Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
42
SuraName
تفسیر سورۂ شورٰی
SegmentID
1391
SegmentHeader
AyatText
{15} {فلذلك فادعُ}؛ أي: فللدين القويم والصراط المستقيم، الذي أنزل الله به كُتُبَه وأرسل رُسُله؛ فادعُ إليه أمَّتك، وحضَّهم عليه، وجاهد عليه مَنْ لم يقبَلْه. {واستَقِمْ}: بنفسك {كما أمرتَ}؛ أي: استقامةً موافقةً لأمر الله؛ لا تفريط ولا إفراط، بل امتثالاً لأوامر الله، واجتناباً لنواهيه، على وجه الاستمرار على ذلك؛ فأمَرَه بتكميل نفسه بلزوم الاستقامة، وبتكميل غيرِهِ بالدَّعوة إلى ذلك. ومن المعلوم أنَّ أمر الرسولِ - صلى الله عليه وسلم - أمرٌ لأمَّته إذا لم يَرِدْ تخصيصٌ له. {ولا تتَّبِعْ أهواءهم}؛ أي: أهواء المنحرفين عن الدِّين من الكفرة والمنافقين، إمَّا باتِّباعهم على بعض دينهم، أو بترك الدَّعوة إلى الله، أو بترك الاستقامة؛ فإنَّك إن اتَّبعت أهواءهم من بعد ما جاءك من العلم إنَّك إذاً لَمِنَ الظالمين، ولم يقل ولا تتَّبِع دينَهم؛ لأنَّ حقيقة دينهم الذي شَرَعَه الله لهم هو دينُ الرسل كلِّهم، ولكنَّهم لم يتَّبِعوه، بل اتَّبعوا أهواءهم واتَّخذوا دينهم لهواً ولعباً، {وقل}: لهم عند جدالهم ومناظرتهم: {آمنتُ بما أنزلَ اللهُ من كتابٍ}؛ أي: لتكنْ مناظرتُك لهم مبنيةً على هذا الأصل العظيم، الدالِّ على شرف الإسلام وجلالته وهيمنتِهِ على سائر الأديان، وأنَّ الدين الذي يزعُمُ أهل الكتاب أنَّهم عليه جزءٌ من الإسلام، وفي هذا إرشادٌ إلى أنَّ أهل الكتاب إن ناظروا مناظرة مبنيَّة على الإيمان ببعض الكتب أو ببعض الرسل دون غيرِهِ؛ فلا يسلمُ لهم ذلك؛ لأنَّ الكتابَ الذي يدعون إليه والرسولَ الذي ينتسبونَ إليه من شرطِهِ أن يكون مصدِّقاً بهذا القرآن وبمن جاء به؛ فكتابُنا ورسولُنا لم يأمرنا إلاَّ بالإيمان بموسى وعيسى والتوراة والإنجيل التي أخبر بها وصدَّق بها وأخبر أنَّها مصدقة له ومقرَّة بصحته، وأما مجرَّدُ التوراة والإنجيل وموسى وعيسى الذين لم يوصفوا لنا ولم يوافِقوا لكتابِنا؛ فلم يأمرْنا بالإيمان بهم. وقوله: {وأمِرْتُ لأعدلَ بينكم}؛ أي: في الحكم فيما اختلفتُم فيه؛ فلا تَمْنَعُني عداوتُكم وبُغضكم يا أهل الكتاب من العدل بينكم، ومن العدل في الحكم بين أهل الأقوال المختلفة من أهل الكتاب وغيرهم أن يُقْبَلَ ما معهم من الحقِّ ويردَّ ما معهم من الباطل. {الله ربُّنا وربُّكم}؛ أي: هو ربُّ الجميع، لستم بأحقَّ به منا، {لنا أعمالُنا ولكُم أعمالُكم}: من خيرٍ وشرٍّ، {لا حجَّةَ بيننا وبينكم}؛ أي: بعدما تبيَّنت الحقائق واتَّضح الحقُّ من الباطل والهدى من الضلال؛ لم يبقَ للجدال والمنازعة محلٌّ؛ لأنَّ المقصود من الجدال إنَّما هو بيانُ الحقِّ من الباطل؛ ليهتدي الراشدُ، ولتقومَ الحجةُ على الغاوي. وليس المرادُ بهذا أنَّ أهلَ الكتاب لا يجادَلون، كيف والله يقولُ: {ولا تجادِلوا أهلَ الكتابِ إلاَّ بالتي هي أحسنُ}؟! وإنَّما المرادُ ما ذكرنا. {الله يجمعُ بينَنا وإليه المصير}: يوم القيامةِ، فيجزي كلاًّ بعملِهِ، ويتبيَّن حينئذٍ الصادق من الكاذب.
AyatMeaning
[15] ﴿فَلِذٰلِكَ فَادْعُ ﴾ یعنی اس دین قویم اور صراط مستقیم کی طرف اپنی امت کو دعوت دیجیے جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے کتابیں نازل فرمائیں اور رسول مبعوث کیےاور انھیں اس کی ترغیب دیجیے اور اس کی خاطر ان لوگوں سے جہاد کیجیے جو اس کو قبول نہیں کرتے۔ ﴿وَاسْتَقِمْ ﴾ ’’اور خود بھی استقامت اختیار کیجیے‘‘ ﴿كَمَاۤ اُمِرْتَ ﴾ ’’جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے۔‘‘ استقامت سے مراد اللہ تعالیٰ کے حکم کی موافقت ہے، جس میں کوئی افراط و تفریط نہ ہو بلکہ اس میں دائمی طور پر اللہ تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب ہو۔ سو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی تکمیل کے لیے استقامت کے التزام اور دوسروں کی تکمیل کے لیے اس کی طرف دعوت دینے کا حکم دیا نیز ہمیں معلوم ہے کہ رسول اللہ e کو دیے گئے حکم کا اطلاق امت پر بھی ہوتا ہے، مگر اس شرط کے ساتھ کہ یہ حکم صرف آپ کے ساتھ مخصوص نہ ہو۔ ﴿وَلَا تَ٘تَّ٘بِـعْ اَهْوَآءَؔهُمْ ﴾ یعنی دین سے منحرف لوگوں ، یعنی کفارومنافقین کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے۔ یہ اتباع یا تو ان کے دین کے کسی حصے کی اتباع کے ذریعے سے یا اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت کو ترک کرنے یا استقامت کو ترک کرنے سے واقع ہوتی ہے۔ اگر آپ نے علم کے آ جانے کے بعد بھی، ان کی خواہشات کی پیروی کی تو آپ کا شمار ظالموں میں ہو گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ارشاد میں )وَلَا تَتَّبِـعْ دِینَھُمْ( نہیں کہا کیونکہ حقیقت میں ان کا دین جس کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مشروع فرمایا ہے، وہی دین ہے جو تمام انبیاء و مرسلین کا دین ہے، مگر ان کے متبعین نے اس دین کی پیروی نہ کی بلکہ وہ اپنی خواہشات کے پیچھے لگ گئے اور اپنے دین کو کھیل تماشا بنا لیا۔ ﴿وَقُ٘لْ ﴾ ان کے مناظرہ اور بحث کرنے پر کہہ دیجیے ﴿اٰمَنْتُ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنْ كِتٰبٍ ﴾ ’’جو کتاب اللہ نے نازل کی ہے میں اس پر ایمان رکھتا ہوں۔‘‘ یعنی ان کے ساتھ آپ کا بحث و مناظرہ، اس عظیم اصول پر مبنی ہونا چاہیے جو اسلام کے شرف و جلال پر دلالت کرتا ہے اور تمام ادیان پر اس کے نگران ہونے کا اور یہ اہل کتاب جس دین پر چلنے کے دعویدار ہیں، وہ بھی اسلام کا ایک جزو ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی طرف راہ نمائی کی گئی ہے کہ اگر اہل کتاب، بعض کتابوں اور بعض رسولوں پر ایمان لا کر اور دیگر کا انکار کر کے مناظرہ کریں تو یہ قابل قبول نہیں کیونکہ جس کتاب کی طرف یہ لوگ دعوت دیتے ہیں اور جس رسول کی طرف یہ اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں، اس کی صداقت کی شرط یہ ہے کہ وہ اس قرآن کی اور اس کو لانے والے کی تصدیق کرتا ہو۔ پس ہماری کتاب اور ہمارا رسول (e) ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰi تورات اور انجیل پر ایمان لائیں جن کی قرآن مجید نے تصدیق کی ہے ان کے بارے یہ بھی خبر دی ہے کہ وہ قرآن کی تصدیق اور اس کی صحت کا اقرار کرتی ہیں۔ مجرد تورات و انجیل اور حضرت موسیٰ و عیسیٰi، جو ہمارے اوصاف بیان کرتے ہیں نہ ہماری کتاب کی موافقت کرتے ہیں، تو ان پر ایمان لانے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم نہیں دیا۔ ﴿وَ اُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَكُمْ ﴾ ’’اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں۔‘‘ یعنی ان امور میں فیصلہ کرتے وقت جن میں تم آپس میں اختلاف کرتے ہو ۔ اے اہل کتاب! تمھاری عداوت اور میرے خلاف تمھارا بغض مجھے تمھارے درمیان انصاف کرنے سے روک سکتا ہے نہ اہل کتاب وغیرہ میں مختلف اقوال کے قائلین کے درمیان فیصلے میں عدل سے باز رکھ سکتا ہے اور نہ ان کے ساتھ جو حق ہے اسے قبول کرنے اور ان کے باطل کو رد کرنے سے روک سکتاہے۔ ﴿اَللّٰهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ﴾ ’’اللہ ہی ہمارا اور تمھارا رب ہے۔‘‘ یعنی وہ سب کا رب ہے، تم ہم سے زیادہ اس کے مستحق نہیں ہو۔ ﴿لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ ﴾ ’’ہمارے اچھے برے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اچھے برے اعمال تمھارے لیے ہیں۔‘‘ ﴿لَا حُجَّةَ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ ﴾ ’’ہمارے اور تمھارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہے۔‘‘ حقائق کے عیاں ہو جانے، باطل میں سے حق اور گمراہی میں سے ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد حجت بازی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ کیونکہ بحث و مباحثہ کا مقصد محض حق اور باطل کو واضح کرنا ہوتا ہے تاکہ ہدایت یافتہ شخص اس سے راہ نمائی حاصل کرے اور گمراہ پر حجت قائم ہو جائے۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ اہل کتاب مباحثہ نہیں کرتے اور یہ مراد ہو بھی کیسے سکتی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَلَا تُجَادِلُوْۤا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ﴾ (العنکبوت:29؍46) ’’اہل کتاب کے ساتھ بحث مباحثہ نہ کرو، مگر احسن طریقے سے۔‘‘ اس سے مراد وہی ہے جو ہم نے ذکر کر دی ہے۔ ﴿اَللّٰهُ یَجْمَعُ بَیْنَنَا١ۚ وَاِلَیْهِ الْمَصِیْرُ﴾ یعنی قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ہمیں جمع کرے گا ، پھر وہ ہر شخص کو اس کے اعمال کی جزا دے گا۔ اس وقت واضح ہو جائے گا کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون۔
Vocabulary
AyatSummary
[15]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List