Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 70
- SuraName
- تفسیر سورۂ معارج
- SegmentID
- 1641
- SegmentHeader
- AyatText
- {1 ـ 4} يقول تعالى مبيِّناً لجهل المعاندين واستعجالهم لعذاب الله استهزاءً وتعنُّتاً وتعجيزاً: {سأل سائلٌ} أي: دعا داعٍ واستفتح مستفتح، {بعذابٍ واقعٍ للكافرينَ}: لاستحقاقهم له بكفرِهم وعنادِهم. {ليس له دافع من الله}؛ أي: ليس لهذا العذاب الذي استعجلَ به مَنِ استعجلَ من متمرِّدي المشركين أحدٌ يدفعه قبل نزوله أو يرفعه بعد نزوله، وهذا حين دعا النَّضْر بن الحارث القرشيُّ أو غيره من المكذِّبين ، فقال: {اللهمَّ إنْ كان هذا هو الحقَّ من عندِكَ فأمطِرْ علينا حجارةً من السماء أو ائتنا بعذابٍ أليم ... } [إلى آخر الآيات]؛ فالعذابُ لا بدَّ أن يقع عليهم من الله؛ فإمَّا أن يُعَجَّلَ لهم في الدُّنيا، وإمَّا أن يُدَّخَرَ لهم في الآخرة؛ فلو عرفوا الله وعرفوا عظمته وسعة سلطانه وكمال أسمائِهِ وصفاتِهِ؛ لما استعجلوا، ولاستسلموا وتأدَّبوا، ولهذا ذكر تعالى من عظمته ما يضادُّ أقوالهم القبيحة، فقال: {ذي المعارج. تَعْرُجُ الملائكةُ والرُّوح إليه}؛ أي: ذي العلوِّ والجلال والعظمة والتَّدبير لسائر الخلق، الذي تَعْرُجُ إليه الملائكة بما جعلها على تدبيره، وتَعْرُجُ إليه الرُّوح، وهذا اسم جنس يشمل الأرواح كلَّها؛ بَرَّها وفاجِرَها، وهذا عند الوفاة، فأمَّا الأبرار؛ فتعرج أرواحُهم إلى الله، فيؤذن لهم من سماءٍ إلى سماءٍ، حتى تنتهي إلى السماء التي فيها اللهُ عزَّ وجلَّ، فتحيي ربَّها وتسلِّم عليه وتحظى بقربه، وتبتهج بالدنوِّ منه، ويحصُلُ لها منه الثناء والإكرام والبرُّ والإعظام، وأمَّا أرواحُ الفجَّار؛ فتعرج، فإذا وصلت إلى السماء؛ استأذنتْ، فلا يؤذَنُ لها، وأعيدت إلى الأرض. ثم ذكر المسافةَ التي تَعْرُجُ فيها الملائكةُ والرُّوح إلى الله، وأنَّها تعرج في يوم بما يَسِّر لها من الأسباب وأعانها عليه من اللَّطافة والخفَّة وسرعة السير، مع أنَّ تلك المسافة على السير المعتاد مقدار خمسين ألف سنةٍ، من ابتداء العروج إلى وصولها ما حُدَّ لها، وما تنتهي إليه من الملأ الأعلى؛ فهذا المُلْك العظيم والعالم الكبير علويُّه وسفليُّه جميعه قد تولَّى خلقه وتدبيره العليُّ الأعلى، فعلم أحوالهم الظاهرة والباطنة، [وَعَلِمَ] مستقرَّهم ومستودَعَهم، وأوصلهم من رحمته وبرِّه وإحسانه ما عمَّهم وشَمَلَهم، وأجرى عليهم حكمه القدريَّ وحكمه الشرعيَّ وحكمه الجزائيَّ؛ فبؤساً لأقوام جهلوا عظمته ولم يقدروه حقَّ قدره، فاستعجلوا بالعذاب على وجه التعجيز والامتحان. وسبحان الحليم الذي أمهلهم وما أهملهم، وآذَوْه فصبر عليهم وعافاهم ورَزَقَهم! هذا أحدُ الاحتمالات في تفسير هذه الآية الكريمة، فيكون هذا العروجُ والصعودُ في الدنيا؛ لأنَّ السِّياق الأول يدلُّ عليه. ويُحتمل أنَّ هذا في يوم القيامةِ، وأنَّ الله [تبارك و] تعالى يظهِرُ لعباده في يوم القيامةِ من عظمته وجلاله وكبريائه، ما هو أكبر دليل على معرفتِهِ مما يشاهدونه من عروج الأملاك والأرواح، صاعدةً ونازلةً بالتدابير الإلهيّة والشؤون الربَّانيَّة في ذلك اليوم الذي مقداره خمسين ألف سنة من طوله وشدَّته، لكنَّ الله تعالى يخفِّفه على المؤمن.
- AyatMeaning
- [4-1] اللہ تبارک و تعالیٰ معاندینِ حق کی جہالت کو، اور استہزا کے طور پر ان کے عذاب الٰہی کو مشکل اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ کو عاجز سمجھتے ہوئے عذاب کے لیے جلدی مچانے کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ سَاَلَ سَآىِٕلٌۢ﴾ یعنی دعا کرنے والے نے دعا کی اور نصرت طلب کرنے والے نے نصرت طلب کی ﴿بِعَذَابٍ وَّاقِعٍۙ۰۰لِّلْ٘كٰفِرِیْنَ﴾ ’’عذاب کی جو واقع ہوکر رہے گا کافروں پر۔‘‘ ان کے کفر و عناد کی بنا پر، عذاب کے مستحق ہونے کی وجہ سے ﴿ لَ٘یْسَ لَهٗ دَافِعٌۙ۰۰مِّنَ اللّٰهِ ﴾ متکبر اور سرکش مشرکین میں سے جس کسی نے جلد عذاب کی خواہش کی ہے، کوئی اس عذاب کو اس کے نازل ہونے سے قبل روک سکتا ہے نہ اس کے نازل ہونے کے بعد اس کو اٹھا سکتا ہے۔ یہ آیات کریمہ اس وقت نازل ہوئیں جب نضر بن حارث قرشی وغیرہ اہل تکذیب نے دعا کرتے ہوئے کہا﴿ اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰؔذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ﴾ (الأنفال: 32/8)’’اے اللہ! اگر یہ تیری طرف سے حق ہے، تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر درد ناک عذاب لے آ‘‘ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عذاب ضرور واقع ہو گا، یا تو اس دنیا ہی میں جلد ان پر عذاب بھیج دیا جائے گا یا آخرت میں (مبتلا کرنے کے لیے) اس عذاب کو ان سے مؤخر کیا جائے گا۔ اگر انھوں نے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی ہوتی، اس کی عظمت، اس کی وسعت سلطنت اور اس کے اسماء و صفات کو پہچانا ہوتا تو وہ کبھی جلدی نہ مچاتے بلکہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے اور ادب اختیار کرتے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کا ذکر فرمایا جو ان کے اقوال قبیحہ کی ضد ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ذِی الْمَعَارِجِؕ۰۰ تَعْرُجُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ اِلَیْهِ﴾ یعنی وہ بلندی، جلال، اور عظمت کا مالک ہے، تمام مخلوقات کی تدبیر اسی کے ہاتھ میں ہے جس کی طرف اس چیز کے ساتھ فرشتے عروج کرتے ہیں جس کی تدبیر پر انھیں مقرر کیا ہے اور اس کی طرف روح بلند ہوتی ہے۔ یہ اسم جنس ہے جو تمام ارواح کو شامل ہے، خواہ نیک ہوں یا بد، اللہ تعالیٰ کی طرف ارواح کا بلند ہونا، وفات کے وقت ہے۔ نیک لوگوں کی ارواح اللہ تعالیٰ کی طرف عروج کرتی ہیں، انھیں ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف بلند ہونے کی اجازت دے دی جاتی ہے، یہاں تک کہ ارواح اس آسمان پر پہنچ جاتی ہیں، جس میں اللہ تعالیٰ ان کا رب تشریف فرما ہے، یہ ارواح اللہ تعالیٰ کے حضور تحیہ و سلام پیش کرتی ہیں اس کے قرب سے سرفراز ہوتی ہیں اور اس کے قرب سے بہجت و سرور حاصل کرتی ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ثنا و اکرام، بھلائی اور بڑائی حاصل ہو گی۔ رہیں فساق و فجار کی ارواح تو وہ عروج کرتی ہیں جب وہ آسمان پر پہنچتیں ہیں تو آنے کی اجازت طلب کرتی ہیں، مگر ان کو اجازت نہیں دی جاتی اور ان کو زمین کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس مسافت کا ذکر فرمایا جس کو طے کر کے فرشتے اور روح اللہ تعالیٰ کی طرف عروج کرتے ہیں، نیز یہ کہ وہ ان اسباب کے ذریعے سے ایک دن میں عروج کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے آسان کیے ہیں اور اوپر چڑھنے میں ان کی لطافت، خفت اور سرعت رفتار ان کی اعانت کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، عام عادی رفتار کے مطابق، یہ مسافت ابتدائے عروج سے لے کر اس حد تک جو ان کے لیے مقرر کی گئی ہے اور ملأ اعلیٰ تک، پچاس ہزار برس کے برابر ہے۔ یہ عظیم بادشاہی، یہ وسیع کائنات، علوی اور سفلی، اس کی تخلیق اور تدبیر کا انتظام، وہی بلند و برتر کرتا ہے۔ پس وہ ان کے ظاہری و باطنی احوال کا علم رکھتا ہے، وہ ان کے ٹھکانے کو جانتا ہے اور اسے اس جگہ کا علم ہے جہاں ان کو سونپا جانا ہے، اس نے اپنی رحمت، احسان اور رزق ان تک پہنچایا جو ان سب پر عام اور سب کو شامل ہے۔ اس نے ان پر حکم قدری، حکم شرعی اور حکم جزائی کو جاری کیا۔پس شدت ہے ان لوگوں کے لیے جو اس کی عظمت کے بارے میں جہالت کا شکار ہیں اور انھوں نے اس کی اس طرح قدر نہ کی جس طرح قدر کرنے کا حق ہے، پس انھوں نے عجز ثابت کرنے اور امتحان کے طور پر عذاب کے لیے جلدی مچائی … پاک ہے حلم اور درگزر کرنے والی ہستی جس نے ان کو ڈھیل دے رکھی مگر ان کو مہمل نہیں چھوڑا، انھوں نے اس کو اذیت پہنچائی مگر اس نے ان کے بارے میں صبر کیا، ان کو معاف کر دیا اور ان کو رزق عطا کیا۔ یہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ایک احتمال ہے، پس یہ عروج اور چڑھنا اس دنیا میں ہے کیونکہ آیت کریمہ کا پہلا سیاق اس پر دلالت کرتا ہے۔ ایک احتمال یہ ہے کہ یہ قیامت کے دن ہو گا اور اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اپنے بندوں پر اپنی عظمت، جلال اور کبریائی ظاہر کرے گا جو اس کی معرفت کی سب سے بڑی دلیل ہے وہ فرشتوں اور ارواح کو تدابیر الٰہیہ اور امور ربانیہ کے ساتھ چڑھتے اترتے مشاہدہ کریں گے۔یہ اس روز ہوگا جس کا اندازہ اس کی لمبائی اور شدت کی بنا پر پچاس ہزار سال ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ مومنوں پر تخفیف فرمائے گا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [4-1
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF