Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
35
SuraName
تفسیر سورۂ فاطر
SegmentID
1268
SegmentHeader
AyatText
{40} يقول تعالى معجِّزاً لآلهةِ المشركين ومبيِّناً نقصَها وبطلانَ شِركهم من جميع الوجوه: {قُلْ} يا أيُّها الرسول لهم: {أرأيتُم}؛ أي: أخْبِروني عن شركائكُم {الذين تدعونَ من دونِ الله}: هل هم مستحقُّون للدعاء والعبادةِ؟! فأروني {ماذا خَلَقوا من الأرضِ}: هل خَلَقوا بحراً أم خلقوا جبالاً أو خلقوا حيواناً أو خلقوا جماداً؟! سيقرُّون أنَّ الخالقَ لجميع الأشياء هو الله تعالى. أم لشركائِكُم {شركٌ في السمواتِ}: في خلقها وتدبيرها؟! سيقولون: ليس لهم شركةٌ! فإذا لم يخلقْ شيئاً ولم يَشْركوا الخالقَ في خلقه؛ فلم عبدتُموهم ودعوتُموهم مع إقراركم بعجزهم؟! فانتفى الدليل العقليُّ على صحَّةِ عبادتهم، ودلَّ على بطلانها. ثم ذكر الدليل السمعيَّ، وأنَّه أيضاً منتفٍ، فلهذا قال: {أم آتَيْناهم كتاباً}: يتكلَّم بما كانوا به يشرِكون؛ يأمُرُهم بالشركِ وعبادةِ الأوثان. {فهم}: في شركهم {على بينةٍ}: من ذلك الكتاب الذي نَزَلَ عليهم في صحة الشرك، ليس الأمر كذلك؛ فإنَّهم ما نزل عليهم كتابٌ قبلَ القرآن، ولا جاءهم نذيرٌ قبل رسول الله محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، ولو قُدِّرَ نزولُ كتاب إليهم وإرسالُ رسول إليهم وزعموا أنَّه أمَرَهم بشِرْكِهِم؛ فإنَّا نجزِمُ بكذِبِهم؛ لأنَّ الله قال: {وما أرْسَلْنا من قبلِكَ من رسول إلاَّ نوحي إليه أنَّه لا إله إلاَّ أنا فاعبدونِ}: فالرسلُ والكتبُ كلُّها متفقةٌ على الأمر بإخلاص الدين لله تعالى: {وما أُمِروا إلاَّ لِيَعْبُدوا اللهَ مخلِصينَ له الدينَ حنفاءَ}. فإنْ قيلَ: إذا كان الدليل العقليُّ والنقليُّ قد دلاَّ على بطلان الشرك؛ فما الذي حمل المشركين على الشركِ وفيهم ذوو العقول والذكاء والفطنة؟! أجاب تعالى بقوله: {بل إن يَعِدُ الظالمون بعضُهم بعضاً إلاَّ غروراً}؛ أي: ذلك الذي مَشَوْا عليه ليس لهم فيه حُجَّةٌ، وإنَّما ذلك توصيةُ بعضهم لبعضٍ به، وتزيينُ بعضِهِم لبعضٍ، واقتداءُ المتأخِّر بالمتقدِّم الضالِّ، وأماني منَّاها الشياطين، وزيَّنَ لهم سوءَ أعمالهم ، فنشأت في قلوبهم، وصارتْ صفةً من صفاتها، فعَسُرَ زوالُها وتعسَّرَ انْفِصالها، فحصل ما حَصَلَ من الإقامة على الكفر والشرك الباطل المضمحلِّ.
AyatMeaning
[40] اللہ تبارک وتعالیٰ مشرکین کے خود ساختہ معبودوں کی بے بسی، ان کے نقص اور ہر لحاظ سے ان کے شرک کے بطلان کو واضح کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿قُ٘لْ ﴾ یعنی اے رسول! ان سے کہہ دیجیے: ﴿اَرَءَیْتُمْ ﴾ مجھے اپنے شریکوں کے بارے میں آگاہ کرو ﴿شُ٘رَؔكَآءَكُمُ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ﴾ ’’جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔‘‘ کیا وہ دعا اور عبادت کے مستحق ہیں؟ ﴿اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ ﴾ ’’مجھے دکھاؤ انھوں نے زمین سے کون سی چیز پیدا کی ہے؟‘‘ آیا انھوں نے سمندروں کو پیدا کیا ہے یا پہاڑوں کو؟ انھوں نے حیوانات کو پیدا کیا ہے یا جمادات کو؟ وہ اس حقیقت کا اقرار کریں گے کہ ان تمام چیزوں کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ کیا تمھارے خود ساختہ شریکوں کے لیے ﴿فِی السَّمٰوٰتِ ﴾ آسمانوں کی تخلیق و تدبیر میں کوئی حصہ ہے؟ وہ یہی جواب دیں گے کہ تخلیق و تدبیر کائنات میں ان کا کوئی حصہ نہیں… جب ان خود ساختہ معبودوں نے کوئی چیز پیدا کی ہے نہ خالق کی تخلیق میں یہ شریک ہیں تو پھر تم ان کی بے بسی کا اقرار کرنے کے باوجود ان کو کیوں پکارتے اور ان کی کیوں عبادت کرتے ہو؟ پس ان کی عبادت کے جواز کی دلیل ختم ہو گئی اور ان کی عبادت کا بطلان ثابت ہو گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی عبادت کے جواز کی سمعی دلیل کا ذکر کرتے ہوئے اس کا بھی ابطال فرمایا: ﴿اَمْ اٰتَیْنٰهُمْ كِتٰبًا ﴾ ’’کیا ہم نے انھیں کوئی کتاب دی ہے‘‘ جو ان کے شرک کو جائز قرار دیتی ہو یا انھیں شرک اور بتوں کی عبادت کا حکم دیتی ہو ﴿فَهُمْ ﴾ اور وہ اپنے شرک کے بارے میں ﴿عَلٰى بَیِّنَتٍ ﴾ کسی دلیل پر ہوں یعنی اس نازل شدہ کتاب میں کوئی ایسی چیز ہو جو شرک کے جواز اور اس کے صحیح ہونے کو ثابت کرتی ہو؟ معاملہ ایسے نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم سے پہلے ان پر کوئی کتاب نازل نہیں کی گئی اور نہ محمد مصطفیٰ e سے قبل ان کی طرف کوئی رسول ہی مبعوث کیا گیا ہے۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ ان پر کوئی کتاب نازل کی گئی ہے اور ان کی طرف کوئی رسول مبعوث کیا گیا ہے جس نے ان کے زعم کے مطابق، انھیں شرک کا حکم دیا ہے، تب بھی ہمیں قطعی یقین ہے کہ یہ جھوٹ کہتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْۤ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰ٘هَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ﴾ (الانبیاء:21؍25) ’’اور ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجا ہم نے اس کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس صرف میری عبادت کرو۔‘‘ لہذا تمام انبیاء و مرسلین اور تمام آسمانی کتابیں اس امر پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دین میں اخلاص کا حکم دیا ہے۔ ﴿وَمَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ١ۙ۬ حُنَفَآءَ﴾ (البینۃ:98؍5) ’’اور انھیں صرف یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ یکسو ہو کر اور دین کو صرف اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں۔‘‘ اگر یہ کہا جائے کہ جب عقلی اور نقلی دلائل شرک کے بطلان پر دلالت کرتے ہیں تب وہ کون سی چیز ہے جو مشرکین کو شرک پر آمادہ کرتی ہے حالانکہ ان کے اندر عقل مند اور ذہین و فطین لوگ بھی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا: ﴿بَلْ اِنْ یَّعِدُ الظّٰلِمُوْنَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا اِلَّا غُ٘رُوْرًا ﴾ ’’بلکہ یہ ظالم ایک دوسرے سے نرے دھوکے کی باتوں کا وعدہ کرتے ہیں‘‘ یعنی یہ وہ مسلک ہے جس پر گامزن ہونے والے لوگوں کے پاس کوئی دلیل نہیں، محض ایک دوسرے کو اس کی تلقین کرتے ہیں، ایک دوسرے کی باتوں کو آراستہ کرتے ہیں، متاخرین گمراہ متقدمین کی اقتدا کرتے ہیں، یہ جھوٹی آرزوئیں ہیں جو شیاطین انھیں دلاتے ہیں اور ان کے برے اعمال ان کے سامنے سجاتے ہیں۔ یہ برے اعمال ان کے قلوب میں جڑ پکڑ لیتے ہیں اور ان کی صفت بن جاتے ہیں تب ان کو زائل اور ختم کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور کفر اور شرک پر جمے رہنے سے وہ نتائج حاصل ہوتے ہیں جو سامنے ہیں۔
Vocabulary
AyatSummary
[40]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List