Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
127
SegmentHeader
AyatText
{235} هذا حكم المعتدة من وفاة أو المبانة في الحياة، فيحرم على غير مبينها أن يصرح لها في الخطبة وهو المراد بقوله: {ولكن لا تواعدوهن سرًّا}؛ وأما التعريض فقد أسقط تعالى فيه الجناح، والفرق بينهما أن التصريح لا يحتمل غير النكاح فلهذا حرم خوفاً من استعجالها وكذبها في انقضاء عدتها رغبة في النكاح، ففيه دلالة على منع وسائل المحرم وقضاء لحق زوجها الأول بعدم مواعدتها لغيره مدة عدتها، وأما التعريض وهو الذي يحتمل النكاح وغيره فهو جائز للبائن كأن يقول [لها]: إني أريد التزوج وإني أحب أن تشاوريني عند انقضاء عدتك ونحو ذلك، فهذا جائز لأنه ليس بمنزلة الصريح، وفي النفوس داعٍ قوي إليه، وكذا إضمار الإنسان في نفسه أن يتزوج من هي في عدتها إذا انقضت، ولهذا قال: {أو أكننتم في أنفسكم علم الله أنكم ستذكرونهن}؛ هذا التفصيل كله في مقدمات العقد، وأما عقد النكاح فلا يحل، {حتى يبلغ الكتاب أجله}؛ أي: تنقضي العدة. {واعلموا أن الله يعلم ما في أنفسكم}؛ أي: فانووا الخير ولا تنووا الشرَّ خوفاً من عقابه ورجاء لثوابه، {واعلموا أن الله غفور}؛ لمن صدرت منه الذنوب فتاب منها، ورجع إلى ربه، {حليم}؛ حيث لم يعاجل العاصينَ على معاصيهم مع قدرته عليهم.
AyatMeaning
[235] یہ حکم اس عورت کے بارے میں ہے جو خاوند کی وفات پر عدت گزار رہی ہو یا اسے طلاق دی گئی ہو۔ طلاق دینے والے شوہر کے علاوہ کسی اور کے لیے حرام ہے کہ وہ صریح الفاظ میں اسے نکاح کا پیغام دے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَلٰكِنْ لَّا تُوَاعِدُوْهُنَّ۠ سِرًّا ﴾ ’’ لیکن تم ان سے وعدہ مت کرو، چھپ کر‘‘ سے یہی مراد ہے۔ رہی تعریض (اشارے کنایے سے نکاح کی بات کرنا) تو اللہ تعالیٰ نے اس میں گناہ کو ساقط کر دیا ہے۔ اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ تصریح صرف نکاح کے معنی کی محتمل ہوتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے تصریح کو حرام قرار دیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کہیں عورت جلدی نکاح کرنے کے لیے عدت پوری ہونے کے سلسلے میں جھوٹ نہ بولے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حرام کی طرف لے جانے والے وسائل بھی ممنوع ہیں، نیز عدت کی مدت کے دوران خاوند کے علاوہ کسی اور مرد سے نکاح کے وعدے کا سدباب کر کے، پہلے خاوند کے حق کو برقرار رکھا ہے۔ رہی تعریض تو اس میں نکاح کے علاوہ دیگر معانی کا احتمال بھی ہو سکتا ہے اور یہ تعریض بائنہ عورت کے لیے بھی جائز ہے، جیسے کوئی کہے ’’میں نکاح کا ارادہ رکھتا ہوں۔ جب تمھاری عدت پوری ہو جائے تو مجھ سے مشورہ کر لینا‘‘ تو یہ جائز ہے، اس لیے کہ تعریض تصریح کی مانند نہیں ہے اور نفوس انسانی کے اندر اس کا قوی داعیہ موجود ہے۔ اسی طرح انسان کا اپنے دل میں یہ ارادہ چھپا کر رکھنا بھی جائز ہے کہ وہ فلاں عورت، جو عدت گزار رہی ہے اس کی عدت ختم ہونے کے بعد وہ اس کے ساتھ نکاح کرے گا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَوْ اَكْنَنْتُمْ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ١ؕ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّـكُمْ سَتَذْكُرُوْنَ٘هُنَّ ﴾ ’’یا چھپا کر رکھو تم اپنے نفسوں میں۔ اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور ان کو یاد کرو گے‘‘ یہ تمام تفصیلات عقد کے مقدمات میں شمار ہوتی ہیں۔ (لہٰذا جائز ہیں) رہا عقد نکاح تو یہ جائز نہیں ﴿حَتّٰی یَبْلُغَ الْكِتٰبُ اَجَلَهٗ ﴾ ’’جب تک کہ عدت پوری نہ ہو جائے‘‘ ﴿ وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ ﴾ ’’اور جان لو، اللہ ان باتوں کو جانتا ہے جو تمھارے دلوں میں ہیں‘‘ اس لیے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے خوف اور اس کے ثواب کی امید میں ہمیشہ بھلائی کی نیت رکھو اور کبھی بھی برائی کی نیت نہ رکھو ﴿وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ﴾ ’’اور جان لو کہ اللہ بخشنے والا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کے گناہوں کو بخش دیتا ہے جو توبہ کر کے اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے ﴿ حَلِیْمٌ ﴾ ’’وہ بردبار ہے‘‘ کیونکہ گناہ گاروں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کو پکڑنے کی قدرت رکھنے کے باوجود ان کو پکڑنے میں جلدی نہیں کرتا۔
Vocabulary
AyatSummary
[235
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List