Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 3
- SuraName
- تفسیر سورۂ آل عمران
- SegmentID
- 174
- SegmentHeader
- AyatText
- {59 ـ 62} لما ذكر قصة مريم وعيسى ونبأهما الحق، وأنه عبد أنعم الله عليه، وأن من زعم أن فيه شيئاً من الإلهية فقد كذب على الله، وكذب جميع أنبيائه وكذب عيسى - صلى الله عليه وسلم - فإن الشبهة التي عرضت لمن اتخذه إلهاً شبهة باطلة، فلو كان لها وجه صحيح لكان آدم أحق منه فإنه خلق من دون أم ولا أب، ومع ذلك فاتفق البشر كلُّهم على أنه عبد من عباد الله، فدعوى إلهية عيسى بكونه خلق من أم بلا أب دعوى من أبطل الدعاوي، وهذا هو الحق الذي لا ريب فيه أن عيسى كما قال عن نفسه: {ما قلت لهم إلا ما أمرتني به أن اعبدوا الله ربي وربكم}؛ وكان قد قدم على النبي - صلى الله عليه وسلم - وفد نصارى نجران ، وقد تصلبوا على باطلهم بعدما أقام عليهم النبي - صلى الله عليه وسلم - البراهين بأن عيسى عبد الله ورسوله حيث زعموا إلهيته، فوصلت به وبهم الحال إلى أن أمره الله تعالى أن يباهلهم فإنه قد اتضح لهم الحق ولكن العناد والتعصب منعاهم منه، فدعاهم رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى المباهلة بأن يحضر هو وأهله وأبناؤه، وهم يحضرون بأهلهم وأبنائهم ثم يدعون الله تعالى أن ينزل عقوبته ولعنته على الكاذبين، فتشاوروا هل يجيبونه إلى ذلك، فاتفق رأيهم أن لا يجيبوه لأنهم عرفوا أنه نبي الله حقًّا، وأنهم إن باهلوه هلكوا هم وأولادهم وأهلوهم فصالحوه وبذلوا له الجزية، وطلبوا منه الموادعة والمهادنة فأجابهم - صلى الله عليه وسلم - ولم يحرجهم لأنه حصل المقصود من وضوح الحق، وتبين عنادهم حيث صمموا على الامتناع عن المباهلة، وذلك يبرهن على أنهم كانوا ظالمين. ولهذا قال تعالى: {إن هذا لهو القصص الحق}؛ أي: الذي لا ريب فيه، {وإن الله لهو العزيز} الذي قهر بقدرته وقوته جميع الموجودات وأذعنت له سكان الأرض والسماوات، ومع ذلك فهو {الحكيم}؛ الذي يضع الأشياء مواضعها وينزلها منازلها.
- AyatMeaning
- [63-59] عیسائی عیسیٰuکے بارے میں وہ عقیدہ رکھتے ہیں جو درست نہیں، ان کے پاس اس کی کوئی قوی یا ضعیف دلیل بھی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چونکہ آپ کا کوئی والد نہیں، اس لیے وہ حق رکھتے ہیں کہ انھیں اللہ کا بیٹا اور شریک تسلیم کیا جائے۔ یہ بات دلیل تو درکنار، شبہ بننے کے بھی قابل نہیں۔ کیونکہ عیسیٰu کو اس طرح پیدا کرنے سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اکیلا اللہ ہی تخلیق و تدبیر کا مالک ہے، اور تمام اسباب اس کی مشیت و ارادہ کے تابع ہیں۔ چنانچہ اس سے ان کے قول کی تردید ہی ہوتی ہے تائید نہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مخلوق کا کوئی فرد اللہ کے ساتھ کسی بھی لحاظ سے شریک بننے کا مستحق نہیں۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے آدمuکو بغیر باپ اور بغیر ماں کے پیدا کیا۔ اس سے لازم آتا ہے کہ عیسائی آدمuکے بارے میں بھی وہی عقیدہ رکھیں جو عیسیٰuکے بارے میں رکھتے ہیں۔ اگر مسیحuکو بغیر باپ کے پیدا کرنے کی وجہ سے اللہ کا بیٹا اور معبود قرار دیا جاسکتا ہے تو آدمuکے ماں اورباپ دونوں کے بغیر پیدا ہونے کی وجہ سے ان کے معبود ہونے کا بالاولیٰ دعویٰ کرنا چاہیے، اس لیے اللہ نے فرمایا: ﴿ اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰؔى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ١ؕ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُ٘نْ فَیَكُ٘وْنُ۰۰ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ ﴾ یعنی ہم نے عیسیٰuکے بارے میں جو کچھ بیان فرمایا ہے حق اور اعلیٰ ترین سچائی ہے۔ کیونکہ یہ (رب) ’’پالنے والے‘‘ کی طرف سے ہے، آپ کے لیے اور آپ کی امت کے لیے خصوصی تربیت میں اس کے بیان کردہ یہ انبیاء کرام کے واقعات بھی ہیں۔ ﴿ فَلَا تَكُ٘نْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ ﴾ ’’پس آپ شک کرنے والوںمیں سے نہ ہوں‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو کچھ بتایا ہے اس میں شک نہ کیجیے گا۔ اس میں اور اس کے بعد والی آیت سے ایک اہم قاعدہ و قانون ثابت ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ عقیدہ یا عمل سے تعلق رکھنے والا جو مسئلہ دلائل سے ثابت ہوجائے تو اس کے خلاف ہر قول کے بارے میں یہ پختہ یقین ہونا چاہیے کہ وہ باطل ہے۔ اس پر جو بھی شبہ وارد کیا جائے، وہ غلط ہے۔ خواہ بندہ اس کا جواب تلاش کرسکے یا نہ کرسکے۔ شبہ کا جواب نہ دے سکنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ یقینی بات قابل تنقید ہے۔ کیونکہ حق کے خلاف ہر بات باطل ہی ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰ٘لُ ﴾ (یونس:10؍32) ’’حق کے بعد سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں‘‘ اس شرعی قاعدہ کی مدد سے انسان کے وہ بہت سے اشکال حل ہوجاتے ہیں جو اہل کلام اور اہل منطق کی طرف سے پیش کیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی انسان ان کا جواب دے سکتا ہے تو وہ ایک زائد نیکی ہوگی۔ ورنہ اس کا اصل فرض یہی ہے کہ دلائل کے ساتھ حق کو واضح کرے اور اس کی طرف دعوت دے۔ آیات کا مطلب یہ ہے ﴿ فَ٘مَنْ حَآجَّكَ ﴾ کہ اے محمد(e)جو شخص عیسیٰuکے بارے میں آپ سے بحث کرتا ہے اور انھیں ان کے اصل مقام سے بڑھاتے ہوئے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ان کا مقام عبودیت کے مقام سے بلند تر ہے۔ حالانکہ ﴿ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ﴾ آپ کے پاس یقینی علم آچکا ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اور آپ نے ایسے شخص کے لیے دلائل کے ساتھ واضح کردیا ہے کہ عیسیٰuاللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ بندے ہیں تو ثابت ہوجاتا ہے کہ آپ کی اتباع کرکے ایسے یقینی علم کو نہ ماننے والا عناد میں مبتلا ہے۔ لہٰذا اس سے بحث و مباحثہ کرنے میں نہ آپ کو کوئی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے، نہ اس کو۔ کیونکہ حق واضح ہوچکا ہے۔ لہٰذا اس کی بحث محض اللہ اور رسول کی مخالفت اور ضد کی بنا پر ہے۔ اس کا مقصد اپنے نفس کی خواہش کے پیچھے چلنا ہے، حق کی اتباع نہیں ۔ ایسے شخص کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا، اس لیے اللہ نے نبیeکو حکم دیا کہ اس سے مباہلہ اور ملاعنہ کریں۔ یعنی دونوں فریق اللہ کے سامنے عجز و نیاز کے ساتھ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جھوٹے فریق پر اپنی لعنت اور عذاب نازل کرے۔ اس میں فریقین خود بھی، اور ان کے سب سے پیارے افراد یعنی بیویاں اور اولاد وغیرہ بھی شریک ہوں۔ نبیeنے انھیں اس کی دعوت دی تو انھوں نے یہ چیلنج قبول کرنے سے انکار کردیا۔ کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ اگر مباہلہ کیا تو انھیں فوری سزا ملے گی اور ان کے اہل و عیال ہلاک ہوجائیں گے۔ وہ اپنے دین پر قائم رہے حالانکہ انھیں معلوم تھا کہ یہ باطل ہے۔ یہ انتہائی درجے کا عناد اور فساد ہے، اس لیے اللہ نے فرمایا: ﴿ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِالْمُفْسِدِیْنَ﴾ ’’پھر بھی اگر قبول نہ کریں تو اللہ ہی صحیح طورپر فسادیوں کو جاننے والا ہے‘‘ وہ انھیں سخت ترین سزا دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّ هٰؔذَا لَهُوَ الْ٘قَ٘صَ٘صُ الْحَقُّ ﴾ ’’یقینا ًصرف یہی سچابیان ہے‘‘ یعنی جو کچھ اللہ نے بیان کیا ہے وہی حق ہے۔ اس کے خلاف ہر چیز باطل ہے۔ ﴿ وَمَا مِنْ اِلٰ٘هٍ اِلَّا اللّٰهُ ﴾ ’’اور کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ کے‘‘ اس کے سوا کسی کی عبادت درست نہیں، کوئی اور ذرہ برابر عبادت کا بھی حق نہیں رکھتا۔ ﴿ وَاِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ الْ٘عَزِیْزُ الْحَؔكِیْمُ ﴾ ’’بے شک اللہ ہی غالب اور حکمت والا ہے‘‘ وہ ہر چیز پر غالب ہے اور ہر چیز اس کے سامنے سرنگوں ہے۔ وہ حکمت والا ہے جو ہر چیز کو صحیح مقام پر رکھتا ہے۔ کافروں کے ذریعے سے مومنوں کی آزمائش میں بھی اس کی حکمت کاملہ موجود ہے۔ جن سے مومن قولی اور عملی طورپر جہاد اور قتال کرتے رہتے ہیں۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [63-
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF