Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 139
- SegmentHeader
- AyatText
- {256} هذا بيان لكمال هذا الدين الإسلامي، وأنه لكمال براهينه، واتضاح آياته وكونه هو دين العقل والعلم ودين الفطرة والحكمة ودين الصلاح والإصلاح ودين الحق والرشد، فلكماله وقبول الفطر له لا يحتاج إلى الإكراه عليه، لأن الإكراه إنما يقع على ما تنفر عنه القلوب، ويتنافى مع الحقيقة والحق أو لما تخفى براهينه وآياته، وإلا فمن جاءه هذا الدين ورده ولم يقبله فإنه لعناده، فإنه {قد تبين الرشد من الغي} فلم يبق لأحد عذر ولا حجة إذا رده ولم يقبله. ولا منافاة بين هذا المعنى وبين الآيات الكثيرة الموجبة للجهاد، فإن الله أمر بالقتال ليكون الدين كله لله، ولدفع اعتداء المعتدين على الدين، وأجمع المسلمون على أن الجهاد ماضٍ مع البر والفاجر، وأنه من الفروض المستمرة الجهاد القولي والجهاد الفعلي، ومن ظن من المفسرين أن هذه الآية تنافي آيات الجهاد فجزم بأنها منسوخة فقوله ضعيف لفظاً ومعنى كما هو واضح بين لمن تدبر الآية الكريمة كما نبهنا عليه. ثم ذكر الله انقسام الناس إلى قسمين: قسم آمن بالله وحده لا شريك له وكفر بالطاغوت ـ وهو كل ما ينافي الإيمان بالله من الشرك وغيره ـ فهذا قد {استمسك بالعروة الوثقى} التي لا انفصام لها، بل هو مستقيم على الدين الصحيح حتى يصل به إلى الله وإلى دار كرامته. ويؤخذ القسم الثاني من مفهوم الآية أن من لم يؤمن بالله بل كفر به وآمن بالطاغوت فإنه هالك هلاكاً أبدياً ومعذب عذاباً سرمدياً. وقوله {والله سميع}؛ أي: لجميع الأصوات باختلاف اللغات على تفنن الحاجات، وسميع لدعاء الداعين وخضوع المتضرعين. {عليم}؛ بما أكنته الصدور، وما خفي من خفايا الأمور، فيجازي كل أحد بحسب ما يعلمه من نياته وعمله.
- AyatMeaning
- [256] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں۔ اس کی ضرورت بھی نہیں۔ کیونکہ زبردستی تو اس کام کے لیے کی جاتی ہے جس کے حقائق واضح نہ ہوں یا جو کام انتہائی ناپسندیدہ ہو۔ اس صراط مستقیم کا تو ہر گوشہ واضح ہے۔ اس کا چپہ چپہ روشن ہے۔ کوئی بھی سمجھ دار آدمی معمولی سا غوروفکر کرے تو اسے قبول کرنے پر آمادہ ہوجائے گا۔ لیکن جس کی نیت درست نہ ہو، غلط ارادے رکھتا ہوا، ایسا بدظن آدمی حق کو دیکھ کربھی باطل کو اختیار کرلیتا ہے۔ اچھی چیز کو دیکھ کر پھر گندی چیز کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ اسے دین کو قبول کرنے پر مجبور کرے کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور زبردستی قبول کرایا ایمان معتبر بھی نہیں۔ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ جو کافر مسلمانوں سے لڑتے ہیں ان کے خلاف جہاد نہ کیا جائے۔ یہ آیت تو صرف یہ بات واضح کرتی ہے کہ دین بنیادی طورپر ایسی چیز ہے کہ ہر انصاف پسند اسے قبول کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ جنگ کرنے یا نہ کرنے کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ مسئلہ دوسری نصوص سے ثابت ہے۔ البتہ اس سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ یہودونصاریٰ کے علاوہ دوسرے غیر مسلموں سے بھی جزیہ لینا درست ہے۔ جیسا کہ بہت سے علماء کا قول ہے۔ لہٰذا جو شخص غیر اللہ کی عبادت اور شیطان کی اطاعت ترک کرکے اللہ پر صحیح ایمان لے آئے جس کے نتیجے میں وہ اللہ کی عبادت و اطاعت پر قائم ہوجائے ﴿ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْ٘عُرْوَةِ الْوُثْ٘قٰى﴾ ’’تو اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا۔‘‘ یعنی ایسا پختہ دین اختیار کرلیا، جس کی بنیادیں بھی مضبوط ہیں اور عمارت بھی۔ وہ پورے اعتماد سے اس پر قائم رہتا ہے کیونکہ اس نے ایسا مضبوط کڑا تھام لیا ہے ﴿ لَاانْفِصَامَ لَهَا﴾ ’’جو کبھی نہ ٹوٹے گا۔‘‘ اس کے برعکس جو شخص اللہ کا انکار کرکے شیطانوں پر یقین رکھتا ہے اس نے اس مضبوط کڑے کو چھوڑ دیا، جس کے ذریعے سے نجات حاصل ہوسکتی ہے اور ایسے باطل کو پکڑ لیا جو اسے جہنم میں لے جائے گا۔ ﴿ وَاللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾ ’’اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘ وہ ہر ایک کے نیک و بد اعمال سے واقف ہے لہٰذا اس کے مطابق جزا و سزا دے گا۔ اس کڑے کو پکڑنے والے اور نہ پکڑنے والے کا یہی انجام ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [256
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF