Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 4
- SuraName
- تفسیر سورۂ نساء
- SegmentID
- 261
- SegmentHeader
- AyatText
- {46} ثم بيَّن كيفية ضلالهم وعنادهم وإيثارهم الباطل على الحق، فقال: {من الذين هادوا}؛ أي: اليهود، وهم علماء الضلال منهم، {يُحرِّفون الكلمَ عن مواضعه}: إما بتغيير اللفظ أو المعنى أو هما جميعاً؛ فمن تحريفهم تنزيل الصفات التي ذُكِرَت في كتبهم التي لا تنطبق ولا تصدُقُ إلاَّ على محمد - صلى الله عليه وسلم - على أنه غيرُ مراد بها ولا مقصودٍ بها، بل أُريد بها غيره، وكتمانهم ذلك؛ فهذا حالهم في العلم شر حال، قلبوا فيه الحقائق، ونزَّلوا الحقَّ على الباطل، وجحدوا لذلك الحق. وأما حالهم في العمل والانقياد؛ فإنَّهم {يقولون سمعنا وعصينا}؛ أي: سمعنا قولك وعصينا أمرك، وهذا غاية الكفر والعناد والشرود عن الانقياد، وكذلك يخاطبون الرسول - صلى الله عليه وسلم - بأقبح خطاب وأبعده عن الأدب، فيقولون: {اسمع غير مُسْمَع}؛ قصدُهم: اسمع منا غير مُسْمَع ما تحبُّ بل مُسْمَع ما تكره. {وراعنا}: [و] قصدهم بذلك الرعونةَ بالعيب القبيح، ويظنُّون أن اللفظ لما كان محتملاً لغير ما أرادوا من الأمور؛ أنه يَروج على الله وعلى رسوله، فتوصَّلوا بذلك اللفظ الذي يلوون به ألسنتهم إلى الطعن في الدين والعيب للرسول، ويصرِّحون بذلك فيما بينهم؛ فلهذا قال: {ليًّا بألسنتهم وطعناً في الدين}. ثم أرشدهم إلى ما هو خيرٌ لهم من ذلك، فقال: {ولو أنهم قالوا سمعنا وأطعنا واسمع وانظُرْنا لكان خيراً لهم وأقوم}: وذلك لما تضمَّنه هذا الكلام من حسن الخطاب والأدب اللائق في مخاطبة الرسول والدُّخول تحت طاعة الله والانقياد لأمره وحُسن التلطُّف في طلبهم العلم بسماع سؤالهم والاعتناء بأمرهم؛ فهذا هو الذي ينبغي لهم سلوكه، ولكن لما كانت طبائِعُهم غير زكيَّةٍ؛ أعرضوا عن ذلك وطردهم الله بكفرِهم وعنادِهم، ولهذا قال: {ولكن لعنهم الله بكفرهم فلا يؤمنون إلا قليلاً}.
- AyatMeaning
- [46] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی گمراہی، عناد اور ان کے حق پر باطل کو ترجیح دینے کی کیفیت بیان فرمائی ہے۔ ﴿ مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا ﴾ ’’اور جو یہودی ہیں۔‘‘ یعنی یہودی، اور اس سے مراد یہودیوں کے گمراہ علماء ہیں ﴿ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ ﴾ ’’ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ وہ کلمات کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ہیں۔‘‘ یعنی وہ کلمات الٰہی میں تحریف کے مرتکب ہوتے تھے۔ یہ تحریف یا تو لفظ میں ہوتی تھی یا معنی میں یا دونوں میں۔ یہ ان کی تحریف تھی کہ آنے والے نبی کی وہ صفات جو ان کی کتابوں میں بیان کی گئی تھیں وہ محمد رسول اللہeکے سوا کسی پر منطبق اور صادق نہ آتی تھیں۔ (یہودی کہتے تھے) کہ یہ صفات رسول اللہeکی نہیں کسی اور کی بیان ہوئی ہیں ان صفات سے مراد رسول اللہeنہیں ہیں وہ ان صفات کو چھپاتے تھے۔ پس علم کے بارے میں یہ ان کا بدترین حال ہے۔ انھوں نے حقائق کو بدل ڈالا حق کو باطل بنا دیا اور پھر انھوں نے اس کی وجہ سے اس حق کا انکار کر دیا۔ رہا عمل اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ان کا حال تو کہا کرتے تھے ﴿ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا ﴾ ’’ہم نے سن لیا اور نہیں مانا۔‘‘ یعنی ہم نے تیری بات سنی اور تیرے حکم کی نافرمانی کی۔ یہ کفر و عناد اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل بھاگنے کی انتہا ہے۔ اسی طرح وہ رسول اللہeکو انتہائی سوء ادبی، اور بدترین خطابات کے ساتھ مخاطب کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے ﴿ وَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ ﴾ ’’سنیے نہ سنوائے جاؤ۔‘‘ اور ان الفاظ سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہماری بات سن اور تجھے وہ بات نہ سنوائی جائے جو تجھے پسند ہے بلکہ وہ بات سنوائی جائے جو تجھے ناپسند ہے ﴿ وَّرَؔاعِنَا ﴾ اس رعونت سے ان کی مراد تھی قبیح عیب۔ وہ سمجھتے تھے کہ چونکہ لفظ میں ان معنوں کا احتمال ہے جو ان کے معنی مراد کے علاوہ ہیں، اس لیے یہ اللہ اور اس کے رسولeکے بارے میں رائج ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ اس لفظ کو، جس کا وہ اپنی زبانوں کو مروڑ کر تلفظ کرتے تھے، دین میں طعن اور رسول اللہeکی عیب چینی کا ذریعہ بناتے تھے۔ اور باہم ایک دوسرے کو نہایت صراحت سے بتاتے تھے اسی لیے فرمایا: ﴿ لَیًّ٘ـۢا بِاَلْسِنَتِهِمْ۠ وَطَعْنًا فِی الدِّیْنِ ﴾ ’’زبانوں کو مروڑ کر اور دین میں عیب لگانے کو‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سے بہتر چیز کی طرف ان کی راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَلَوْ اَنَّهُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْ٘ظُ٘رْنَا لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَاَ٘قْوَمَ ﴾ ’’اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے فرماں برداری کی اور آپ سنیے اور ہمیں دیکھیے تو یہ ان کے لیے بہت بہتر اور نہایت ہی مناسب تھا‘‘ چونکہ یہ کلام رسول اللہeکو مخاطب ہونے کے بارے میں حسن خطاب، ادب لائق، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے اوامر کی تعمیل کو متضمن ہے نیز یہ کلام ان کے طلب علم، ان کے سوال کو سننے اور ان کے معاملے کو درخور اعتنا سمجھنے کے بارے میں حسن ملاطفت کا حامل ہے۔ اس لیے یہ وہ راستہ ہے جس پر انھیں گامزن ہونا چاہیے، مگر چونکہ ان کی طبائع پاکیزگی سے محروم ہیں اس لیے انھوں نے اس سے اعراض کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر و عناد کے باعث انھیں دھتکار دیا۔ اس لیے فرمایا: ﴿ وَلٰكِنْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُ٘فْرِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ ’’مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کے سبب سے ان پر لعنت کی، پس اب وہ ایمان نہیں لائیں گے مگر بہت تھوڑے۔‘‘
- Vocabulary
- AyatSummary
- [46]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF