeaning
[35] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ﴾ ’’کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے‘‘ اس ضمیر میں اس امر کا احتمال ہے کہ وہ نوحu کی طرف لوٹتی ہو جیسا کہ پورا سیاق ان کی قوم کے ساتھ ان کے معاملے کے بارے میں ہے اور اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ نوحu کی قوم کے لوگ کہتے تھے کہ نوحu نے اللہ تعالیٰ پر افتراء پردازی کی ہے اور جھوٹ بولا ہے کہ اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی ہے اور اللہ نے اسے حکم دیا ہے کہ وہ یہ کہہ دے۔ ﴿ قُ٘لْ اِنِ افْتَرَیْتُهٗ فَ٘عَلَیَّ اِجْرَامِیْ وَاَنَا بَرِیْٓءٌ مِّؔمَّؔا تُجْرِمُوْنَ﴾ ’’کہہ دیجیے، اگر میں نے اسے گھڑا ہو تو مجھ پر ہے میرا گناہ اور میں تمھارے گناہوں سے بری ہوں ‘‘ یعنی ہر شخص کا بوجھ خود اسی پر ہے ﴿ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ﴾ (الانعام: 6؍164) ’’کوئی شخص کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ اور اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر کا مرجع نبی اکرمe ہوں اس صورت میں یہ آیت کریمہ، حضرت نوحu اور ان کی قوم کے قصہ کے اثنا میں ، جملہ معترضہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا تعلق ایسے امور سے ہے جنھیں انبیاء کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولe کے سامنے حضرت نوحu کا قصہ بیان کرنا شروع کیا اور یہ قصہ ان نشانیوں میں سے تھا جو آپe کی صداقت اور رسالت پر دلالت کرتی ہیں ۔ تب اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی تکذیب کا ذکر فرمایا اور اس کے ساتھ ساتھ پوری طرح کھول کھول کر آیات بیان فرمائیں چنانچہ فرمایا: ﴿ اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ ﴾ ’’کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے خود گھڑلیا ہے۔‘‘ یعنی قرآن کو محمد (e) نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے۔ یہ انتہائی عجیب اور باطل ترین قول ہے کیونکہ انھیں علم ہے کہ آپe لکھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں ، اہل کتاب کے علوم کی دراست کے لیے آپ نے کہیں سفر بھی نہیں کیا، بایں ہمہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ کتاب پیش کی اور جس کے بارے میں کفار کو مقابلے کی دعوت دی کہ اس جیسی ایک سورت ہی بنا لائیں ۔ اس کے باوجود اگر وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ افترا اور بہتان ہے تو معلوم ہوا کہ وہ درحقیقت حق سے عناد رکھتے ہیں ، لہٰذا ان کے ساتھ بحث کرنے اور دلیل دینے کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہا بلکہ ان حالات میں مناسب یہی ہے کہ آپ ان سے کنارہ کشی کریں ۔ اس لیے فرمایا: ﴿ قُ٘لْ اِنِ افْتَرَیْتُهٗ فَ٘عَلَیَّ اِجْرَامِیْ ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ اگر میں نے اسے گھڑا ہو تو مجھ پر ہے اس کا گناہ۔‘‘ یعنی میرا گناہ اور میرا جھوٹ میرے ذمہ ہے ﴿ وَاَنَا بَرِیْٓءٌ مِّؔمَّؔا تُجْرِمُوْنَ ﴾ ’’اور جو گناہ تم کرتے ہو اس سے میں بری ہوں ۔‘‘ پھر تم مجھے جھٹلانے پر کیوں اصرار کر رہے ہو۔
Vocabulary
AyatSummary
[35]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List