Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
9
SuraName
تفسیر سورۂ توبہ
SegmentID
538
SegmentHeader
AyatText
{28} يقول تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا إنما المشركون}: بالله، الذين عبدوا معه غيره {نَجَسٌ}؛ أي: خبثاء في عقائدهم وأعمالهم، وأيُّ نجاسة أبلغُ ممَّن كان يعبد مع الله آلهةً لا تنفع ولا تضرُّ ولا تغني عنه شيئاً، وأعمالهم ما بين محاربةٍ لله وصدٍّ عن سبيل الله ونصرٍ للباطل وردٍّ للحق وعمل بالفساد في الأرض لا في الصلاح؟! فعليكم أن تطهِّروا أشرف البيوت وأطهرها عنهم؛ {فلا يقرَبوا المسجد الحرام بعد عامهم هذا}: وهو سنة تسع من الهجرة، حين حجَّ بالناس أبو بكر الصديق، وبعث النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - ابن عمه عليًّا أن يؤذِّن يوم الحجِّ الأكبر ببراءة، فنادى أن لا يحجَّ بعد العام مشركٌ ولا يطوف بالبيت عُريانٌ. وليس المراد هنا نجاسةَ البدن؛ فإن الكافر كغيره طاهر البدن؛ بدليل أن الله تعالى أباح وطء الكتابيَّة ومباشرتها، ولم يأمر بغسل ما أصاب منها ، والمسلمون ما زالوا يباشرون أبدان الكفَّار، ولم يُنْقَل عنهم أنهم تقذَّروا منها تقذُّرهم من النجاسات، وإنما المراد كما تقدَّم نجاستهم المعنويَّة بالشرك؛ فكما أن التوحيد والإيمان طهارةٌ؛ فالشرك نجاسةٌ. وقوله: {وإن خِفْتُم}: أيُّها المسلمون، {عَيْلَةً}؛ أي: فقراً وحاجة من منع المشركين من قُربان المسجد الحرام؛ بأن تنقطع الأسباب التي بينكم وبينهم من الأمور الدنيويَّة، {فسوف يُغنيكم الله من فضله}: فليس الرزق مقصوراً على باب واحد ومحلٍّ واحد، بل لا ينغلق بابٌ؛ إلاَّ وفُتِحَ غيرُه أبوابٌ كثيرة؛ فإن فضل الله واسع، وجوده عظيم، خصوصاً لمن ترك شيئاً لوجه الكريم؛ فإنَّ الله أكرم الأكرمين، وقد أنجز الله وعده؛ فإنَّ الله أغنى المسلمين من فضله، وبَسَطَ لهم من الأرزاق ما كانوا من أكبر الأغنياء والملوك. وقوله: {إن شاء}: تعليقُ للإغناء بالمشيئة؛ لأن الغنى في الدنيا ليس من لوازم الإيمان، ولا يدلُّ على محبَّة الله؛ فلهذا علَّقه الله بالمشيئة؛ فإنَّ الله يعطي الدنيا من يحبُّ ومن لا يحب، ولا يعطي الإيمان والدين إلا من يحبُّ. {إنَّ الله عليمٌ حكيمٌ}؛ أي: علمه واسعٌ، يعلم مَن يَليق به الغنى ومَن لا يَليق، ويضع الأشياء مواضعها، وينزِلها منازلها. وتدلُّ الآية الكريمة ـ وهي قوله: {فلا يَقْرَبوا المسجدَ الحرام بعد عامهم هذا} ـ أنَّ المشركين بعدما كانوا هم الملوك والرؤساء بالبيت، ثم صار بعد الفتح الحكم لرسول الله والمؤمنين مع إقامتهم في البيت ومكة المكرمة، ثم نزلت هذه الآية، ولما مات النبيُّ - صلى الله عليه وسلم -؛ أمر أن يُجْلَوا من الحجاز؛ فلا يبقى فيها دينان، وكل هذا لأجل بُعْدِ كلِّ كافر عن المسجد الحرام، فيدخل في قوله: {فلا يقربوا المسجد الحرام بعد عامهم هذا}.
AyatMeaning
[28] ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْ٘مُشْرِكُوْنَ ﴾ ’’اے ایمان والو! بے شک مشرکین‘‘ یعنی جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا اور اس کے ساتھ غیروں کی عبادت کی ﴿ نَجَسٌ ﴾ ’’ناپاک ہیں ۔‘‘ یعنی اپنے عقائد و اعمال میں ناپاک ہیں ۔اور اس شخص سے بڑھ کر ناپاک اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرتے ہیں جو نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان اور نہ وہ کوئی کام آسکتے ہیں اور ان لوگوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ کرنے، اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنے، باطل کی مدد کرنے، حق کو ٹھکرانے اور زمین میں اصلاح کی بجائے فساد کے لیے کام کرنے جیسے افعال پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ اس لیے تم پر فرض ہے کہ تم سب سے زیادہ شرف کے حامل اور سب سے زیادہ پاک گھر سے مشرکین کو پاک رکھو۔ ﴿ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰؔذَا﴾ ’’پس یہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ جائیں ‘‘ اور یہ ۹ ھ کا سال تھا جب حضرت ابوبکر صدیقt نے لوگوں کے ساتھ حج کیا تھا۔ رسول اللہe نے اپنے چچا زاد بھائی علی بن ابی طالبt کو روانہ فرمایا کہ حج کے روز ’’براء ت‘‘ کا اعلان کر دیں ، چنانچہ انھوں نے اعلان کیا کہ سال رواں کے بعد کوئی مشرک حج کے لیے نہیں آئے گا اور نہ کوئی شخص عریاں ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے گا۔ یہاں نجاست سے مراد بدن کی نجاست نہیں ۔ کیونکہ کافر کا بدن بھی دوسرے لوگوں کے بدن کی طرح پاک ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کتابیہ عورت کے ساتھ مباشرت جائز قرار دی ہے مگر اس کا پسینہ وغیرہ لگ جانے کی صورت میں اسے دھونے کا حکم نہیں دیا۔ مسلمان ہمیشہ سے کفار کے ساتھ بدنی اختلاط رکھتے چلے آئے ہیں مگر ان سے یہ بات منقول نہیں کہ انھوں نے کفار کو اس طرح ناپاک سمجھا ہو جس طرح وہ گندگی کو ناپاک سمجھتے ہیں ۔ درحقیقت اس سے مراد جیسا کہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے..... معنوی نجاست، یعنی شرک ہے۔ ﴿ وَاِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً ﴾ ’’(اے مسلمانو!) اگر تمھیں محتاجی کا خوف ہو۔‘‘ یعنی مشرکین کو مسجد حرام کے قریب جانے سے روک دینے کی وجہ سے تمھارے اور ان کے درمیان دنیاوی امور میں قطع تعلق کی بنا پر فقر و احتیاج کے لاحق ہونے کا ڈر ہو۔ ﴿ فَسَوْفَ یُغْنِیْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ٘ۤ ﴾ ’’تو اللہ اپنے فضل سے تمھیں غنی کر دے گا‘‘ رزق کا ایک ہی دروازہ اور ایک ہی جگہ تو نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اگر رزق کا ایک دروازہ بند ہو جاتا ہے تو بے شمار دوسرے دروازے کھل جاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ بے انتہا فضل و کرم اور بہت بڑے جود و سخا کا مالک ہے۔ خاص طور پر اس شخص کے لیے جو محض اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی چیز کو ترک کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا کریم ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کر دیا کیونکہ اس نے اپنے فضل و کرم سے مسلمانوں کو غنی کر دیا۔ انھیں اس قدر کشادہ رزق عطا کیا کہ وہ بڑے بڑے مال داروں اور بادشاہوں میں شمار ہونے لگے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ﴿ اِنْ شَآءَ﴾ ’’اگر اس نے چاہا‘‘ اللہ تعالیٰ کا غنی کرنا اس کی مشیت کے ساتھ معلق ہے کیونکہ دنیا کے اندر غنا کا حاصل ہونا لوازم ایمان میں شمار ہوتا ہے، نہ اللہ تعالیٰ کی محبت پر دلالت کرتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی مشیت کے ساتھ معلق کیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ دنیا، ہر ایک کو دیتا ہے، اپنے محبوب بندے کو بھی اور اس کو بھی جس سے وہ محبت نہیں کرتا مگر وہ ایمان اور دین صرف اسے عطا کرتا ہے جس کے ساتھ وہ محبت کرتا ہے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ ﴾ ’’بے شک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘ اس کا علم بڑا وسیع ہے، وہ خوب جانتا ہے کہ کون غنا عطا کیے جانے کے لائق ہے اور کون ہے جو اس کے لائق نہیں اور اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کو ان کے لائق مقام پر رکھتا ہے۔ آیت کریمہ ﴿ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰؔذَا﴾ دلالت کرتی ہے کہ مشرکین مکہ بیت اللہ کی وجہ سے ریاست اور بادشاہی کے مالک تھے پھر فتح مکہ کے بعد حکومت اور اقتدار رسول اللہe اور مومنین کے پاس آگیا اور مشرکین مکہ بیت اللہ اور مکہ مکرمہ میں مقیم رہے، پھر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جب نبی اکرمe نے وفات پائی تو (وفات کے وقت) آپ نے حکم دیا کہ مشرکین کو سرزمین حجاز سے نکال دیا جائے۔ حجاز میں بیک وقت دو دین نہیں رہ سکتے.... اور یہ اس وجہ سے تاکہ ہر کافر کو مسجد حرام سے دور رکھا جائے۔ پس ہر کافر اللہ تعالیٰ کے حکم ﴿ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰؔذَا﴾ میں داخل ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[28]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List