Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
33
SuraName
تفسیر سورۂ اَحزاب
SegmentID
1222
SegmentHeader
AyatText
{49} يخبر تعالى المؤمنين أنَّهم إذا نكحوا المؤمنات ثم طلَّقوهنَّ من قبل أن يَمَسُّوهنَّ؛ فليس عليهنَّ في ذلك عدَّةٌ يعتدُّها أزواجهنَّ عليهن، وأمرهم بتمتيعهنَّ بهذه الحالة بشيء من متاع الدُّنيا الذي يكون فيه جبرٌ لخواطرهنَّ لأجل فراقهنَّ، وأن يفارِقوهنَّ فراقاً جميلاً من غير مخاصمةٍ ولا مشاتمةٍ ولا مطالبةٍ ولا غير ذلك. ويستدلُّ بهذه الآية على أنَّ الطلاق لا يكونُ إلاَّ بعد النكاح، فلو طلَّقها قبل أن ينكحَها أو علَّق طلاقَها على نكاحها؛ لم يقع؛ لقوله: {إذا نَكَحْتُمُ المؤمناتِ ثم طلَّقْتُموهنَّ}، فجعل الطلاق بعد النكاح، فدل على أنَّه قبل ذلك لا محلَّ له. وإذا كان الطلاق الذي هو فرقةٌ تامةٌ وتحريمٌ تامٌّ لا يقع قبل النكاح؛ فالتحريمُ الناقص لظهارٍ أو إيلاءٍ ونحوه من باب أولى وأحرى أن لا يقعَ قبل النكاح؛ كما هو أصحُّ قولي العلماء. و [يدل] على جواز الطلاق لأنَّ الله أخبر به عن المؤمنين على وجهٍ لم يلُمهم عليه، ولم يؤنِّبهم مع تصدير الآية بخطاب المؤمنين. وعلى جوازه قبل المسيس؛ كما قال في الآية الأخرى: {لا جُناحَ عليكم إن طَلَّقْتُمُ النساءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهنَّ}. وعلى أنَّ المطلقة قبل الدخول لا عدَّةَ لها، بل بمجرَّدِ طلاقِها يجوزُ لها التزوجُ حيث لا مانعَ. وعلى أنَّ عليها العدَّة بعد الدُّخول. وهل المراد بالدخول والمسيس الوطءُ كما هو مجمعٌ عليه أو وكذلك الخلوة ولو لم يحصُلْ معها وطءٌ كما أفتى بذلك الخلفاءُ الراشدون، وهو الصحيح؛ فمتى دَخَلَ عليها وطئها أم لا، إذا خلا بها، وجب عليها العِدَّة. وعلى أنَّ المطلقة قبل المسيس تُمتَّع على الموسع قدره وعلى المُقْتِرِ قدرُهُ، ولكن هذا إذا لم يفرض لها مهرٌ؛ فإنْ كان لها مهرٌ مفروضٌ؛ فإنَّه إذا طَلَّقَ قبل الدُّخول؛ تَنَصَّفَ المهر، وكفى عن المتعة. وعلى أنه ينبغي لمن فارق زوجته قبل الدُّخول أو بعده أن يكون الفراقُ جميلاً يَحمدُ فيه كلٌّ منهما الآخر، ولا يكون غيرَ جميل؛ فإنَّ في ذلك من الشرِّ المترتِّب عليه من قدح كلٍّ منهما بالآخر شيء كثير. وعلى أن العدَّة حقٌّ للزوج؛ لقوله: {فما لكم عليهن من عدَّةٍ}: دلَّ مفهومُه أنّه لو طلَّقها بعد المسيس؛ كان له عليها عدة. وعلى أنَّ المفارقة بالوفاة تعتدُّ مطلقاً؛ لقوله: {ثم طلَّقْتُموهنَّ ... } الآية. وعلى أنَّ مَن عدا غير المدخول بها من المفارَقات من الزوجات بموتٍ أو حياةٍ عليهنَّ العدة.
AyatMeaning
[49] اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو آگاہ فرماتا ہے کہ جب وہ مومن عورتوں کے ساتھ نکاح کریں، پھر ان کو چھوئے بغیر طلاق دے دیں تو اس صورت میں مطلقہ عورتوں پر کوئی عدت نہیں، مگر اللہ مردوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس صورت میں بھی ان کو کچھ متاع دیں جو ان کی اس دل شکنی کا ازالہ کرے گی جو انھیں طلاق کی وجہ سے لاحق ہوئی ہے، نیز انھیں حکم دیتا ہے کہ وہ کسی مخاصمت، گالی گلوچ اور کسی مطالبہ وغیرہ کے بغیر اچھے طریقے سے ان کو علیحدہ کریں۔ اس آیت مبارکہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ طلاق صرف نکاح کے بعد ہوتی ہے اگر کوئی شخص نکاح سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کو طلاق دے دے یا طلاق کو نکاح پر معلق کر دے، تو یہ طلاق واقع نہیں ہو گی، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿اِذَا نَؔكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْ٘تُمُوْهُنَّ﴾ (الاحزاب:33؍49) ’’جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو ، پھر ان کو طلاق دے دو۔‘‘ یہاں اللہ تعالیٰ نے طلاق کو نکاح کے بعد مقرر فرمایا ہے۔ پس یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ نکاح سے قبل طلاق کا کوئی مقام نہیں، چونکہ طلاق ایک مکمل جدائی اور مکمل تحریم ہے اس لیے نکاح سے قبل واقع نہیں ہو سکتی، جب یہ بات ہے تو ظہار یا ایلا وغیرہ کا، جو کہ تحریم ناقص ہے، نکاح سے قبل واقع نہ ہونا تو زیادہ اولیٰ ہے جیسا کہ اہل علم کی صحیح ترین رائے ہے۔ یہ آیت کریمہ طلاق کے جواز پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل ایمان کی طلاق کے بارے میں خبر دی، اس پر ان کو کوئی ملامت کی نہ ان پر کوئی گرفت کی، حالانکہ آیت کریمہ اہل ایمان سے خطاب کے ساتھ صادر ہوئی ہے۔ یہ آیت کریمہ اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ بیوی کو چھوئے بغیر طلاق دی جا سکتی ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں فرمایا: ﴿لَاجُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْهُنَّ ﴾ (البقرۃ:2؍236) ’’تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم اپنی بیویوں کو چھوئے بغیر طلاق دے دو۔‘‘ یہ آیت کریمہ اس پر دلیل ہے کہ اگر عورت کو دخول سے قبل طلاق دے دی جائے تو اس پر مجرد طلاق کی بنا پر عدت واجب نہیں ہوتی۔ اس کے لیے دوسرا نکاح کرنا جائز ہے، کیونکہ کوئی مانع موجود نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ دخول اور چھونے کے بعد طلاق دینے سے عدت واجب ہو جاتی ہے۔ کیا ’’دخول‘‘ اور ’’چھونے‘‘ سے مراد مجامعت ہے جیسا کہ اس پر تو اجماع ہے؟ یا خلوت کا بھی یہی حکم ہے خواہ اس میں مجامعت نہ ہوئی ہو جیسا کہ خلفائے راشدین کا فتویٰ ہے اور یہی صحیح ہے۔ جب بیوی کے ساتھ خلوت حاصل ہو گئی خواہ اس خلوت میں مجامعت ہوئی یا نہ ہوئی مجرد اس خلوت کی بنا پر عدت واجب ہو گی۔(خلوت کومعتبر قرار دینے کا مذہب جمہور علماء کا ہے اور راحج بھی یہی ہے جیسا کہ مؤلفa نے وضاحت کی ہے۔ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ خلوت ہوئی اور پھر مشاجرت ہوئی لیکن کسی یقینی ذریعے سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مجامعت نہیں ہوئی تو عدت نہیں ہوگی) اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر چھونے سے قبل عورت کو طلاق دے دی جائے، تو خوش حال خاوند پر اس کی حیثیت کے مطابق اور تنگ دست خاوند پر اس کی حیثیت کے مطابق اس مطلقہ بیوی کو ’’متاع‘‘ دینا واجب ہے۔ مگر یہ اس صورت میں ہے جب مہر مقرر نہ کیا گیا ہو اور اگر مہر مقرر کر دیا گیا ہو اور چھونے سے قبل بیوی کو طلاق دے دی گئی ہو تو نصف مہر کی ادائیگی واجب ہے، تب یہ مہر ’’متاع‘‘ کے بدل میں بھی کفایت کرتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جو کوئی اپنی بیوی کو دخول سے قبل یا بعد میں طلاق دیتا ہے تو اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ نہایت اچھے اور بھلے طریقے سے طلاق دے کہ دونوں ایک دوسرے کی تعریف کریں۔ اگر دونوں ایک دوسرے میں جرح وقدح کریں اور ایک دوسرے میں کیڑے نکالیں تو یہ جدائی ’’بھلے طریقے‘‘ سے جدائی نہیں ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ عدت خاوند کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿فَمَا لَكُمْ عَلَ٘یْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ ﴾ ’’تو ان پر تمھارا کوئی حق عدت نہیں ہے۔‘‘ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ اگر خلوت کے بعد طلاق دی ہوتی تو خاوند کے حق میں عورت پر عدت واجب تھی۔ آیت کریمہ اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر مفارقت خاوند کی وفات کے باعث ہو تو وہ مطلق طور پر عدت گزارے گی۔ جیسا کہ آیت کریمہ ﴿ثُمَّ طَلَّقْ٘تُمُوْهُنَّ ﴾ ’’ پھر تم ان کو طلاق دو۔‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ اس بیوی کے علاوہ جس کے ساتھ خلوت نہ ہوئی ہو، دیگر بیویوں پر عدت واجب ہے، خواہ وہ خاوند کی موت کی صورت میں مفارقت ہوئی ہو یا اس کی زندگی میں کسی وجہ سے مفارقت ہوئی ہو۔
Vocabulary
AyatSummary
[49]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List