Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 80
- SuraName
- تفسیر سورۂ عبس
- SegmentID
- 1694
- SegmentHeader
- AyatText
- {1 ـ 10} {عبس}؛ أي: في وجهه، {وتولَّى}: في بدنه لأجل مجيء الأعمى له. ثم ذكر الفائدة في الإقبال عليه، فقال: {وما يدريكَ لعلَّه}؛ أي: الأعمى، {يَزَّكَّى}؛ أي: يتطهر عن الأخلاق الرذيلة ويتصف بالأخلاق الجميلة، {أو يَذَّكَّرُ فَتَنفعهُ الذِّكرَى}؛ أي: يتذكَّر ما ينفعه فينتفع بتلك الذِّكرى، وهذه فائدةٌ كبيرةٌ، هي المقصودة من بعثة الرسل ووعظ الوعَّاظ وتذكير المذكِّرين؛ فإقبالُك على مَنْ جاء بنفسه مفتقراً لذلك مقبلاً هو الأليقُ الواجب، وأما تصدِّيك وتعرُّضِك للغنيِّ المستغني الذي لا يسأل ولا يستفتي لعدم رغبته في الخير مع تركك مَنْ أهمُّ منه؛ فإنَّه لا ينبغي لك؛ فإنَّه ليس عليك أن لا يَزَّكَّى؛ فلو لم يَتَزَكَّ؛ فلست بمحاسبٍ على ما عمله من الشرِّ، فدلَّ هذا على القاعدة المشهورة؛ أنَّه لا يُترَك أمرٌ معلومٌ لأمرٍ موهومٍ، ولا مصلحة متحقِّقة لمصلحة متوهَّمة، وأنَّه ينبغي الإقبال على طالب العلم المفتقر إليه الحريص عليه أزيد من غيره.
- AyatMeaning
- [10-1] ﴿عَبَسَ﴾ یعنی آپ ترش رو ہو گئے ﴿وَتَوَلّٰۤى﴾ اور اپنے جسم کو موڑ لیا، اس بنا پر کہ اندھا آپ کے پاس آیا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس نابینا شخص کی طرف توجہ دینے کا فائدہ بیان فرمایا : ﴿وَمَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّهٗ ﴾ ’’اور تمھیں کیاخبر کہ شاید وہ۔‘‘ یعنی نابینا شخص ﴿ یَزَّكّٰۤى﴾ اخلاق رذیلہ سے پاک اور اخلاق جمیلہ سے متصف ہونا چاہتا ہو۔ ﴿ اَوْ یَذَّكَّـرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرٰى﴾ یا وہ کسی چیز سے نصیحت پکڑتا جو اسے فائدہ دیتی اور وہ اس نصیحت سے نفع حاصل کرتا ، یہ بہت بڑا فائدہ ہے اور یہی چیز انبیاء و رسل کی بعثت، واعظین کے وعظ اور یاد دہانی کرانے والوں کی تذکیر کا مقصد ہے، جو شخص اس چیز کا حاجت مند بن کر خود چل کر آیا ہے، اس کی طرف آپ کو توجہ دینا زیادہ لائق اور واجب ہے۔ رہا آپ کا اس بے نیاز دولت مند کی ہدایت کے درپے ہونا اور اس سے تعرض کرنا جو بھلائی میں عدم رغبت کی بنا پر سوال کرتا ہے نہ فتویٰ طلب کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کا اس شخص کو چھوڑ دینا جو اس سے زیادہ اہم ہے، آپ کے لیے مناسب نہیں کیونکہ آپ پر اس کے پاکیزگی اختیار نہ کرنے کا کوئی گناہ نہیں ۔ اور اگر وہ پاک نہیں ہوتا تو آپ اس برے کام کا محاسبہ کرنے والے نہیں ہیں جس کا وہ ارتکاب کرتا ہے۔یہ چیز مشہور شرعی قاعدے پر دلالت کرتی ہے، وہ قاعدہ یہ ہے کہ کسی امر معلوم کو کسی امر موہوم کی خاطر اور کسی مصلحت متحققہ کو کسی مصلحت موہومہ کی خاطر ترک نہ کیا جائے۔نیز مناسب یہ ہے کہ وہ طالب علم جو علم کا حاجت مند اور حصول علم کا حریص ہے اس پر دوسروں کی نسبت زیادہ توجہ دی جائے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [10-
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF