Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
26
SegmentHeader
AyatText
{61} أي: واذكروا {إذ قلتم} لموسى على وجه التملل لنعم الله، والاحتقار لها {لن نصبر على طعام واحد}؛ أي: جنس من الطعام وإن كان كما تقدم أنواعاً لكنها لا تتغير {فادع لنا ربك يخرج لنا مما تنبت الأرض من بقلها}؛ أي: نباتها الذي ليس بشجر يقوم على ساقه {وقثائها}؛ وهو الخيار {وفومها}؛ أي: ثومها والعدس والبصل معروف، قال لهم موسى: {أتستبدلون الذي هو أدنى}؛ وهو الأطعمة المذكورة {بالذي هو خير}؛ وهو المن والسلوى، فهذا غير لائق بكم، فإن هذه الأطعمة التي طلبتم، أي مِصْرٍ هبطتموه وجدتموها، وأما طعامكم الذي منَّ الله به عليكم فهو خير الأطعمة وأشرفها فكيف تطلبون به بدلاً؟ ولما كان الذي جرى منهم فيه أكبر دليل على قلة صبرهم، واحتقارهم لأوامر الله ونعمه جازاهم من جنس عملهم فقال: {وضربت عليهم الذلة}؛ التي تُشاهدَ على ظاهر أبدانهم {والمسكنة}؛ بقلوبهم فلم تكن أنفسهم عزيزة، ولا لهم همم عالية بل أنفسهم أنفس مهينة، وهممهم أردأ الهمم {وباؤوا بغضب من الله}؛ أي: لم تكن غنيمتهم التي رجعوا بها، وفازوا إلا أن رجعوا بسخطه عليهم؛ فبئس الغنيمة غنيمتهم، وبئس الحالة حالتهم {ذلك}؛ الذي استحقوا به غضبه {بأنهم كانوا يكفرون بآيات الله}؛ الدالات على الحق الموضحة لهم، فلما كفروا بها عاقبهم بغضبه عليهم وبما كانوا {يقتلون النبيين بغير الحق}؛ وقوله: {بغير الحق} زيادة شناعة، وإلا فمن المعلوم أن قتل النبيين لا يكون بحق، لكن لئلا يظن جهلهم وعدم علمهم {ذلك بما عصوا}؛ بأن ارتكبوا معاصي الله {وكانوا يعتدون}؛ على عباد الله؛ فإن المعاصي يجر بعضها بعضاً، فالغفلة ينشأ عنها الذنب الصغير، ثم ينشأ عنه الذنب الكبير، ثم ينشأ عنها أنواع البدع والكفر وغير ذلك، فنسأل الله العافية من كل بلاء. واعلم أن الخطاب في هذه الآيات لأمة بني إسرائيل الذين كانوا موجودين وقت نزول القرآن، وهذه الأفعال المذكورة خوطبوا بها وهي فعل أسلافهم، ونسبت لهم لفوائد عديدة. منها: أنهم كانوا يتمدحون، ويزكون أنفسهم، ويزعمون فضلهم على محمد ومن آمن به؛ فبين الله من أحوال سلفهم التي قد تقررت عندهم ما يبين به لكل واحد منهم أنهم ليسوا من أهل الصبر، ومكارم الأخلاق، ومعالي الأعمال، فإذا كانت هذه حالة سلفهم ـ مع أن المظنة أنهم أولى وأرفع حالة ممن بعدهم ـ فكيف الظن بالمخاطبين! ومنها: أن نعمة الله على المتقدمين منهم نعمة واصلة إلى المتأخرين، والنعمة على الآباء نعمة على الأبناء، فخوطبوا بها، لأنها نعم تشملهم وتعمهم. ومنها: أن الخطاب لهم بأفعال غيرهم مما يدل على أن الأمة المجتمعة على دين تتكافل وتتساعد على مصالحها، حتى كأنَّ متقدمهم ومتأخرهم في وقت واحد، وكأن الحادثَ من بعضهم حادثٌ من الجميع؛ لأن ما يعمله بعضهم من الخير يعود بمصلحة الجميع، وما يعمله من الشر يعود بضرر الجميع. ومنها: أن أفعالهم أكثرها لم ينكروها، والراضي بالمعصية شريك للعاصي، إلى غير ذلك من الحكم التي لا يعلمها إلا الله.
AyatMeaning
[61] تم اس وقت کو بھی یاد کرو جب تم نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے اکتا کر اور ان کو حقیر جانتے ہوئے کہا تھا: ﴿لَنْ نَّصْبِرَ عَلَی طَعَامٍ وَّاحِدٍ﴾ یعنی ہم ایک ہی جنس کے کھانے پر صبر نہیں کر سکتے۔ ان کا کھانا جیسا کہ (گزشتہ سطور میں) گزر چکا ہے اگرچہ متعدد انواع کا تھا۔ مگر ان میں تبدیلی نہ ہوتی تھی۔ ﴿فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّؔا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا﴾ ’’پس تو ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کر، وہ نکالے ہمارے لیے وہ جو اگتا ہے زمین سے، سبزی‘‘ یعنی زمین کی نباتات، جن کا شمار تن آور درختوں میں نہیں ہوتا ﴿ وَقِثَّآىِٕهَا ﴾ یعنی ککڑی ﴿وَفُوْ مِھَا﴾ یعنی لہسن ﴿وَعَدَسِھَا وَبَصَلِھَا﴾ یعنی مسور اور پیاز جو کہ معروف ہیں۔ تب حضرت موسیٰuنے ان سے فرمایا: ﴿اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ھُوَ اَدْنٰی﴾ ’’کیا لینا چاہتے ہو تم وہ چیز جو ادنی ہے‘‘ یعنی یہ تمام کھانے کی چیزیں جن کا ذکر ہو چکا ہے ﴿بِالَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌ﴾ ’’اس کے بدلے میں جو بہتر ہے‘‘ اس سے مراد ’’من و سلوی‘‘ ہے یعنی ایسا کہنا تمھارے لائق نہ تھا، اس لیے کہ کھانے کی یہ تمام انواع جن کا تم نے مطالبہ کیا ہے، تم جس کسی شہر میں بھی جاؤ گے وہاں تم کو مل جائیں گی۔ رہا وہ کھانا جس سے تمھیں اللہ تعالیٰ نے نوازا تھا وہ تمام کھانوں سے افضل اور ان سے بہتر ہے۔ پھر تم کیسے ان کھانوں کے بدلے دوسرے (ادنی) کھانوں کا مطالبہ کرتے ہو؟ چونکہ جو کچھ ان کی طرف سے واقع ہوا وہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ صبر ان میں بہت ہی قلیل تھا اور وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی نعمتوں کو حقیر خیال کرتے تھے، لہٰذا اللہ تعالی نے ان کو ایسا بدلہ دیا جو ان کے اعمال ہی کی جنس میں سے تھا۔ فرمایا: ﴿وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ﴾ ’’اور ان پر ذلت مسلط کر دی گئی‘‘ یعنی وہ ذلت جس کا ظاہری طور پر ان کے جسموں پر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ﴿وَالْمَسْکَنَۃُ﴾ یعنی مسکینی جو ان کے دلوں میں جاگزیں ہو گئی۔ پس ان کی عزت نفس باقی رہی نہ بلند ہمتی بلکہ ان کے نفس ذلیل و خوار اور ان کی ہمتیں پست ترین ہو گئیں۔ ﴿ وَبَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ﴾ ’’اور وہ اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹے‘‘ یعنی وہ غنیمت جسے لے کر کامیابی کے ساتھ واپس لوٹے تھے اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے ساتھ لوٹے تھے۔ ان کی غنیمت کتنی بری غنیمت تھی اور ان کی حالت کتنی بری حالت تھی۔ ﴿ ذٰلِكَ ﴾ وہ رویہ، جس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے مستحق ٹھہرے ﴿ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْ٘فُ٘رُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰه﴾ ’’یہ تھا کہ وہ اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے تھے‘‘ جو حق پر دلالت اور اس کو واضح کرتی تھیں چونکہ انھوں نے ان آیات کا انکار کر دیا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان پر اپنا غضب مسلط کر دیا اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ﴿ وَیَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ﴾ انبیاء کو ناحق قتل کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿بِغَیْرِ الْحَقِّ﴾ فعل کی برائی میں اضافہ کے اظہار کے لیے ہے ورنہ یہ تو اچھی طرح معلوم ہے کہ قتل انبیاء کسی بھی صورت میں حق نہیں ہوتا (بنا بریں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے) کہ کہیں وہ اپنی جہالت اور عدم علم کی وجہ سے ایسا نہ سمجھ لیں۔ ﴿ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا ﴾ یعنی یہ مذکورہ سزا کی وجہ ان کا گناہوں کا ارتکاب تھا ﴿ وَّكَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ﴾ اور وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر زیادتی کے مرتکب ہوا کرتے تھے کیونکہ گناہ اور معاصی ایک دوسرے کا سبب بنتے ہیں۔ پس غفلت سے گناہ صغیرہ جنم لیتے ہیں ،پھر ان گناہوں سے گناہ کبیرہ جنم لیتے ہیں، پھر کبیرہ گناہوں سے مختلف قسم کی بدعات اور کفر کے رویئے پیدا ہوتے ہیں۔ ہم ہر آزمائش سے اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ معلوم ہونا چاہیے کہ ان آیات کریمہ میں خطاب بنی اسرائیل کے ان لوگوں سے ہے جو نزول قرآن کے وقت موجود تھے اور وہ افعال جن کا ذکر اس خطاب میں کیا گیا ہے ان کا ارتکاب ان کے اسلاف نے کیا تھا۔ ان افعال کی نسبت نزول قرآن کے وقت موجود بنی اسرائیل کی طرف متعدد وجوہ کی بنا پر کی گئی ہے۔ مثلاً: (۱)یہودی اپنے آپ کو پاک سمجھتے تھے اور اپنی تعریف کیا کرتے تھے اور اس زعم میں مبتلا تھے کہ وہ محمد رسول اللہeاور اہل ایمان سے افضل ہیں۔ ان کے اسلاف کے ان احوال کے ذریعے سے جو ان کے ہاں بھی مسلمہ تھے اللہ تعالی نے ان سب پر واضح کر دیا کہ وہ صبر، مکارم اخلاق اور بلند پایہ اعمال کے مالک نہیں تھے۔ جب ان کے اسلاف کی حالت یہ تھی۔ اس گمان کے باوجود کہ ان کی حالت بعد میں آنے والوں سے بہتر ہو گی تو ان یہودیوں کے بارے میں کیا کہا جا سکتاہے جو قرآن کے براہ راست مخاطب تھے۔ (۲)للہ تعالیٰ کی جو نعمت متقدمین کو عطا ہوتی ہے وہ متأخرین کو بھی پہنچتی ہے جو نعمت آباء و اجداد کو عطا ہوتی ہے وہ نعمت درحقیقت اولاد کو عطا ہوتی ہے۔ چونکہ نزول قرآن کے وقت موجود یہودی بھی ان نعمتوں میں شامل تھے، اس لیے ان کو خطاب کیا گیا۔ (۳)دوسروں کے افعال کی وجہ سے ان کو مخاطب کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بنی اسرائیل کی امت ایک ایسے دین پر متفق تھی جس میں وہ ایک دوسرے کے ضامن اور ایک دوسرے کے معاون تھے۔ گویا کہ ان کے متقدمین اور متأخرین ایک ہی زمانے کے لوگ ہوں۔ ان میں سے کسی ایک سے کام کا ظاہر ہونا سب کی طرف سے ہے کیونکہ ان میں سے جو کوئی بھلائی کا کام کرتا ہے تو اس بھلائی کا فائدہ سب کو پہنچتا ہے اور ان میں سے جو کوئی برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا نقصان بھی سب کو اٹھانا پڑتا ہے۔ (۴)متقدمین کے اکثر افعال کا متأخرین میں سے کسی نے انکار نہیں کیا تھا اور معصیت پر رضامندی کا اظہار کرنے والا معصیت کے مرتکب کے گناہ میں شریک ہے۔ ان کے علاوہ دیگر حکمتیں بھی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
Vocabulary
AyatSummary
[61]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List