Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 28
- SuraName
- تفسیر سورۂ قصص
- SegmentID
- 1116
- SegmentHeader
- AyatText
- AyatMeaning
- قصۂ موسیٰu سے بعض فوائد اور عبرتوں کا استنباط m آیات الٰہی، اللہ تعالیٰ کے نشانات عبرت اورگزشتہ قوموں میں اس کے ایام سے صرف اہل ایمان ہی فائدہ اٹھاتے اور روشنی حاصل کرتے ہیں ۔ بندۂ مومن اپنے ایمان کے مطابق عبرت حاصل کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انھی کی خاطر گزشتہ قوموں کے قصے بیان کرتا ہے۔ رہے دیگر لوگ تو اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی پروا نہیں ، ان کے نصیب میں روشنی ہے نہ ہدایت۔ m اللہ تبارک و تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے لیے اسباب مہیا کر دیتا ہے اور اسے یک لخت منصۂ شہود پر نہیں لاتا بلکہ بتدریج آہستہ آہستہ وجود میں لاتا ہے۔ m ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مستضعفین خواہ کمزوری اور محکومی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہوں ان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ سستی اور مایوسی کا شکار ہو کر اپنے حقوق کے حصول اور بلند مقاصد کے لیے جدوجہد کو چھوڑ دیں خاص طور پر جبکہ وہ مظلوم ہوں ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل جیسی کمزور اور محکوم قوم کو فرعون اور اس کے سرداروں کی غلامی سے نجات دی، پھر انھیں زمین میں اقتدار بخشا اور انھیں اپنے شہروں کا مالک بنایا۔ m ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جب تک قوم مقہور و محکوم رہتی ہے اور اپنے حقوق حاصل کرتی ہے نہ ان کا مطالبہ کرتی ہے اس کے دین و دنیا کا معاملہ درست نہیں ہوتا اور نہ وہ دین میں امامت سے سرفراز ہوتی ہے۔ m حضرت موسیٰu کی والدہ ماجدہ پر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم تھا کہ اس نے اس بشارت کے ذریعے سے ان کی مصیبت کو آسان کر دیا کہ وہ ان کو ان کا بیٹا واپس لوٹائے گا اور اسے رسول بنائے گا۔ m یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندے کے لیے بعض سختیاں مقدر کر دیتا ہے تاکہ مآل کار اسے ان شدائد سے بڑھ کر سرور حاصل ہو یا ان سے بڑا کوئی شر دور ہو، جیسا کہ موسیٰu کی والدہ کو شدید حزن و غم میں مبتلا کیا پھر یہی حزن و غم ان کے لیے اپنے بیٹے تک پہنچنے کا وسیلہ بنا جس سے ان کا دل مطمئن اور آنکھیں ٹھنڈی ہو گئیں اور ان کی فرحت و مسرت میں اضافہ ہوا۔ m ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مخلوق کا طبعی خوف ایمان کے منافی ہے نہ ایمان کو زائل کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰu اور ان کی والدہ کو خوف کے مقام پر خوف لاحق ہوا۔ m اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے اور سب سے بڑی چیز جس سے ایمان میں اضافہ اور یقین کی تکمیل ہوتی ہے، مصائب کے وقت صبر اور شدائد کے وقت ثابت قدمی اور استقامت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لَوْلَاۤ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰى قَلْبِهَا لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (القصص:28؍10) ’’اگر ہم اس کی ڈھارس نہ بندھاتے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے‘‘ یعنی تاکہ حضرت موسیٰu کی والدہ کے ایمان میں اضافہ ہو اور ان کا دل مطمئن ہو۔ m اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر سب سے بڑی نعمت اور بندے کے معاملات میں اس کی طرف سے سب سے بڑی اعانت یہ ہے کہ وہ اس کو اپنی طرف سے ثابت قدمی اور استقامت سے سرفراز کرے، خوف اور اضطراب کے وقت اس کے دل کو قوت عطا کرے کیونکہ اسی صورت میں بندۂ مومن صحیح قول و فعل پر قادر ہو سکتا ہے اس کے برعکس جو شخص پریشانی، خوف اور اضطراب کا شکار ہے اس کے افکار ضائع اور اس کی عقل زائل ہو جاتی ہے اور وہ اس حال میں اپنے آپ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ m اگر بندے کو اس حقیقت کی معرفت حاصل ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر اور اس کے وعدے کا نفاذ لازمی امر ہے، تب بھی وہ اسباب کو ترک نہ کرے اور یہ چیز، اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی خبر پر ایمان کے منافی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰu کی والدہ سے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ انھیں ان کا بیٹا لوٹا دے گا۔ بایں ہمہ وہ اپنے بیٹے کو واپس لینے کے لیے کوشش کرتی رہیں انھوں نے اپنی بیٹی کو بھیجا کہ حضرت موسیٰu کے پیچھے پیچھے جائے اور دیکھے کہ وہ کہاں جاتا ہے۔ m اس قصہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ عورت کا اپنی ضروریات کے لیے گھر سے باہر نکلنا اور مردوں سے ہم کلام ہونا جائز ہے جیسا کہ حضرت موسیٰu کی بہن اور صاحب مدین کی بیٹیوں کے ساتھ پیش آیا۔ m اس قصہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کفالت اور رضاعت پر اجرت لینا جائز ہے اور جو اس طرح کرتا ہے، اس کے لیے دلیل ہے۔ m ان آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اپنے کمزور بندے کو، جسے وہ اپنے اکرام و تکریم سے سرفراز کرنا چاہتا ہے، اسے اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور واضح دلائل کا مشاہدہ کراتا ہے جن سے اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ موسیٰu کو ان کی والدہ کے پاس لوٹا دیا تاکہ انھیں معلوم ہو جائے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ m اس قصہ سے ثابت ہوا کہ ایسے کافر کو، جو کسی معاہدے اور عرف کی بنا پر ذمی ہو، قتل کرنا جائز نہیں کیونکہ حضرت موسیٰu نے کافر قبطی کے قتل کو گناہ شمار کیا اور اس پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی۔ m اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جو کوئی لوگوں کو ناحق قتل کرتا ہے، وہ ان جابروں میں شمار ہوتا ہے جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ۔ m نیز جو کوئی لوگوں کو ناحق قتل کرتا ہے اور بزعم خود زمین میں اصلاح کرتا ہے اور اہل معاصی کو ہیبت زدہ کرتا ہے، وہ جھوٹا اور فساد برپا کرنے والا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قبطی کا قول نقل فرمایا: ﴿ اِنْ تُرِیْدُ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ جَبَّارًؔا فِی الْاَرْضِ وَمَا تُرِیْدُ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْمُصْلِحِیْنَ﴾ (القصص:28؍19) ’’تو زمین میں صاحب جبرو استبداد بن کر رہنا چاہتا ہے تو اصلاح کرنا نہیں چاہتا۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ قول انکار کے لیے نہیں بلکہ تحقیق و تقریر کے لیے نقل فرمایا ہے۔ m کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کو اس کے بارے میں خبر دینا کہ اس کے خلاف کوئی منصوبہ بن رہا ہے تاکہ وہ اس کے شر سے بچ سکے، چغلی اور غیبت کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ بلکہ بسا اوقات ایسا کرنا واجب ہے جیسا کہ اس (درباری) شخص نے خیرخواہی کے طور پر اور حضرت موسیٰu کو بچانے کے لیے دربار فرعون کے منصوبے کے بارے میں حضرت موسیٰu کو آگاہ کیا تھا۔ m جب کسی جگہ قیام کرنے میں جان و مال کا خطرہ ہو تو انسان کو اپنے آپ کو ہلاکت میں نہیں ڈالنا چاہیے اور نہ اپنے آپ کو ہلاکت کے حوالے کرنا چاہیے بلکہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے وہاں سے نکل جانا چاہیے، جیسا کہ حضرت موسیٰu مصر سے فرار ہوئے۔ m جب انسان کو دو برائیوں کا سامنا ہو اور ان میں سے کسی ایک کو اختیار كيے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو وہ خفیف تر برائی کو اختیار کرے جس میں قدرے زیادہ سلامتی ہو۔ جیسے موسیٰu کا معاملہ دو امور کے مابین تھا: 1 مصر میں رہتے مگر اس صورت میں یقینا قتل کر دیے جاتے۔ 2 یا دور کسی شہر میں چلے جاتے جس کا راستہ بھی انھیں معلوم نہ تھا اور ان کے رب کے سوا کوئی راہنمائی کرنے والا بھی ان کے ساتھ نہ تھا مگر اس صورت حال میں ، مصر میں رہنے کی نسبت، مصر چھوڑ جانے میں سلامتی کی زیادہ توقع تھی۔ m علم میں شغف رکھنے والے کو جب کبھی علمی بحث کی ضرورت پیش آئے، دو اقوال میں سے کوئی قول اس کے نزدیک راجح نہ ہو تو وہ اپنے رب سے ہدایت کی استدعا کرے کہ وہ اس کی راہ صواب کی طرف راہنمائی کرے، اپنے دل میں حق کو مقصود و مطلوب بنائے رکھے اور حق ہی کو تلاش کرے اور جس کا یہ حال ہو اللہ تعالیٰ اس کو کبھی خائب و خاسر نہیں کرتا۔ جیسا کہ موسیٰu نے مصر سے نکل کر مدین کی طرف رخ کیا تو کہنے لگے: ﴿ عَسٰؔى رَبِّیْۤ اَنْ یَّهْدِیَنِیْ سَوَآءَؔ السَّبِیْلِ﴾ (القصص:28؍22) ’’امید ہے میرا رب سیدھے راستے کی طرف میری راہنمائی کرے گا۔‘‘ m ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مخلوق پر رحم کرنا اور جان پہچان رکھنے والے یا اجنبی لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا انبیائے کرام کا اخلاق ہے، پیاسے مویشیوں کو پانی پلانا اور کسی عاجز اور لاچار کی مدد کرنا احسان کے زمرے میں آتا ہے۔ m اپنے حال کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا مستحب ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ کو بندے کے احوال کا علم ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کو بندے کی عاجزی اور اس کے تذلل و مسکنت کا اظہار پسند ہے، جیسا کہ حضرت موسیٰu نے عرض کیا: ﴿ رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ﴾ (القصص:28؍24) ’’اے میرے رب! جو بھلائی بھی تو مجھ پر نازل کرے، میں اس کا ضرورت مند ہوں ۔‘‘ m شرم و حیا، خاص طور پر باعزت لوگوں میں ، ایک قابل مدح صفت ہے۔ m حسن سلوک کا اچھا بدلہ دینا گزشتہ قوموں کا بھی وتیرہ رہا ہے۔ m بندہ جب کوئی کام اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے کرتا ہے اور بغیر کسی قصدوارادے کے اس کو اس کام کا اچھا بدلہ عطا ہو جاتا ہے تو وہ اس پر قابل ملامت نہیں جیسا کہ حضرت موسیٰu نے، صاحب مدین سے، اپنی نیکی کا بدلہ قبول کیا جو انھوں نے کسی عوض کے لیے کی تھی نہ وہ اپنے دل میں کسی عوض کے منتظر تھے۔ m اس قصہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ملازم رکھنا مشروع ہے نیز بکریاں وغیرہ چرانے یا کسی ایسے کام کی اجرت ادا کرنا جائز ہے، جسے کرنے پر وہ قادر نہ ہو۔ اس کا دارومدار عرف عام پر ہے۔ m کسی کام کی اجرت میں کوئی منفعت حاصل کرنا جائز ہے خواہ یہ منفعت نکاح کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو۔ m کسی ایسے شخص سے اس کی بیٹی کے رشتے کی درخواست کرنا، جس نے اسے رشتہ طلب کرنے کا اختیار دے رکھا ہو، جائز ہے اس پر کوئی ملامت نہیں ۔ m بہترین نوکر اور مزدور وہ ہے جو طاقتور اور امانت دار ہو۔ m اپنے خادم اور نوکر سے حسن سلوک سے پیش آنا اور اس سے پُرمشقت کام نہ لینا مکارم اخلاق میں شمار ہوتا ہے۔ کیونکہ فرمایا: ﴿ وَمَاۤ اُرِیْدُ اَنْ اَشُ٘قَّ عَلَیْكَ١ؕ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰؔلِحِیْنَ﴾ (القصص:28؍27) ’’میں تمھیں مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتا اور تم مجھے ان شاء اللہ نیک آدمی پاؤ گے۔‘‘ m آیت کریمہ: ﴿ وَاللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَؔكِیْلٌ﴾ (القصص:28؍28) سے ثابت ہوتا ہے کہ بغیر کسی گواہی کے اجرت کا معاہدہ کرنا جائز ہے۔ m اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰu کے ہاتھ پر واضح نشانات اور ظاہری معجزات جاری كيے، مثلاً:عصا کا سانپ بن جانا، ہاتھ کا بغیر کسی عیب کے سفید ہو جانا اور اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونi کو فرعون کی اذیتوں اور سمندر میں غرق ہونے سے بچانا۔ m انسان کے لیے بدترین سزا یہ ہے کہ وہ برائی میں لوگوں کا امام ہو اور یہ امامت آیات الٰہی اور روشن دلائل کی مخالفت کے مطابق ہوتی ہے جس طرح بہترین نعمت جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو سرفراز فرماتا ہے، یہ ہے کہ وہ اسے نیکی کے راستے میں امامت کے مرتبے پر فائز کرے اور اسے لوگوں کے لیے ہادی اور مہدی بنا دے۔ m ان آیات کریمہ میں رسول اللہ e کی رسالت پر واضح دلیل ہے کیونکہ حضرت رسول مصطفی e نے اس قصہ کو تفصیل کے ساتھ اصل واقعات کے عین مطابق بیان کیا جس کے ذریعے سے آپ نے رسولوں کی تصدیق اور حق مبین کی تائید کی، حالانکہ آپ ان واقعات کے وقت حاضر تھے نہ آپ نے ان مقامات میں سے کسی مقام کا مشاہدہ کیا تھا، آپ نے ان امور کے بارے میں کچھ پڑھا تھا نہ کسی سے درس لیا تھا اور نہ کسی اہل علم کی مجلس میں بیٹھے تھے یہ تو خدائے رحمن و رحیم کی طرف سے رسالت اور وحی ہے جسے بے پایاں احسان کے مالک، اللہ کریم نے نازل کیا تاکہ وہ اس کے ذریعے سے جاہل اور انبیاء و رسل سے غافل قوم کو اس کے برے انجام سے ڈرائے۔ اللہ تعالیٰ کے درود و سلام ہوں اس ہستی پر جس کی مجرد خبر ہی آگاہ کرتی ہے کہ بلاشبہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہے اور جس کے مجرد اوامر و نواہی عقلوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ یہ احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں کیونکر نہ ہوں جبکہ اولین و آخرین کی خبر، اس کی لائی ہوئی خبر اور وحی کی صحت و صداقت کی تائید و تصدیق کرتی ہے۔ وہ شریعت جو رسول اللہ e، اللہ رب العالمین سے لے کر مبعوث ہوئے ہیں ، وہ اخلاق فاضلہ جو آپ کی جبلت میں رکھ دیے گئے، صرف اسی ہستی کے لائق اور اسی کے لیے مناسب ہیں جو اخلاق کے بلند ترین درجہ پر فائز ہو جس کے دین اور امت کو فتح مبین سے سرفراز کیا گیا ہو۔ یہاں تک کہ آپ کا دین اس مقام تک پہنچ گیا جہاں تک سورج طلوع ہوتا اور غروب ہوتا ہے۔ آپ کی امت نے بڑے بڑے شہروں کو شمشیر و سنان کے ذریعے سے اور لوگوں کے دلوں کو علم و ایمان کے ذریعے سے فتح کر لیا۔ تمام معاند قومیں اور شاہان کفار اسلام کے خلاف متحد رہے اس کی روشنی کو بجھانے اور روئے زمین سے اس کو نیست و نابود کرنے کے لیے سازشیں کرتے رہے مگر دین ظاہر اور غالب ہو کر رہا، دین بڑھتا ہی رہا اس کے دلائل و براہین ظاہر ہوتے رہے۔ ہر وقت دین کی ایسی نشانیاں ظاہر ہوتی رہی ہیں ، جو تمام جہانوں کے لیے عبرت، اہل علم کے لیے ہدایت اور فراست مندوں کے لیے روشنی اور بصیرت ہیں ۔ والحمد للہ وحدہ.
- Vocabulary
- AyatSummary
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF