Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
30
SuraName
تفسیر سورۂ روم
SegmentID
1158
SegmentHeader
AyatText
{7} وهؤلاء الذين لا يعلمون؛ أي: لا يعلمون بواطن الأشياء وعواقِبَها، وإنَّما {يعلمونَ ظاهراً من الحياة الدُّنيا}: فينظرون إلى الأسباب، ويجزمون بوقوع الأمر الذي في رأيهم انعقدتْ أسباب وجودِهِ، ويتيقَّنون عدم الأمر الذي لم يشاهِدوا له من الأسباب المقتضية لوجودِهِ شيئاً؛ فهم واقفون مع الأسباب، غيرُ ناظرين إلى مسبِّبها المتصرف فيها. {وهم عن الآخرةِ هم غافلونَ}: قد توجَّهت قلوبُهم وأهواؤهم وإراداتهم إلى الدنيا وشهواتِها وحطامِها؛ فعملتْ لها وسعتْ وأقبلتْ بها وأدبرتْ، وغفلت عن الآخرة؛ فلا الجنة تشتاقُ إليها، ولا النار تخافها وتخشاها، ولا المقام بين يدي الله ولقائه يروِّعُها ويزعِجُها، وهذا علامة الشقاء، وعنوانه الغفلة عن الآخرة. ومن العجبِ أنَّ هذا القسم من الناس قد بلغتْ بكثيرٍ منهم الفطنةُ والذكاءُ في ظاهر الدُّنيا إلى أمرٍ يحيِّر العقول ويدهش الألباب، وأظهروا من العجائِب الذَّرِّيَّةِ والكهربائيةِ والمراكب البريَّة والبحريَّة والهوائيَّة ما فاقوا به، وبرَّزوا وأعجبوا بعقولهم، ورأوا غيرهم عاجزاً عما أقدرهم اللهُ عليه، فنظروا إليهم بعين الاحتقار والازدراء، وهم مع ذلك أبلد الناس في أمرِ دينهم، وأشدُّهم غفلةً عن آخرتهم، وأقلُّهم معرفة بالعواقب. قد رآهم أهل البصائرِ النافذةِ في جهلهم يتخبَّطون، وفي ضلالهم يَعْمَهون، وفي باطِلِهم يتردَّدون، نسوا الله فأنساهم أنفسهم، أولئك هم الفاسقون، ثم نظروا إلى ما أعطاهم الله وأقدرهم عليه من الأفكار الدقيقة في الدنيا وظاهرها، وحرموا من العقل العالي، فعرفوا أنَّ الأمر لله والحكم له في عبادِهِ، إنْ هو إلا توفيقُه أو خذلانُه، فخافوا ربهم وسألوه أن يتمَّ لهم ما وهبهم من نور العقول والإيمان حتى يصلوا إليه ويحلُّوا بساحته. وهذه الأمور لو قارنها الإيمان وبُنِيَتْ عليه؛ لأثمرت الرقيَّ العالي والحياة الطيبة، ولكنها لما بُني كثيرٌ منها على الإلحاد؛ لم تثمر إلا هبوط الأخلاق وأسباب الفناء والتدمير.
AyatMeaning
[7] یہ وہ لوگ ہیں جو علم نہیں رکھتے یعنی جو اشیاء کے اسرار نہاں اور ان کے عواقب کو نہیں جانتے۔﴿یَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَیٰؔوةِ الدُّنْیَا ﴾ ’’وہ تو صرف دنیاوی زندگی کے ظاہر کو دیکھ سکتے ہیں۔‘‘ یہ لوگ صرف اسباب پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ ان واقعات کے وقوع پذیر ہونے پر حتمی یقین رکھتے ہیں جن کے اسباب ان کی رائے کے مطابق پورے ہوچکے ہوں اور اگر انھوں نے ان اسباب کا مشاہدہ نہ کیا ہو جوان واقعات کے وقوع کا تقاضا کرتے ہیں تو وہ ان کے عدم وقوع پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ پس یہ لوگ اسباب کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہیں ان کی نظر مسبب الاسباب پر نہیں جو ان اسباب میں تصرف کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ ﴿وَهُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ ﴾ ’’اور وہ آخرت سے غافل ہیں۔‘‘ ان کے دل، ان کی خواہشات اور ان کے ارادے، دنیا اور دنیا کی شہوات اور اس کے چند ٹکڑوں پر مرتکز ہیں۔ ان کے ارادے اور خواہشات اس دنیا کے لیے کام کرتے ہیں، اسی کے لیے کوشاں ،اسی کی طرف متوجہ اور آخرت سے غافل ہیں۔ ان کے سامنے کوئی جنت نہیں جس کا انھیں اشتیاق ہو، ان کے سامنے کوئی جہنم نہیں جس کا انھیں خوف ہو اور نہ اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کے لیے کھڑے ہونے کا تصور ہے، جس سے یہ ڈر کر کانپ اٹھتے ہوں۔ یہ بدبختی کی علامت اور آخرت سے غفلت کا عنوان ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ اس گروہ کے لوگ اس ظاہری دنیا میں ذہانت اور فطانت کے اس درجے تک پہنچے ہوئے ہیں جس سے عقل حیران اور دہشت زدہ ہو جاتی ہے۔ ان کے ہاتھوں برقی اور جوہری عجائبات ظاہر ہوئے، انھوں نے بری، بحری اورفضائی سواریاں ایجاد کیں، وہ اپنی عقل کی مدد سے سب پر فوقیت لے گئے اور اپنی عقل کے ذریعے سے لوگوں کو حیران کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں وہ قدرت عطا کی جس کے سامنے دیگر لوگ عاجز تھے۔ پس انھوں نے دوسروں کو نہایت حقارت کی نظر سے دیکھا حالانکہ وہ خود اپنے دین کے معاملے میں سب سے زیادہ کند ذہن، اپنی آخرت کے بارے میں سب سے زیاہ غافل اور اپنی عاقبت کے بارے میں سب سے کم علم رکھتے ہیں۔ اہل بصیرت کی رائے ہے کہ وہ اپنی جہالت میں پاگل، اپنی گمراہی میں سرگرداں اور اپنے باطل میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کو فراموش کر دیا جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو بھلا دیا۔ درحقیقت یہی لوگ نافرمان ہیں۔ اگر وہ ان صلاحیتوں پر غور کریں جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بہرہ ور کیا ہے اور اس ظاہری دنیا میں انھیں دقیق افکار سے نوازا، پھر غور کریں کہ انھوں نے اپنے آپ کو عقل عالی سے محروم کیا، تو انھیں معلوم ہو جائے گا کہ تمام معاملہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے، اس کے بندوں میں اسی کا حکم جاری ہے اور یہ سب اس کی توفیق یا عدم توفیق کا معاملہ ہے تو وہ اپنے رب سے ڈرنے لگیں اور اس سے دعا کریں کہ وہ ان کی عقل اور ایمان کی تکمیل کرے جو اس نے ان کو عطا کی ہے حتیٰ کہ وہ اس کے پاس پہنچ جائیں اور اس کے جوار میں نازل ہوجائیں۔ اگر یہ صلاحیتیں ایمان کے ساتھ مقرون ہوتیں اور ان کی بنیاد ایمان پر اٹھائی گئی ہوتی تو ترقی کے ساتھ ساتھ پاک صاف زندگی اس کا ثمرہ ہوتی مگر چونکہ ان کی بہت سی صلاحیتیں الحاد پر مبنی ہیں اس لیے ان کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں۔
Vocabulary
AyatSummary
[7]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List