Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
40
SuraName
تفسیر سورۂ غافر (مؤمن)
SegmentID
1355
SegmentHeader
AyatText
{27} {وقال موسى}: حين قال فرعونُ تلك المقالَة الشنيعةَ التي أوجَبَها له طغيانُه واستعان فيها بقوَّته واقتدارِهِ مستعيناً بربِّه: {إنِّي عذتُ بربِّي وربِّكم}؛ أي: امتنعتُ بربوبيَّته التي دبَّر بها جميع الأمور {من كل متكبِّرٍ لا يؤمنُ بيوم الحساب}؛ أي: يحمله تكبُّره وعدمُ إيمانه بيوم الحساب على الشرِّ والفسادِ، يدخُلُ فيه فرعونُ وغيره كما تقدَّم قريباً في القاعدة، فمنعه الله تعالى بلطفه من كلِّ متكبِّرٍ لا يؤمن بيوم الحساب، وقيَّض له من الأسباب ما اندفع به عنه شرُّ فرعونَ وملئه.
AyatMeaning
[28] ان جملہ اسباب میں سے وہ صاحب ایمان شخص بھی ہے جو آل فرعون سے تعلق رکھتا تھا بلکہ کاروبار مملکت میں شامل تھا۔ لازماً اس کی بات سنی جاتی ہو گی خاص طور پر جب وہ ان سے موافقت کا اظہار کرتا تھا اور اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا کیونکہ اس صورت میں عام طور پر وہ اس کی رعایت رکھتے تھے اگر وہ ظاہر میں ان کی موافقت نہ کرتا تو وہ یہ رعایت نہ رکھتے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم e کو آپ کے چچا ابوطالب کے ذریعے سے قریش سے محفوظ رکھا۔ ابو طالب ان کے نزدیک ایک بڑا سردار تھا ان کے دین ہی کی موافقت کرتا تھا۔ اگر وہ مسلمان ہوتا تووہ آپ کی اس طرح حفاظت نہ کر سکتا۔ اس توفیق یافتہ، عقل مند اور دانا مومن نے اپنی قوم کے فعل کی قباحت واضح کرتے ہوئے کہا: ﴿اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰهُ ﴾ ’’کیا تم ایسے آدمی کو قتل کرتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔‘‘ یعنی تم اس کے قتل کو کیونکر جائز سمجھتے ہو، اس کا گناہ صرف یہی ہے نا کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور اس کا قول دلائل سے خالی بھی نہیں۔ اس لیے صاحب ایمان نے کہا: ﴿وَقَدْ جَآءَكُمْ بِالْبَیِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ ﴾ ’’اور وہ تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے نشانیاں بھی لے کر آیا ہے۔‘‘ کیونکہ حضرت موسیٰu کے معجزات اتنے مشہور ہو گئے کہ چھوٹے بڑے سب جانتے تھے۔ اس لیے یہ چیز حضرت موسیٰu کے قتل کی موجب نہیں بن سکتی… تم نے اس سے پہلے، جب حضرت موسیٰu تمھارے پاس حق لے کر آئے، اس کا دلیل کے ذریعے سے ابطال کیوں نہیں کیا کہ دلیل کا مقابلہ دلیل سے کیا ہوتا، پھر اس کے بعد غور کرتے کہ آیا اس پر دلیل میں غالب آنے کے بعد، اس کو قتل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اب جبکہ حجت اور دلیل میں وہ تمھیں نیچا دکھا چکا ہے۔ تمھارے درمیان اور اس کے قتل کے جواز کے درمیان بہت فاصلہ حائل ہے جسے طے نہیں کیا جاسکتا، پھر اس نے ان سے عقل کی بات کہی جو ہر حال میں ہر عقل مند کو مطمئن کر دیتی ہے۔ ﴿وَاِنْ یَّكُ كَاذِبً٘ا فَعَلَیْهِ كَذِبُهٗ١ۚ وَاِنْ یَّكُ صَادِقًا یُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُكُمْ ﴾ ’’اگر وہ جھوٹا ہوگا تو اس کے جھوٹ کا ضرر اسی کو ہوگا اور اگر سچا ہوگا تو اس عذاب کا بعض حصہ تم پر واقع ہوکر رہے گا، جس کا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے۔‘‘ یعنی حضرت موسیٰu کا معاملہ دور امور میں سے کسی ایک پر معلق ہے یا تو وہ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں یا وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں۔ اگر وہ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں تو ان کے جھوٹ کا وبال انھی پر ہے اور اس کا ضرر بھی انھی کے ساتھ مختص ہے تمھیں اس سے کوئی ضرر نہیں پہنچے گا کیونکہ تم نے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی۔ اور اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں اور انھوں نے تمھارے سامنے اپنی صداقت کے دلائل بھی پیش کیے ہیں اور تمھیں یہ وعید بھی سنائی ہے کہ اگر تم نے ان کی دعوت کو قبول نہ کیا تو اللہ تمھیں اس دنیا میں عذاب دے گا اور آخرت میں بھی تمھیں جہنم میں داخل کرے گا ، لہٰذا ان کی وعید کے مطابق تم دنیا میں بھی اس عذاب کا ضرور سامنا کرو گے۔ یہ اس صاحب ایمان شخص اور اس کی طرف سے حضرت موسیٰu کی مدافعت کا نہایت لطیف پیرا یہ ہے کہ اس نے ان لوگوں کو ایسا جواب دیا جو ان کے لیے کسی تشویش کا باعث نہ تھا۔ پس اس نے معاملے کا دارومدار ان مذکورہ دو حالتوں پر رکھا اور دونوں لحاظ سے جناب موسیٰ کا قتل ان کی سفاہت اور جہالت تھی۔ پھر وہ صاحب ایمان شخص...رَضِیَ اللّہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ وَغَفَرَلَہُ وَرَحِمَہُ… اس بارے میں، ایک ایسے معاملے کی طرف منتقل ہوا جو اس سے بہتر اور حضرت موسیٰu کے حق کے قریب ہونے کو زیادہ واضح کرتا ہے، چنانچہ اس نے کہا: ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ ﴾ ’’بے شک اللہ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھا ہوا ہو‘‘ یعنی جو حق کو ترک اور باطل کی طرف متوجہ ہوکر تمام حدیں پھلانگ جاتا ہے۔ ﴿كَذَّابٌ ﴾ ’’جھوٹا ہو۔‘‘ جو حدود سے تجاوز پر مبنی اپنے موقف کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ راہ صواب نہیں دکھاتا نہ اس کے مدلول میں اور نہ اس کی دلیل میں اور نہ اسے راہ راست کی توفیق ہی سے بہرہ مند کرتا ہے۔ تم نے دیکھ لیا ہے کہ موسیٰu نے حق کی طرف دعوت دی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی راہنمائی کی اور انھوں نے عقلی دلائل و براہین اور آسمانی معجزات کے ذریعے سے اس حق کو واضح کر دیا… جسے یہ راستہ مل جائے، ممکن نہیں کہ وہ حد سے تجاوز کرنے والا اور کذاب ہو، یہ اس کے کامل علم و عقل اور اس کی معرفت الٰہی کی دلیل ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[28]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List