Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 16
- SuraName
- تفسیر سورۂ نحل
- SegmentID
- 754
- SegmentHeader
- AyatText
- {26 ـ 27} {قد مَكَرَ الذين من قبلهم}: برسلهم، واحتالوا بأنواع الحيل على ردِّ ما جاؤوهم به، وبنوا من مكرهم قصوراً هائلةً، {فأتى الله بنيانَهم من القواعِدِ}؛ أي: جاءها الأمر من أساسها وقاعدتها، {فخرَّ عليهم السقفُ من فوقِهِم}: فصار ما بَنَوْه عذاباً عُذِّبوا به. {وأتاهُمُ العذابُ من حيثُ لا يشعرونَ}: وذلك أنَّهم ظنُّوا أن هذا البنيان سينفعهم ويقيهم العذاب، فصار عذابُهم فيما بَنَوْه وأصَّلوه. وهذا من أحسن الأمثال في إبطال الله مَكْرَ أعدائه؛ فإنَّهم فكَّروا وقدَّروا فيما جاءت به الرسل لما كذَّبوه وجعلوا لهم أصولاً وقواعدَ من الباطل يرجعون إليها ويردُّون بها ما جاءت به الرسل، واحتالوا أيضاً على إيقاع المكروه والضرر بالرسل ومَنْ تَبِعَهم، فصار مكرُهم وبالاً عليهم، فصار تدبيرهم فيه تدميرهم، ذلك لأنَّ مكرهم سيِّئٌ، ولا يَحيق المكر السيِّئ إلاَّ بأهله. هذا في الدُّنيا، ولعذاب الآخرة أخزى، ولهذا قال: {ثم يوم القيامةِ يُخزيهم}؛ أي: يفضحُهم على رؤوس الخلائق ويبيِّن لهم كَذِبَهم وافتراءهم على الله. {ويقول أين شركائيَ الذين كنتُم تُشاقُّون فيهم}؛ أي: تحاربون وتعادون الله وحِزْبه لأجلهم تزعمون أنَّهم شركاء لله؛ فإذا سألهم هذا السؤال؛ لم يكن لهم جواب إلاَّ الإقرار بضلالهم والاعتراف بعنادهم، فيقولون: {ضَلُّوا عنَّا وَشَهِدوا على أنفِسِهم أنَّهم كانوا كافرينَ}: {قال الذين أوتوا العلم}؛ أي: العلماء الربانيُّون: {إنَّ الخِزْيَ اليومَ}؛ أي: يوم القيامة، [{والسوء}؛ أي]: العذاب {على الكافرين}. وفي هذا فضيلة أهل العلم، وأنَّهم الناطقون بالحقِّ في هذه الدُّنيا ويوم يقوم الأشهاد، وأنَّ لقولهم اعتباراً عند الله وعند خلقه.
- AyatMeaning
- [27,26] ﴿ قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ﴾ ’’تحقیق سازش کی ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے‘‘ یعنی جنھوں نے اپنے رسولوں کے خلاف سازشیں کیں اور ان کی دعوت کو ٹھکرانے کے لیے مختلف قسم کے حیلے ایجاد کیے اور اپنے مکروفریب کی اساس اور بنیاد پر خوفناک عمارت اور محل تعمیر کیے۔ ﴿ فَاَتَى اللّٰهُ بُنْیَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ﴾یعنی اللہ کے عذاب نے ان کے مکر و فریب (کی عمارتوں) کو بنیادوں اور جڑوں سے اکھاڑ پھینکا ﴿ فَخَرَّ عَلَیْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ﴾ ’’پس گر پڑی ان پر چھت‘‘ سازشوں کا تانا بانا بن کر انھوں نے مکرو فریب کی جو عمارت کھڑی کی تھی ان کے لیے عذاب بن گئی جس کے ذریعے سے ان کو عذاب دیا گیا۔ ﴿وَاَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْ٘عُرُوْنَ ﴾ ’’اور آیا ان کے پاس عذاب، جہاں سے ان کو خبر نہ تھی‘‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے سمجھا کہ یہ عمارت ان کو فائدہ دے گی اور ان کو عذاب سے بچا لے گی مگر اس کے برعکس انھوں نے جو بنیاد رکھی تھی وہ ان کے لیے عذاب بن گئی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے دشمنوں کے مکروفریب کے ابطال میں بہترین مثال دی ہے کیونکہ جب انھوں نے رسولوں کی دعوت کی تکذیب کی تو انھوں نے خوب سوچ سمجھ کر ان کی تکذیب کی انھوں نے کچھ باطل اصول و قواعد وضع کیے جن کی طرف یہ رجوع کرتے تھے اور ان خود ساختہ اصولوں کی بنا پر رسولوں کی دعوت کو ٹھکراتے تھے، نیز انبیاء و رسل اور ان کے متبعین کو نقصان اور تکالیف پہنچانے کے لیے حیلے وضع کرتے تھے۔ پس ان کا مکروفریب ان کے لیے وبال بن گیا اور ان کی تدبیریں خود ان کی تباہی کا باعث بن گئیں ۔ کیونکہ ان کا مکروفریب انتہائی برا کام تھا ﴿ وَلَا یَحِیْقُ الْمَؔكْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ٘﴾ (فاطر:35؍43) ’’اورمکروفریب کا وبال انھی پر پڑتا ہے جومکروفریب کرتے ہیں ۔‘‘ یہ تو ہے دنیا کا عذاب اور آخرت کا عذاب اس سے زیادہ رسوا کن ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُخْزِیْهِمْ ﴾ ’’پھر قیامت کے دن رسوا کرے گا ان کو‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ برسرعام خلائق کے سامنے ان کو رسوا کرے گا، ان کے جھوٹ اور اللہ تعالیٰ پر ان کی افترا پردازی کو آشکارا کرے گا۔ ﴿ وَیَقُوْلُ اَیْنَ شُ٘رَؔكَآءِیَ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تُشَآقُّوْنَ فِیْهِمْ﴾ ’’اور کہے گا، کہاں ہیں میرے وہ شریک جن پر تم کو بڑی ضدتھی‘‘ یعنی جن کی خاطر تم اللہ تعالیٰ اور حزب اللہ سے عداوت اور ان سے جنگ کرتے اور ان کے بارے میں یہ زعم باطل رکھتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شریک ہیں ۔ جب اللہ تعالیٰ ان سے یہ سوال کرے گا تو ان کے پاس اپنی گمراہی کے اقرار اور اپنے عناد کے اعتراف کے سوا کوئی جواب نہ ہو گا۔ پس وہ کہیں گے: ﴿ ضَلُّوْا عَنَّا وَشَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ ﴾ (الاعراف7؍37) ’’وہ سب غائب ہو گئے اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ واقعی وہ حق کا انکار کیا کرتے تھے۔‘‘ ﴿ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ﴾ ’’وہ لوگ کہیں گے جن کو علم دیا گیا تھا‘‘ یعنی علمائے ربانی ﴿ اِنَّ الْخِزْیَ الْیَوْمَ﴾ ’’بے شک رسوائی آج کے دن‘‘ یعنی قیامت کے روز ﴿ وَالسُّوْٓءَ ﴾ ’’اور برائی‘‘ یعنی بہت برا عذاب ﴿ عَلَى الْ٘كٰفِرِیْنَ﴾ ’’کافروں پر ہے‘‘ اس آیت کریمہ میں اہل علم کی فضیلت کا بیان ہے کہ وہ اس دنیا میں حق بولتے ہیں اور اس روز بھی حق بات کہیں گے جس روز گواہ کھڑے ہوں گے اور ان کی بات اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے نزدیک قابل اعتبار ہو گی۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [27,
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF