Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
4
SuraName
تفسیر سورۂ نساء
SegmentID
297
SegmentHeader
AyatText
{123} أي: {ليس} الأمر والنجاة والتزكية {بأمانيِّكم ولا أمانيِّ أهل الكتاب}، والأمانيُّ أحاديث النفس المجرَّدة عن العمل المقترِن بها دعوى مجرَّدة، لو عُورضت بمثلها؛ لكانت من جنسها، وهذا عامٌّ في كلِّ أمر؛ فكيف بأمر الإيمان والسعادة الأبديَّة؛ فإنَّ أماني أهل الكتاب قد أخبر الله بها أنهم {قالوا لن يدخُلَ الجنَّة إلاَّ من كان هوداً أو نصارى تلك أمانيُّهم}، وغيرهم ممَّن ليس ينتسب لكتاب ولا رسول من باب أولى وأحرى، وكذلك أدخل الله في ذلك من ينتسب إلى الإسلام لكمال العدل والإنصاف؛ فإنَّ مجرد الانتساب إلى أيِّ دينٍ كان لا يفيد شيئاً إن لم يأت الإنسان ببرهانٍ على صحة دعواه؛ فالأعمال تُصَدِّقُ الدعوى أو تكذِّبها. ولهذا قال تعالى: {من يَعْمَلْ سوءاً يُجْزَ به}: وهذا شامل لجميع العاملين؛ لأنَّ السوء شاملٌ لأيِّ ذنب كان من صغائر الذُّنوب وكبائِرِها، وشاملٌ أيضاً لكل جزاء؛ قليل أو كثير، دنيويٍّ أو أخرويٍّ، والناس في هذا المقام درجاتٌ لا يعلمها إلا الله؛ فمستقلٌّ ومستكثرٌ؛ فمن كان عمله كلُّه سوءاً، وذلك لا يكون إلا كافراً؛ فإذا مات من دون توبةٍ؛ جوزِيَ بالخلود في العذاب الأليم، ومن كان عمله صالحاً وهو مستقيمٌ في غالب أحواله، وإنَّما يصدُر منه أحياناً بعض الذُّنوب الصغار فما يصيبه من الهمِّ والغمِّ والأذى وبعض الآلام في بدنه، أو قلبه، أو حبيبه، أو ماله ونحو ذلك؛ فإنها مكفِّرات للذُّنوب؛ وهي مما يجزى به على عمله، قيضها الله لطفاً بعباده. وبين هذين الحالين مراتبُ كثيرة، وهذا الجزاء على عمل السوء العام مخصوصٌ في غير التائبين؛ فإنَّ التائب من الذنب كمن لا ذنبَ له؛ كما دلَّت على ذلك النصوص. وقوله: {ولا يَجِدْ له من دون الله وليًّا ولا نصيراً}: لإزالة بعض ما لعلَّه يتوهم أن من استحقَّ المجازاة على عمله قد يكون له وليٌّ أو ناصر أو شافعٌ يدفعُ عنه ما استحقَّه، فأخبر تعالى بانتفاء ذلك، فليس له وليٌّ يحصِّل له المطلوبَ ولا نصيرٌ يدفع عنه المرهوبَ؛ إلاَّ ربَّه ومليكه.
AyatMeaning
[123] یعنی معاملہ، نجات اور تزکیہ تمھاری اور اہل کتاب کی خواہشات پر مبنی نہیں۔ (اَلْاَمَانِيِّ) سے مراد ایسی خواہشات اور تمنائیں ہیں جو عمل سے عاری اور محض دعویٰ ہوں۔ اگر ان تمناؤں کا مقابلہ ان جیسی دیگر تمناؤں سے کیا جائے تو یہ ان کی جنس میں شمار ہوں گی۔ ہر امر میں تمنا اور آرزو کا یہی معاملہ ہے۔ تب ایمان اور ابدی سعادت محض خواہشات اور آرزوؤں سے کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟ اہل کتاب کی جھوٹی خواہشات اور تمناؤں کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ کر چکا ہے، وہ کہا کرتے تھے۔ ﴿ وَقَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰؔى١ؕ تِلْكَ اَمَانِیُّهُمْ ﴾ (البقرۃ : 2؍111) ’’یہودیوں اور عیسائیوں کے سوا کوئی شخص جنت میں نہیں جائے گا یہ ان کی محض باطل آرزوئیں ہیں۔‘‘ یہ تو تھے اہل کتاب، اور دیگر لوگ جو کسی کتاب اور کسی رسول کی طرف منسوب نہیں۔ ان کی آرزوئیں تو بدرجہ اولیٰ باطل ہیں۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے کامل عدل و انصاف کی بنا پر ان لوگوں کو بھی اس دائرے میں شامل کیا ہے جو اپنے آپ کو اسلام سے منسوب کرتے ہیں۔ اگر انسان اپنے دعویٰ کی صحت پر دلیل و برہان فراہم نہ کرے تو کسی بھی دین کی طرف مجرد انتساب کسی کام نہیں آتا۔ اعمال دعوے کی تصدیق یا تکذیب کرتے ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًؔا یُّجْزَ بِهٖ ﴾ ’’جو برائی کرے گا اس کی سزا پائے گا‘‘ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ اصول تمام عاملین کو شامل ہے کیونکہ (سوء) ’’برائی‘‘ کا اطلاق چھوٹے یا بڑے ہر قسم کے گناہ پر ہوتا ہے اسی طرح ’’جزا‘‘ میں تھوڑی یا زیادہ، دنیاوی یا اخروی ہر قسم کی جزا شامل ہے۔ اس مقام پر لوگ بے شمار درجات میں منقسم ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے نیک (یا برے) اعمال بہت کم ہوں گے اور کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے نیک (یا برے) اعمال بہت زیادہ ہوں گے۔ پس جن کے اعمال سارے کے سارے برائی پر مشتمل ہوں گے اور ایسے لوگ صرف کافر ہی ہوں گے جب ان میں سے کوئی توبہ کیے بغیر مر جائے تو اس کی جزا یہ ہو گی کہ وہ دردناک عذاب میں ہمیشہ رہے گا اور جس کے اعمال نیک ہوں گے اور وہ اپنے غالب احوال میں درست طرز عمل اپنانے والا ہو گا، البتہ کبھی کبھار اس سے چھوٹے موٹے گناہ صادر ہو جاتے رہے ہوں گے تو اس کو اپنے بدن، قلب، اپنے محبوب شخص یا مال و منال میں جو رنج و غم اور اذیت و الم پہنچتے ہیں تو یہ تکالیف بھی اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ ان دو حالتوں کے درمیان بہت سے مراتب ہیں۔ عام برے عمل کی یہ جزا صرف ان لوگوں سے مخصوص ہے جو توبہ نہیں کرتے، کیونکہ گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جس کا کوئی گناہ نہ ہو۔ جیسا کہ نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں۔ ﴿ وَلَا یَجِدْ لَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا ﴾ ’’اور نہیں پائے گا وہ اللہ کے سوا کوئی حمایتی اور نہ کوئی مددگار‘‘ یہ اس وہم کے ازالہ کے لیے ہے کہ شاید وہ شخص جو اپنے (برے) عمل پر بدلے کا مستحق ہے، یہ زعم رکھتا ہو کہ کبھی اس کا کوئی حمایتی یا مددگار یا کوئی سفارشی اس سے عذاب کو دور کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کی نفی کی ہے، اس کا کوئی حمایتی نہیں ہو گا جو اس کے لیے اس کا مطلوب حاصل کر سکے اور نہ اس کا کوئی مددگار ہو گا جو اس کا ڈر دور کر سکے سوائے اس کے رب اور مالک کے۔
Vocabulary
AyatSummary
[123
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List