Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
24
SuraName
تفسیر سورۂ نور
SegmentID
1054
SegmentHeader
AyatText
{61} يخبر تعالى عن منَّته على عبادِهِ، وأنَّه لم يجعلْ عليهم في الدين من حرج، بل يسَّره غاية التيسير، فقال: {ليس على الأعمى حَرَجٌ ولا على الأعرجِ حَرَجٌ ولا على المريضِ حَرَجٌ}؛ أي: ليس على هؤلاء جُناح في ترك الأمور الواجبة التي تتوقَّف على واحدٍ منها، وذلك كالجهاد ونحوه مما يتوقَّف على بصر الأعمى أو سلامة الأعرج أو صحَّة المريض، ولهذا المعنى العامِّ الذي ذَكَرْناه؛ أطلقَ الكلامَ في ذلك، ولم يقيِّدْ؛ كما قيَّدَ قوله: {ولا على أنفسكم}؛ أي: حرج، {أن تأكلوا مِن بيوتكم}؛ أي: بيوت أولادكم. وهذا موافقٌ للحديث الثابت: «أنت ومالُكَ لأبيك» ، والحديث الآخر: «إنَّ أطيبَ ما أكلتُم من كسبِكُم، وإنَّ أولادَكُم من كسبِكُم». وليس المرادُ من قولِهِ: {من بيوتِكُم}: بيت الإنسان نفسه؛ فإنَّ هذا من باب تحصيل الحاصل، الذي يُنَزَّهُ عنه كلامُ الله، ولأنَّه نفي الحرج عمَّا يُظَنُّ أو يتوهَّمُ فيه الإثمُ من هؤلاء المذكورين، وأمَّا بيتُ الإنسان نفسه؛ فليس فيه أدنى توهُّم. {أو بيوتِ آبائِكُم أو بيوت أمَّهاتِكم أو بيوتِ إخوانِكم أو بيوت أخَواتِكُم أو بيوتِ أعمامِكُم أو بيوتِ عَمَّاتِكُم أو بيوتِ أخْوالِكُم أو بيوتِ خالاتكم}: وهؤلاء معروفون. {أو ما مَلَكْتُم مفاتِحَهُ}؛ أي: البيوت التي أنتم متصرِّفون فيها بوكالةٍ أو ولايةٍ ونحو ذلك، وأمَّا تفسيرُها بالمملوك؛ فليس بوجيه؛ لوجهين: أحدِهما: أنَّ المملوكَ لا يُقال فيه: ملكتَ مفاتِحَهُ، بل يقال: ما ملكْتُموه، أو: ما ملكت أيمانُكم؛ لأنَّهم مالكونَ له جملةً، لا لمفاتِحِهِ فقط. والثاني: أنَّ بيوتَ المماليك غيرُ خارجةٍ عن بيت الإنسان نفسه؛ لأنَّ المملوك وما مَلَكَه لسيِّده؛ فلا وجه لنفي الحَرَج عنه. {أو صديقِكُم}: وهذا الحرج المنفيُّ من الأكل من هذه البيوت؛ كلُّ ذلك إذا كان بدون إذنٍ، والحكمةُ فيه معلومةٌ من السياق؛ فإن هؤلاء المسمَّيْن قد جرتِ العادةُ والعرفُ بالمسامحة في الأكل منها؛ لأجل القرابة القريبة أو التصرُّف التامِّ أو الصَّداقة؛ فلو قُدِّرَ في أحدٍ من هؤلاء عدم المسامحة والشحُّ في الأكل المذكور؛ لم يَجُزِ الأكلُ ولم يرتَفِع الحرجُ نظراً للحكمة والمعنى. وقوله: {ليس عليكم جُناحٌ أن تَأكُلوا جميعاً أو أشتاتاً}؛ فكلُّ ذلك جائزٌ؛ أكلُ أهل البيت الواحد جميعاً، أو أكلُ كلِّ واحدٍ منهم وحدَه، وهذا نفيٌ للحرج لا نفيٌ للفضيلة، وإلاَّ؛ فالأفضل الاجتماع على الطعام. {فإذا دَخَلْتُم بيوتاً}: نكرة في سياق الشرط؛ يشمَلُ بيتَ الإنسان وبيتَ غيرِهِ، سواء كان في البيت ساكنٌ أم لا؛ فإذا دَخَلَها الإنسان؛ {فسلِّموا على أنفُسِكُم}؛ أي: فَلْيُسَلِّمْ بعضُكم على بعضٍ؛ لأنَّ المسلمين كأنَّهم شخصٌ واحدٌ من توادِّهم وتراحُمهم وتعاطُفهم؛ فالسلامُ مشروعٌ لدخول سائر البيوت؛ من غير فرقٍ بين بيتٍ وبيتٍ، والاستئذانُ تقدَّم أن فيه تفصيلاً في أحكامه، ثم مدح هذا السلام، فقال: {تحيَّةً من عند الله مباركةً طيبةً}؛ أي: سلامكم بقولِكم: السلامُ عليكُم ورحمةُ الله وبركاتُه، أو: السلامُ علينا وعلى عباد الله الصالحين؛ إذْ تدخُلون البيوتَ {تحيةً من عند الله}؛ أي: قد شرعها لكم وجعلها تحيَّتَكُم، {مباركةً}: لاشتمالها على السلامة من النقص وحصول الرحمة والبركة والنَّماء والزيادة، {طيبة}: لأنها من الكَلِم الطيِّب المحبوب عند الله، الذي فيه طيبُ نفس للمحيَّا ومحبَّة وجلب مودَّة. لما بيَّن لنا هذه الأحكام الجليلة؛ قال: {كذلك يبيِّنُ الله لكم الآياتِ}: الدَّالاَّت على أحكامِهِ الشرعيَّة وحِكَمِها {لعلَّكم تعقلونَ}: عنه؛ فتفهَمونها وتعقِلونها بقُلوبكم، ولتكونوا من أهل العقول والألباب الرَّزينةِ؛ فإنَّ معرفة أحكامه الشرعيَّة على وجهها يزيدُ في العقل ويَنْمو به اللُّبُّ؛ لكون معانيها أجلَّ المعاني وآدابها أجلَّ الآداب، ولأنَّ الجزاء من جنس العمل؛ فكما استعمل عقلَه للعقل عن ربِّه وللتفكُّر في آياته التي دعاه إليها؛ زاده من ذلك. وفي هذه الآيات دليلٌ على قاعدةٍ عامَّةٍ كليَّةٍ، وهي: أنَّ العرف والعادة مخصِّص للألفاظ؛ كتخصيص اللفظ للفظ؛ فإنَّ الأصل أن الإنسان ممنوع من تناول طعام غيره مع أنَّ الله أباح الأكل من بيوت هؤلاء للعُرف والعادةِ؛ فكلُّ مسألة تتوقَّف على الإذن من مالك الشيء إذا عُلِمَ إذنُه بالقول أو العُرف؛ جاز الإقدام عليه. وفيها: دليلٌ على أنَّ الأب يجوزُ له أن يأخُذَ ويتملَّك من مال ولدِهِ ما لا يضرُّه؛ لأنَّ الله سمَّى بيتَه بيتاً للإنسان. وفيها: دليلٌ على أن المتصرِّفَ في بيت الإنسان كزوجتِهِ وأختِهِ ونحوِهما يجوزُ لهما الأكل عادةً وإطعامُ السائل المعتاد. وفيها: دليلٌ على جوازِ المشاركة في الطعام، سواء أكلوا مجتمعينَ أو متفرِّقين، ولو أفضى ذلك إلى أن يأكُلَ بعضُهم أكثر من بعض.
AyatMeaning
[61] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنی عنایات کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے ان کو دین کے معاملے میں کسی حرج میں مبتلا نہیں کیا بلکہ اس نے دین کو بے حد آسان کر دیا ہے، چنانچہ فرمایا:﴿ لَ٘یْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الْ٘مَرِیْضِ حَرَجٌ ﴾ ’’اندھے پر، لنگڑے پر اور مریض پر کوئی حرج نہیں ۔‘‘ یعنی ان لوگوں پر، ان امور واجبہ کو ترک کرنے میں جن کا دارومدار ان میں سے کسی ایک پر ہوتا ہے ، مثلاً: جہاد وغیرہ جن کا دارومدار بصارت، لنگڑے پن سے صحیح ہونا یا مریض کی صحت پر ہے اس عام معنی ہی کی وجہ سے، جس کا ہم نے ذکر کیا ہے، اس میں کلام مطلق کیا گیا ہے اور اس کو مقید نہیں فرمایا جس طرح کہ اس نے اپنے اس ارشاد میں مقید فرمایا ہے۔ ﴿ وَّلَا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ ﴾ یعنی خود تم پر کوئی حرج نہیں ﴿ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ بُیُوْتِكُمْ ﴾ ’’اس بات میں کہ تم کھاؤ اپنے گھروں سے۔‘‘ یعنی تم پر اپنی اولاد کے گھروں میں سے کھانے میں بھی کوئی حرج نہیں یہ آیت کریمہ اس حدیث صحیح کے موافق ہے۔ آپ نے فرمایا: (اَنْتَ وَمَالُکَ لِاَبِیْکَ) (سنن ابن ماجہ، التجارات، باب ماللرجل من مال ولدہ، ح:2291)’’تو اور تیرا مال تیرے باپ کی ملکیت ہے۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ e نے فرمایا: (اِنَّ اَطْیَبَ مَا اَکَلْتُمْ مِنْ کَسْبِکُمْ وَ اِنَّ اَوْلَادَکُمْ مِنْ کَسْبِکُمْ) (سنن ابن ماجہ، التجارات، باب ماللرجل من مال ولدہ، ح:2290 و سنن ابی داود، البیوع، باب الرجل یأکل من مال ولدہ، ح:3528) ’’بہترین چیز جو تم کھاتے ہو، تمھاری کمائی ہے اور تمھاری اولاد بھی تمھاری کمائی ہے۔‘‘ اور﴿ مِنْۢ بُیُوْتِكُمْ ﴾ سے مراد خود اپنا گھر نہیں ہے کیونکہ یہ تو تحصیل حاصل ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کا کلام منزہ اور پاک ہے، نیز یہ نفی حرج، ان جگہوں کے بارے میں ہے جہاں گناہ کا گمان یا وہم ہو سکتا ہے۔ رہا انسان کا اپنا گھر تو وہاں گناہ اور حرج کا ادنیٰ سا گمان بھی نہیں ہوسکتا۔ ﴿ اَوْ بُیُوْتِ اٰبَآىِٕكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اُمَّهٰؔتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اِخْوَانِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ عَمّٰؔتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ خٰؔلٰتِكُمْ ﴾ ’’تم پر اپنے باپوں ، اپنی ماؤں ، اپنے بھائیوں ، اپنی بہنوں ، اپنے چچاؤں ، اپنی پھوپھیوں ، اپنے ماموؤں اور اپنی خالاؤں کے گھر سے کھانے پر کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ یہ سب لوگ معروف ہیں ۔﴿ اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗۤ ﴾ ’’یا وہ (گھر) جن کی چابیوں کے تم مالک ہوئے۔‘‘ اس سے مراد وہ گھر ہیں جن میں آپ وکالت یا سرپرستی وغیرہ کی بنا پر تصرف کا اختیار رکھتے ہیں رہا ’’غلام‘‘ سے اس کی تفسیر کرنا تو یہ دو وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔ (۱) غلام کے لیے: ﴿ مَلَكَتْ مَفَاتِحَهٗۤ ﴾ ’’نہیں کہا جاتا بلکہ ﴿ مَا مَلَكْتُمُوْہُ﴾ یا ﴿ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ﴾ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اس گھر کی صرف کنجیوں کے مالک نہیں ہوتے بلکہ وہ تمام گھر کے مالک ہوتے ہیں ۔ (۲) غلاموں کے مکان انسان کے خود اپنے گھر سے باہر نہیں ہیں کیونکہ غلام اور اس کی ہر چیز اس کے آقا کی ملکیت ہے۔ پس یہاں نفی حرج کو بیان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔ ﴿ اَوْ صَدِیْقِكُمْ﴾ ’’یا اپنے دوست کے (گھر) سے۔‘‘ یہ نفی حرج، مذکورہ بالا تمام گھروں میں ، بغیر اجازت کھا پی لینے میں نفی حرج ہے اور اس کی حکمت سیاق کلام سے واضح ہے۔ ان مذکورہ گھروں میں عادت اور عرف عام کے مطابق، قرابت قریبہ، تصرف کامل اور دوستی کی وجہ سے، کھا پی لینے کے معاملے میں مسامحت برتی جاتی ہے۔ اگر ان مذکورہ بالا گھروں میں کھا لینے میں عدم مسامحت اور بخل معلوم ہو جائے تو حکمت اور معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے کھانا پینا جائز ہے نہ حرج ہی رفع ہوتا ہے۔ ﴿ لَ٘یْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًا﴾ ’’نہیں ہے تم پر کوئی گناہ یہ کہ تم اکٹھے کھاؤ یا الگ الگ‘‘ یہ سب جائز ہے ایک گھر کے تمام افراد کا اکٹھے مل کر کھانا یا علیحدہ علیحدہ کھانا ہر طرح سے جائز ہے۔ یہاں حرج کی نفی ہے فضیلت کی نفی نہیں ہے، اس لیے اکٹھے مل کر کھانا افضل ہے۔ ﴿ فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا﴾ ’’جب تم داخل ہو گھروں میں ۔‘‘ یہ سیاق شرط میں نکرہ ہے جو خود اپنے گھر اور دیگر گھروں کو شامل ہے، خواہ گھر میں کوئی سکونت پذیر ہو یا نہ ہو۔ جب تم ان گھروں میں داخل ہوا کرو ﴿ فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ ﴾ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کیا کرو کیونکہ تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے، ایک دوسرے پر مہربانی کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ عاطفت سے پیش آنے میں ، فرد واحد کی مانند ہیں ، لہٰذا کسی فرق و امتیاز کے بغیر تمام گھروں میں داخل ہوتے وقت سلام کرنا مشروع ہے اور اجازت طلبی کے بارے میں گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ اس کے احکام میں تفصیل ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس سلام کی مدح بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ تَحِیَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَؔكَةً طَیِّبَةً ﴾ ’’یہ اللہ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔‘‘ یعنی تمھارا سلام جب تم گھروں میں داخل ہو، ان الفاظ میں ہونا چاہیے۔ (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ) یا (اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ) ﴿ تَحِیَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے تمھارے لیے تحیہ و سلام کے طور پر مشروع کیا ہے﴿ مُبٰرَؔكَةً ﴾ ’’بابرکت۔‘‘ کیونکہ یہ ہر قسم کے نقص سے سلامتی، حصول رحمت، برکت، نمو اور اضافے پر مشتمل ہے﴿ طَیِّبَةً ﴾ ’’پاکیزہ۔‘‘ کیونکہ ان کا شمار ان کلمات طیبہ میں سے ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں جن میں اس شخص کے لیے دلی مسرت، محبت اور مودت ہے جسے سلام کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے یہ احکام جلیلہ واضح کرنے کے بعد فرمایا:﴿ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ ﴾ ’’اسی طرح بیان کرتا ہے اللہ تمھارے لیے اپنی آیتیں ۔‘‘ جو احکام شرعیہ اور ان کی حکمتوں پر دلالت کرتی ہیں ﴿ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ﴾ شاید کہ تم ان آیات کو سمجھو اور اپنے دل میں ان پر غور کرو تاکہ تم عقل و فہم رکھنے والوں میں شامل ہو جاؤ کیونکہ احکام شرعیہ کی معرفت عقل میں اضافہ کرتی ہے اور فہم کو نشوونما دیتی ہے، اس لیے اس کے معانی و آداب سب سے زیادہ جلیل القدر ہیں ، نیز عمل کی جزا اس کی جنس میں سے ہوتی ہے۔ پس جس طرح اس نے اپنے رب کو سمجھنے اور ان آیات میں تفکر و تدبر کرنے کے لیے عقل کو استعمال کیا جن میں اسے تفکر و تدبر کی دعوت دی گئی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی عقل میں اضافہ کر دیا۔ یہ آیات کریمہ ایک عام قاعدہ و کلیہ پر دلالت کرتی ہیں ، وہ قاعدہ و کلیہ یہ ہے: ’’عرف اور عادت الفاظ کی اسی طرح تخصیص کرتے ہیں ، جس طرح لفظ کی تخصیص لفظ کرتا ہے۔‘‘ کیونکہ اصل یہ ہے کہ انسان کے لیے کسی دوسرے کا کھانا ممنوع ہے اس کے باوجود عرف و عادت کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے مذکور لوگوں کے گھروں سے کھانے کی اجازت دی ہے۔ درحقیقت ہر مسئلہ چیز کے مالک کی اجازت پر موقوف ہے، اگر قول یا عرف و عادت کے ذریعے مالک کی اجازت معلوم ہو جائے تو اس پر اقدام جائز ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ باپ کا اپنے بیٹے کے مال میں سے اتنے مال کو اپنی ملکیت میں لے لینا جائز ہے جس سے اس کو ضرر نہ پہنچے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بیٹے کے گھر کو باپ کے گھر سے موسوم کیا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کسی شخص کے گھر میں تصرف کرنے والا، مثلاً:اس کی بیوی اور بہن وغیرہ… تو عادت اور عرف کے مطابق ان کے لیے اس شخص کے گھر سے کھانا پینا اور کسی سائل کو کھلانا جائز ہے۔ اس میں کھانے میں مشارکت کے جواز پر دلیل ہے، خواہ وہ مل کر کھائیں یا متفرق طورپر، خواہ ان میں سے بعض، بعض سے زیادہ کھالیں ۔
Vocabulary
AyatSummary
[61]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List