Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 6
- SuraName
- تفسیر سورۂ انعام
- SegmentID
- 435
- SegmentHeader
- AyatText
- {141} لما ذكر تعالى تصرُّفَ المشركين في كثير مما أحلَّه الله لهم من الحروث والأنعام؛ ذكر تبارك وتعالى نعمتَه عليهم بذلك ووظيفَتَهم اللازمة عليهم في الحروثِ والأنعام، فقال: {وهو الذي أنشأ جناتٍ}؛ أي: بساتين فيها أنواع الأشجار المتنوعة والنباتات المختلفة، {معروشاتٍ وغير معروشاتٍ}؛ أي: بعض تلك الجنات مجعولٌ لها عريشٌ تنتشر عليه الأشجار ويعاونها في النهوض عن الأرض، وبعضها خالٍ من العروش تنبُتُ على ساقٍ أو تنفرش في الأرض. وفي هذا تنبيهٌ على كَثرة منافعها وخيراتها، وأنه تعالى علَّم العباد كيف يعرشونها وينمونها. {و}: أنشأ تعالى {النخل والزرع مختلفاً أُكُلُه}؛ أي: كله في محل واحد، ويشرب من ماء واحد، ويفضل الله بعضه على بعض في الأكل، وخص تعالى النخل والزرع على اختلاف أنواعه لكثرة منافعها ولكونها هي القوتُ لأكثر الخلق. {و} أنشأ تعالى {الزيتونَ والرُّمانَ متشابهاً}: في شجره، {وغير متشابهٍ}: في ثمره وطعمه، كأنه قيل: لأي شيء أنشأ الله هذه الجنات؟ وما عطف عليها؟ فأخبر أنه أنشأها لمنافع العباد، فقال: {كلوا من ثمرِهِ}؛ أي: النخل والزرع، {إذا أثمر وآتوا حَقَّه يومَ حصادِهِ}؛ أي: أعطوا حقَّ الزرع، وهو الزكاة ذات الأنصباء المقدَّرة في الشرع؛ أمرهم أن يعطوها يوم حصادها، وذلك لأنَّ حصادَ الزرع بمنزلة حَوَلان الحول؛ لأنه الوقت الذي تتشوَّف إليه نفوس الفقراء، ويسهُلُ حينئذٍ إخراجُه على أهل الزرع، ويكون الأمر فيها ظاهراً لمن أخرجها حتى يتميَّز المخرِج ممَّن لا يخرج. وقوله: {ولا تسرفوا}؛ يعمُّ النهي عن الإسراف في الأكل، وهو مجاوزة الحدِّ والعادة. وأن يأكلَ صاحبُ الزرعِ أكلاً يضرُّ بالزكاة، والإسراف في إخراج حقِّ الزرع بحيث يخرِجُ فوقَ الواجبِ عليه أو يضرُّ نفسه أو عائلتَه أو غرماءَه؛ فكلُّ هذا من الإسراف الذي نهى الله عنه الذي لا يحبُّه الله بل يبغِضُه، ويمقتُ عليه. وفي هذه الآية دليلٌ على وجوب الزكاة في الثمار، وأنه لا حَوْلَ لها، بل حولُها حصادُها في الزروع وجذاذ النخيل، وأنه لا تتكرَّر فيها الزكاة لو مكثت عند العبد أحوالاً كثيرةً إذا كانت لغير التجارة؛ لأنَّ الله لم يأمر بالإخراج منه إلاَّ وقتَ حصادِهِ، وأنَّه لو أصابها آفةٌ قبل ذلك بغير تفريط من صاحب الزرع والثمر؛ أنه لا يضمنها، وأنه يجوز الأكل من النخل والزرع قبل إخراج الزكاة منه، وأنه لا يُحْسَبُ ذلك من الزكاة، بل يزكِّي المال الذي يبقى بعده، وقد كان النبي - صلى الله عليه وسلم - يَبْعَثُ خارصاً يخرُصُ للناس ثمارَهم ويأمرُهُ أن يَدَعَ لأهلها الثلث أو الربع بحسب ما يعتريها من الأكل وغيره من أهلها وغيرهم.
- AyatMeaning
- [141] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کھیتیوں اور مویشیوں میں مشرکین کے تصرف کا ذکر فرمایا جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے حلال ٹھہرایا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی نعمت کا تذکرہ فرمایا اور کھیتیوں اور مویشیوں کے بارے میں ان کے لازمی وظیفہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَهُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ ﴾ ’’وہی ہے جس نے باغ پیدا کیے‘‘ جس میں مختلف انواع کے درخت اور نباتات ہیں ۔ ﴿ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ ﴾ ’’جو ٹٹیوں (چھتریوں ) پر چڑھائے جاتے ہیں اور جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے جاتے‘‘ یعنی ان میں سے بعض باغات کے لیے چھتریاں بنائی جاتی ہیں اور ان کو ان چھتریوں پر چڑھایا جاتا ہے اور یہ چھتریاں انھیں اوپر اٹھنے میں مدد دیتی ہیں ۔ اور بعض درختوں کے لیے چھتریاں نہیں بنائی جاتیں بلکہ وہ اپنے تنے پر کھڑے ہوتے ہیں یا زمین پر بچھ جاتے ہیں ۔ اس آیت کریمہ میں ان کے کثرت منفعت اور ان کے فوائد کی طرف اشارہ ہے۔ نیز اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو سکھایا کہ پودوں کو کیسے چھتریوں پر چڑھانا اور کیسے ان کی پرورش کرنا ہے۔ ﴿ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ ﴾ ’’(اور پیدا کیے) کھجور کے درخت اور کھیتی کہ مختلف ہیں ان کے پھل‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک ہی جگہ پر کھجور اور کھیتیاں پیدا کیں جو ایک ہی پانی سے سیراب ہوتی ہیں مگر کھانے اور ذائقے کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر کھجور اور کھیتیوں کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ مختلف انواع و اقسام کی بنا پر بہت سے فوائد کی حامل ہیں نیز یہ اکثر مخلوق کے لیے خوراک کا کام دیتی ہیں ۔ ﴿وَالزَّیْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا﴾ ’’اور زیتون اور انار جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے زیتون اور انار کو پیدا کیا جس کے درخت ایک دوسرے سے مشابہ ہیں ﴿ وَّغَیْرَ مُتَشَابِهٍ ﴾ ’’اور جدا جدا بھی‘‘ جو اپنے پھل اور ذائقے میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ گویا کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان باغات کو کس مقصد کے لیے پیدا کیا اور کس پر یہ نوازش کی؟ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی منفعت کے لیے یہ باغات پیدا کیے، اس لیے فرمایا: ﴿ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖۤ ﴾ ’’ان کے پھل کھاؤ۔‘‘ یعنی کھجور اور کھیتیوں کا پھل کھاؤ ﴿ اِذَاۤ اَثْ٘مَرَ﴾ ’’جب وہ پھل لائیں ‘‘ ﴿ وَاٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ ﴾ ’’اور جس دن (پھل توڑو) اور کھیتی کاٹو تو اللہ کا حق اس میں سے ادا کرو۔‘‘ یعنی فصل کی برداشت کے روز کھیتی کا حق ادا کرو۔ اس سے کھیتی کی زکاۃ (یعنی عشر) مراد ہے جس کا نصاب شریعت میں مقرر ہے۔ ان کو حکم دیا کہ زکاۃ فصل کی برداشت کے وقت ادا کریں کیونکہ برداشت کا دن، ایک سال گزرنے کے قائم مقام ہے۔ نیز یہ وہ وقت ہے جب فقراء کے دلوں میں زکاۃ کے حصول کی امید بندھ جاتی ہے۔ اور اس وقت کاشت کاروں کے لیے اپنی زرعی جنس میں سے زکاۃ نکالنا آسان ہوتا ہے۔ اور جو زکاۃ نکالتا ہے اس کے لیے یہ معاملہ ظاہر ہو جاتا ہے۔ اور زکاۃ نکالنے والے اور زکاۃ نہ نکالنے والے کے درمیان امتیاز واقع ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَلَا تُ٘سْرِفُوْا ﴾ ’’اور بے جا خرچ نہ کرو‘‘ یہ ممانعت کھانے میں اسراف کے لیے عام ہے یعنی عادت اور حدود سے تجاوز کر کے کھانا۔ یہ اسراف اس بات کو بھی شامل ہے کہ کھیتی کا مالک اس طرح کھائے جس سے زکاۃ کو نقصان پہنچے اور کھیتی کا حق نکالنے میں اسراف یہ ہے کہ واجب سے بڑھ کر زکاۃ نکالے یا اپنے آپ کو یا اپنے خاندان یا اپنے قرض خواہوں کو نقصان پہنچائے۔ یہ تمام چیزیں اسراف کے زمرے میں آتی ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں بلکہ سخت ناپسند ہے اور وہ اسراف پر سخت ناراض ہوتا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ پھلوں میں بھی زکاۃ فرض ہے اور ان میں زکاۃ کی ادائیگی ایک سال گزرنے کی شرط سے مشروط نہیں ہے۔ غلے کی زکاۃ فصل کٹنے اور کھجوروں کی زکاۃ پھل چنے جانے پر واجب ہو جاتی ہے، پھر زرعی اجناس زکاۃ کی ادائیگی کے بعد کئی سال تک بھی بندے کے پاس پڑی رہیں تو ان میں زکاۃ فرض نہیں بشرطیکہ وہ تجارت کی غرض سے نہ رکھی گئی ہوں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صرف فصل کی برداشت کے وقت زکاۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ نیز اگر فصل برداشت کرنے سے قبل، صاحب زراعت کی کوتاہی کے بغیر، باغ یا کھیتی پر کوئی آفت آ جائے تو وہ اس کا ضامن نہیں ہو گا اور زکاۃ نکالنے سے پہلے اگر کھیتی یا کھجور کے پھل میں سے کچھ کھا لیا جائے تو اسے زکاۃ کے حساب میں شامل نہیں کیا جائے گا بلکہ جو باقی بچے گا اسی کے حساب سے زکاۃ نکالی جائے گی۔ رسول اللہe پھل کا اندازہ لگانے کا ماہر روانہ فرمایا کرتے تھے جو زکاۃ ادا کرنے والے لوگوں کی کھیتیوں اور کھجوروں کے پھل کا اندازہ لگاتے تھے آپe انھیں حکم دیتے کہ اندازہ لگانے کے بعد وہ ان کے اور دیگر لوگوں کے کھانے کے لیے ایک تہائی یا ایک چوتھائی چھوڑ دیا کریں ۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [141
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF