Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 6
- SuraName
- تفسیر سورۂ انعام
- SegmentID
- 439
- SegmentHeader
- AyatText
- {148} هذا إخبار من الله أن المشركين سيحتجُّون على شركهم وتحريمهم ما أحل الله بالقضاء والقدر، ويجعلون مشيئة الله الشاملة لكلِّ شيءٍ من الخير والشرِّ حجةً لهم في دفع اللوم عنهم، وقد قالوا ما أخبر الله أنهم سيقولونه؛ كما قال في الآية الأخرى: {وقال الذين أشْرَكوا لو شاءَ اللهُ ما عَبَدْنا من دونِهِ من شيءٍ ... } الآية فأخبر تعالى أنَّ هذه الحجة لم تزل الأممُ المكذِّبة تدفعُ بها عنهم دعوةَ الرسل ويحتجُّون بها، فلم تُجْدِ فيهم شيئاً ولم تنفعْهم، فلم يزلْ هذا دأبَهم حتى أهلكهم الله وأذاقهم بأسه؛ فلو كانت حجةً صحيحةً؛ لدفعتْ عنهم العقابَ، ولَمَا أحلَّ الله بهم العذاب؛ لأنَّه لا يحلُّ بأسه إلا بمن استحقه فعلم أنها حجة فاسدة وشبهة كاسدة من عدة أوجه: منها: ما ذكر الله من أنها لو كانت صحيحةً لم تحلَّ بهم العقوبة. ومنها: أن الحجة لا بدَّ أن تكون حجةً مستندةً إلى العلم والبرهان، فأما إذا كانت مستندةً إلى مجرَّد الظنِّ والخرص الذي لا يغني من الحقِّ شيئاً؛ فإنها باطلة، ولهذا قال: {قل هل عندَكم من علم فتخرِجوه لنا}؛ فلو كان لهم علمٌ ـ وهم خصومٌ ألدَّاء ـ لأخرجوه، فلما لم يخرِجوه؛ عُلِمَ أنه لا علم عندهم. {إن تتَّبعون إلَّا الظَّنَّ وإنْ أنتم إلَّا تَخْرُصُونَ}: ومن بنى حُججه على الخرص والظنِّ؛ فهو مبطل خاسر؛ فكيف إذا بناها على البغي والعناد والشرِّ والفساد.
- AyatMeaning
- [148] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے خبر ہے کہ مشرکین اپنے شرک اور اللہ تعالیٰ کی حلال ٹھہرائی ہوئی چیزوں کو حرام ٹھہرانے پر اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے دلیل پکڑتے ہیں اور اپنے آپ سے مذمت کو دور کرنے کے لیے، اللہ تعالیٰ کی مشیت کو جو خیر و شر ہر چیز کو شامل ہے، دلیل بناتے ہیں ، چنانچہ انھوں نے وہی کچھ کہا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَقَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَؔكُوْا لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ﴾ (النحل: 16؍35) ’’وہ لوگ جنھوں نے شرک کیا کہتے ہیں کہ اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو ہم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرتے۔‘‘پس یہ وہ دلیل ہے جو انبیا و رسل کو جھٹلانے والی قومیں انبیاء کی دعوت کو رد کرنے کے لیے پیش کرتی رہی ہیں مگر یہ ان کے کسی کام آئی نہ اس نے انھیں کوئی فائدہ ہی دیا اور یہی ان کی عادت رہی حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ہلاک کر کے عذاب کا مزا چکھایا۔ اگر ان کی یہ دلیل صحیح ہوتی تو ان سے عذاب کو ہٹا لیا جاتا اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب میں مبتلا نہ کرتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب صرف اسی پر نازل ہوتا ہے جو اس کا مستحق ہوتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ یہ ان کی فاسد دلیل اور انتہائی گھٹیا شبہ ہے اور اس کی متعدد وجوہات ہیں ۔ (۱) اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ اگر ان کی دلیل صحیح ہوتی تو ان پر عذاب نازل نہ ہوتا۔ (۲) دلیل کے لیے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد علم اور برہان ہو۔ اگر دلیل محض گمان اور اندازے پر مبنی ہو، جو حق کے مقابلے میں کوئی کام نہیں آسکتی تو یہ باطل ہے۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قُ٘لْ هَلْ عِنْدَؔكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْهُ لَنَا﴾ ’’کہہ دیجیے! اگر تمھارے پاس کوئی علم ہے تو ہمارے سامنے پیش کرو‘‘ پس اگر ان کے پاس علم ہوتا حالانکہ وہ سخت جھگڑالو لوگ ہیں تو وہ اسے ضرور پیش کرتے اگر انھوں نے کوئی علمی دلیل پیش نہیں کی تو معلوم ہوا کہ وہ علم سے بے بہرہ ہیں ۔ ﴿اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّ٘نَّ وَاِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ﴾ ’’تم تو نرے گمان پر چلتے ہو اور صرف تخمینے ہی کرتے ہو‘‘ اور جو کوئی اپنے دلائل کی بنیاد گمان اور اندازوں پر رکھتا ہے وہ باطل پرست اور خسارے میں پڑنے والا ہے اور جب اس کی بنیاد سرکشی، دشمنی اور شروفساد پر ہو تو اس کی کیفیت کیا ہوگی؟
- Vocabulary
- AyatSummary
- [148
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF