Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 3
- SuraName
- تفسیر سورۂ آل عمران
- SegmentID
- 202
- SegmentHeader
- AyatText
- {134} ثم وصف المتقين وأعمالهم فقال: {الذين ينفقون في السراء والضراء}؛ أي: في حال عسرهم ويسرهم إن أيسروا أكثروا من النفقة وإن أعسروا لم يحتقروا من المعروف شيئاً ولو قل، {والكاظمين الغيظ}: أي: إذا حصل لهم من غيرهم أذية توجب غيظهم، وهو امتلاء قلوبهم من الحنق الموجب للانتقام بالقول والفعل. هؤلاء لا يعملون بمقتضى الطباع البشرية بل يكظمون ما في القلوب من الغيظ، ويصبرون عن مقابلة المسيء إليهم. {والعافين عن الناس}، يدخل في العفو عن الناس العفو عن كل من أساء إليك بقول أو فعل، والعفو أبلغ من الكظم، لأن العفو ترك المؤاخذة مع السماحة عن المسيء، وهذا إنما يكون ممن تحلى بالأخلاق الجميلة وتخلى من الأخلاق الرذيلة، وممن تاجر مع الله وعفا عن عباد الله رحمة بهم وإحساناً إليهم، وكراهة لحصول الشر عليهم، وليعفو الله عنه ويكون أجره على ربه الكريم لا على العبد الفقير، كما قال تعالى: {فمن عفا وأصلح فأجره على الله}. ثم ذكر حالة أعم من غيرها وأحسن وأعلى وأجل، وهي الإحسان، فقال تعالى: {والله يحب المحسنين}، والإحسان نوعان: الإحسان في عبادة الخالق والإحسان إلى المخلوق. فالإحسان في عبادة الخالق فسرها النبي - صلى الله عليه وسلم - بقوله: «أن تعبد الله كأنك تراه، فإن لم تكن تراه فإنه يراك». وأما الإحسان إلى المخلوق فهو إيصال النفع الديني والدنيوي إليهم ودفع الشر الديني والدنيوي عنهم، فيدخل في ذلك أمرهم بالمعروف ونهيهم عن المنكر وتعليم جاهلهم ووعظ غافلهم والنصيحة لعامتهم وخاصتهم، والسعي في جمع كلمتهم وإيصال الصدقات والنفقات الواجبة والمستحبة إليهم على اختلاف أحوالهم وتباين أوصافهم، فيدخل في ذلك بذل الندى وكف الأذى واحتمال الأذى، كما وصف الله به المتقين في هذه الآيات، فمن قام بهذه الأمور فقد قام بحق الله وحق عبيده.
- AyatMeaning
- [134] پھر اللہ تعالیٰ نے متقین اور ان کے اعمال کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّ٘رَّآءِ ﴾ یعنی وہ تنگی اور فراخی میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، یعنی جب وہ مال دار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے راستے میں کثرت سے خرچ کرتے ہیں اور جب وہ تنگدست ہوتے ہیں تو وہ نیکی کے کسی کام کو حقیر نہیں سمجھتے خواہ وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ ﴿ وَالْ٘ــكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ ﴾ یعنی جب ان کو دوسروں کی طرف سے کوئی ایسی تکلیف پہنچتی ہے جو ان کے غصے کا موجب ہوتی ہے۔ یہاں (غیظ) سے مراد ان کے دلوں کا ایسے غصے سے لبریز ہونا ہے جو قول و فعل کے ذریعے سے انتقام کا موجب ہوتا ہے۔ یہ اہل تقویٰ طبائع بشری کے ان تقاضوں پر عمل نہیں کرتے بلکہ ان کے دلوں میں جو غصہ ہوتا ہے اسے دبا دیتے ہیں اور برا سلوک کرنے والے کے مقابلے میں صبر سے کام لیتے ہیں۔ ﴿وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ﴾ لوگوں کو معاف کر دینے میں ہر اس شخص کو معاف کردینا شامل ہے جو آپ کے ساتھ قول یا فعل کے ذریعے سے برائی سے پیش آتا ہے۔ (عفو) (کظم) سے زیادہ بلیغ ہے کیونکہ ’’عفو‘‘ برائی کرنے والے سے درگزر کرنے کے ساتھ، مواخذہ ترک کرنے کا نام ہے۔ یہ سب کچھ وہی شخص کر سکتا ہے جس نے اپنے آپ کو اخلاق جمیلہ سے آراستہ اور عادات رذیلہ سے پاک کر لیا ہو اور وہ ان میں سے ہو جس کی تجارت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو۔ جو اللہ کے بندوں پر رحم اور احسان کرتے ہوئے اور اس خوف سے کہ کہیں ان کو برائی نہ پہنچے ان کو معاف کر دیتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے اور اس کا اجر اس کے رب کریم پر واجب ہو، نہ کہ اس بندۂ فقیر پر۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ فَ٘مَنْ عَفَا وَاَصْلَ٘حَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ ﴾ (الشوری : 42؍40) ’’جو کوئی معاف کر دے اور معاملے کی اصلاح کر دے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے (بندۂ مومن کے) ایسے حال کا ذکر فرمایا ہے جو دیگر احوال سے زیادہ عام، احسن و اعلیٰ اور زیادہ جلیل القدر ہے اور وہ ہے احسان۔ فرمایا ﴿وَاللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ ’’اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘ احسان کی دو قسمیں ہیں۔ (۱) اللہ تعالیٰ کی عبودیت میں احسان۔ (۲) اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ احسان۔ خالق کی عبودیت میں احسان کی تفسیر رسول اللہeنے ان الفاظ میں کی ہے: ’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فِانْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہُ یَرَاَکَ‘ (صحیح البخاری، الإيمان، سؤال جبریل النبیE …..، حديث: 5، وصحیح مسلم، الإيمان، حديث: 1)’’احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی بندگی اس طرح کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے دیکھ نہیں رہا تو پھر وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘ رہا مخلوق کے ساتھ احسان تو یہ ان کو دینی اور دنیاوی نفع پہنچانے اور ان سے دینی اور دنیاوی شر کو ہٹانے اور دور کرنے کا نام ہے، چنانچہ امر بالمعروف، نہی عن المنکر، جاہل کو تعلیم دینا، غافل کو وعظ ونصیحت کرنا، مسلمان عوام اور خواص کی خیر خواہی کرنا اور ان کو متحد رکھنے کی کوشش کرنا یہ تمام امور مخلوق کے ساتھ احسان کے زمرے میں آتے ہیں۔ نیز لوگوں کے مختلف احوال اور متباین اوصاف کے مطابق ان تک واجب اور مستحب صدقات وغیرہ پہنچانا بھی احسان ہی میں شامل ہے۔ پس سخاوت کرنا، لوگوں کی تکالیف رفع کرنا خود تکالیف برداشت کرنا احسان ہے۔ جیسا کہ انھی آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کا وصف بیان فرمایا ہے۔ پس جس نے مذکورہ بالا امور کو قائم کیا اس نے اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کو ادا کیا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [134
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF