Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 88
- SegmentHeader
- AyatText
- {179} {ولكم في القصاص حياة}؛ أي: تنحقن بذلك الدماء وتنقمع به الأشقياء، لأن من عرف أنه مقتول إذا قتل لا يكاد يصدر منه القتل، وإذا رُئيَ القاتل مقتولاً انذعر بذلك غيره وانزجر، فلو كانت عقوبة القاتل غير القتل لم يحصل انكفاف الشر الذي يحصل بالقتل، وهكذا سائر الحدود الشرعية فيها من النكاية والانزجار ما يدل على حكمة الحكيم الغفار. ونكر الحياة لإفادة التعظيم والتكثير، ولما كان هذا الحكم لا يعرف حقيقته إلا أهل العقول الكاملة والألباب الثقيلة خصهم بالخطاب دون غيرهم، وهذا يدل على أن الله تعالى يحب من عباده أن يعملوا أفكارهم وعقولهم في تدبر ما في أحكامه من الحكم والمصالح الدالة على كماله وكمال حكمته وحمده وعدله ورحمته الواسعة، وأن من كان بهذه المثابة فقد استحقَّ المدح بأنه من ذوي الألباب الذين وجه إليهم الخطاب وناداهم رب الأرباب، وكفى بذلك فضلاً وشرفاً لقوم يعقلون. وقوله: {لعلكم تتقون}؛ وذلك أن من عرف ربه، وعرف ما في دينه وشرعه من الأسرار العظيمة والحكم البديعة والآيات الرفيعة أوجب له ذلك أن ينقاد لأمر الله، ويعظم معاصيه فيتركها؛ فيستحق بذلك أن يكون من المتقين.
- AyatMeaning
- [179] ﴿ وَلَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰؔوةٌ ﴾ ’’اور تمھارے لیے قصاص میں زندگانی ہے۔‘‘ یعنی قصاص کے قانون سے خون محفوظ ہو جاتے ہیں اور شقی القلب لوگوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے کیونکہ جب قاتل کو معلوم ہو گا کہ قتل کے بدلے اس کو قتل کر دیا جائے گا تو اس سے قتل کا ارتکاب ہونا مشکل ہے۔ اور جب دوسرے لوگ مقتول کے قصاص میں قاتل کو قتل ہوتا دیکھیں گے تو دوسرے لوگ خوفزدہ ہو کر عبرت پکڑیں گے اور قتل کرنے سے باز رہیں گے۔ اگر قاتل کی سزا قصاص (قتل) کے سوا کچھ اور ہوتی تو اس سے شر (برائی) کا انسداد اس طرح نہ ہوتا جس طرح قتل کی سزا سے ہوتا ہے اور اسی طرح تمام شرعی حدود ہیں کہ ان سب میں عبرت پذیری اور انسداد شر کے ایسے پہلو ہیں جو اس اللہ تعالیٰ کی حکمت پر دلالت کرتے ہیں، جو نہایت دانا اور بڑا بخشنے والا ہے۔ ﴿ حَیٰؔوةٌ ﴾ کو نکرہ استعمال کرنا تکثیر اور تعظیم کے لیے ہے اور چونکہ اس حکم کی حقیقت کو صرف وہی لوگ جان سکتے ہیں جو عقل کامل کے مالک ہیں اس لیے دیگر لوگوں کی بجائے انھی لوگوں کو خاص طور پر مخاطب کیا گیا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے احکام میں پوشیدہ حکمتوں، اس کے کمال پر دلالت کرنے والی مصلحتوں، اس کی کامل حمد و حکمت و عدل اور رحمت واسعہ میں تدبر کے لیے اپنی عقل و فکر کو استعمال میں لائیں اور جو کوئی یہ عمل کرتا ہے وہ اس مدح کا مستحق ہے کہ وہ ان عقل مند لوگوں میں سے ہے جن کو اس خطاب میں مخاطب کیا گیا ہے اور جن کو رب ارباب نے پکارا ہے۔ سوچنے سمجھنے والے لوگوں کے لیے یہی فضیلت اور شرف کافی ہے۔ فرمایا: ﴿ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ﴾ ’’تاکہ تم متقی بن جاؤ‘‘ اور یہ تقویٰ اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے رب کو اور اس کے دین و شریعت کے بڑے بڑے اسرار، انوکھی حکمتوں اور بلند مرتبہ نشانیوں کو پہچان لیتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دے، اس کی نافرمانیوں کو بہت بڑی چیز سمجھتے ہوئے انھیں ترک کر دے۔ تب وہ اس بات کا مستحق ہو جاتا ہے کہ اسے اہل تقویٰ میں شمار کیا جائے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [179
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF