Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
43
SuraName
تفسیر سورۂ زخرف
SegmentID
1411
SegmentHeader
AyatText
{32} قال الله ردًّا لاقتراحهم: {أهم يقسِمونَ رحمةَ ربِّكَ}؛ أي: أهُم الخزَّانُ لرحمة الله، وبيدهم تدبيرُها، فيعطون النبوَّة والرسالة من يشاؤون، ويمنعونها ممَّن يشاؤون؟! {نحن قسَمْنا بينَهم معيشَتَهم في الحياة الدُّنيا ورَفَعْنا بعضَهم فوق بعض درجاتٍ}؛ أي: في الحياة الدُّنيا، {و} الحال أنَّ رحمةَ {ربِّك خيرٌ ممَّا يجمعونَ}: من الدُّنيا؛ فإذا كانت معايشُ العبادِ وأرزاقُهم الدنيويَّة بيد الله تعالى، هو الذي يقسِمُها بين عباده، فيبسِطُ الرزق على من يشاءُ ويضيِّقُه على مَن يشاءُ بحسب حكمته؛ فرحمتُه الدينيَّةُ ـ التي أعلاها النبوَّة والرسالة ـ أولى وأحرى أن تكونَ بيدِ الله تعالى؛ فالله أعلمُ حيثُ يجعلُ رسالَتَه. فعُلم أنَّ اقتراحهم ساقطٌ لاغٍ، وأنَّ التدبير للأمور كلِّها دينيِّها ودنيويِّها بيد الله وحده، هذا إقناعٌ لهم من جهة غلطهم في الاقتراح الذي ليس في أيديهم منه شيءٌ، إن هو إلاَّ ظلمٌ منهم وردٌّ للحقِّ. وقولهم: {لولا نُزِّلَ هذا القرآنُ على رجل من القريتين عظيم}: لو عرفوا حقائقَ الرجال والصفاتِ التي بها يُعْرَفُ علوُّ قدر الرجل، وعِظَمُ منزلته عند الله وعند خلقِهِ؛ لعلموا أنَّ محمد بن عبد الله بن عبد المطلب هو أعظمُ الرجال قدراً، وأعلاهم فخراً، وأكملُهم عقلاً، وأغزرُهم علماً، وأجلُّهم رأياً وعزماً وحزماً، وأكملُهم خلقاً، وأوسعُهم رحمةً، وأشدُّهم شفقةً، وأهداهم وأتقاهم، وهو قطبُ دائرة الكمال، وإليه المنتهى في أوصاف الرجال، ألا وهو رجلُ العالم على الإطلاق؛ يعرف ذلك أولياؤه وأعداؤه؛ إلاَّ من ضلَّ وكابَرَ؛ فكيف يُفَضِّلُ عليه المشركون مَنْ لم يَشُمَّ مثقال ذرَّةٍ مِنْ كَماله، ومَنْ حَزْمُه ومنتهى عقلِهِ أنْ جعل إلهه الذي يعبُدُه ويدعوه ويتقرَّب إليه صنماً أو شجراً أو حجراً لا يضرُّ ولا ينفع ولا يُعطي ولا يمنعُ، وهو كَلٌّ على مولاه، يحتاجُ لمن يقوم بمصالحه؟! فهل هذا إلا من فعل السُّفهاء والمجانين؟! فكيف يُجعلُ مثلُ هذا عظيماً؟! أم كيف يُفَضَّلُ على خاتم الرسل وسيد ولد آدم - صلى الله عليه وسلم -؟! ولكنَّ الذين كفروا لا يعقلون. وفي هذه الآية تنبيهٌ على حكمة الله تعالى في تفضيل الله بعضَ العباد على بعض في الدُّنيا؛ {ليتَّخِذَ بعضُهم بعضاً سخريًّا}؛ أي: ليسخِّر بعضُهم بعضاً في الأعمال والحِرَف والصنائع؛ فلو تساوى الناس في الغنى ولم يحتج بعضُهم إلى بعض؛ لتعطَّلَت كثيرٌ من مصالحهم ومنافعهم. وفيها دليلٌ على أنَّ نعمتَه الدينيَّة خير من النعمة الدنيويَّة؛ كما قال تعالى في الآية الأخرى: {قل بفضل اللهِ وبرحمتِهِ فبذلك فَلْيَفْرَحوا هو خيرٌ ممَّا يجمعونَ}.
AyatMeaning
[32] اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿اَهُمْ یَقْ٘سِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ﴾ یعنی کیا وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانچی ہیں اور ان کے ہاتھ میں اس کی رحمت کی تدبیر ہے کہ جس کو چاہیں نبوت اور رسالت عطا کردیں اور جس کو چاہیں اس سے محروم کر دیں ﴿نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰؔتٍ ﴾ ’’ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کیا، اور ایک کے دوسرے پر درجے بلند کیے۔‘‘ یعنی اس دنیاوی زندگی میں ۔﴿وَ ﴾ ’’اور‘‘ حال یہ ہے کہ ﴿رَحْمَتُ رَبِّكَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ﴾ ’’آپ کے رب کی رحمت اس (دنیا) سے بہتر ہے جو یہ اکٹھی کر رہے ہیں۔‘‘ جب بندوں کی معیشت اور ان کا دنیاوی رزق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، وہی اسے اپنے بندوں کے درمیان تقسیم کرتا ہے، اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق جس کو چاہتا ہے اس کے رزق کو کشادہ کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس کے رزق کو تنگ کر دیتا ہے تو اس کی رحمت دینی جس میں سب سے اعلیٰ و افضل نبوت اور رسالت ہے، اس چیز کی زیادہ مستحق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہو۔ پس اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت سے کسے سرفراز فرمائے۔ پس معلوم ہوا کہ کفار کا اعتراض لغو اور ساقط ہے۔ تمام دینی اور دنیاوی معاملات کی تدبیر اکیلے اللہ تعالیٰ ہی کے دست قدرت میں ہے۔ یہ ان کے اعتراض کی غلطی پر توجہ دلانا ہے، جو ان کے اختیار میں نہیں، یہ تو محض ان کا ظلم اور حق کو ٹھکرانا ہے۔ رہا ان کا یہ کہنا: ﴿لَوْلَا نُزِّلَ هٰؔذَا الْ٘قُ٘رْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْ٘قَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ﴾ اگر وہ لوگوں کے حقائق اور انسانی صفات کی معرفت رکھتے، جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے ہاں انسان کی بلند قدرومنزلت اور عظمت کا اندازہ کیا جاتا ہے تو انھیں معلوم ہو جاتا کہ حضرت محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلبe، لوگوں میں عظیم ترین قدر و منزلت کے حامل، فخر میں سب سے اعلیٰ، عقل میں سب سے کامل، علم میں سب سے بڑھ کر، رائے اور عزم و حزم میں جلیل ترین، اخلاق میں بہترین، آپ کی رحمت کا دامن وسیع ترین، سب سے زیادہ شفقت رکھنے والے، سب سے زیادہ ہدایت یافتہ اور سب سے زیادہ متقی ہیں۔ آپ دائرۂ کمال کے مرکز اور انسانی اوصاف کی انتہائی بلندیوں پر فائز ہیں، آگاہ رہو کہ علی الاطلاق آپ ہی مرد کائنات ہیں۔ اس بات کو آپ کے دوست اور دشمن سب جانتے ہیں، پس یہ مشرکین آپ پر کسی شخص کو کیوں کر فضیلت دے رہے ہیں جس میں ذرہ بھر یہ کمالات نہیں اور اس کے جرم و حمق کی انتہا یہ ہے کہ اس نے پتھر کو اپنا معبود بنا لیا، اس کی عبادت کرتا ہے، مصائب و حاجات میں اس کو پکارتا اور اس کا قرب حاصل کرتا ہے، جو اس کو کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع، وہ کچھ عطا کر سکتا ہے نہ کسی چیز سے محروم کر سکتا ہے، وہ سراسر اپنے مالک پر بوجھ ہے اور کسی ایسے شخص کا محتاج ہے جو اس کے مصالح کی دیکھ بھال کرے۔ کیا یہ بیوقوفوں اور پاگلوں کا فعل نہیں؟ ایسے شخص کو کیوں کر عظیم قرار دیا جا سکتا ہے ؟ یا خاتم المرسلین اور بنی آدم کے سردار حضرت محمد مصطفیe پر کیوں کر فضیلت دی جاتی ہے؟ لیکن وہ لوگ جنھوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے، سمجھتے ہی نہیں۔ اس آیت کریمہ میں بندوں کی ایک دوسرے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ فضیلت میں پنہاں اس کی حکمت کی طرف اشارہ ہے ﴿لِّیَؔتَّؔخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا ﴾ ’’تاکہ ایک، دوسرے سے خدمت لے۔‘‘ یعنی تاکہ وہ کاموں اور صنعت و حرفت میں ایک دوسرے سے خدمت لیں۔ اگر مال کے لحاظ سے تمام لوگ برابر ہوتے تو وہ ایک دوسرے کے محتاج نہ رہتے اور اس طرح ان کے بہت سے مصالح اور منافع معطل ہو کر رہ جاتے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ دینی نعمت دنیاوی نعمت سے بہتر ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت میں فرمایا: ﴿قُ٘لْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْ٘یَفْرَحُوْا١ؕ هُوَ خَیْرٌ مِّؔمَّؔا یَجْمَعُوْنَ ﴾ (یونس:10؍؍58) ’’کہہ دیجیے کہ یہ اللہ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت ہے، اسی پر ان کو خوش ہونا چاہیے یہ ان چیزوں سے بہتر ہے جن کو یہ جمع کرتے ہیں۔‘‘
Vocabulary
AyatSummary
[32]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List