Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 28
- SuraName
- تفسیر سورۂ قصص
- SegmentID
- 1116
- SegmentHeader
- AyatText
- {28} فَـ {قَالَ} موسى عليه السلام مجيباً له فيما طلب منه: {ذلك بيني وبينَكَ}؛ أي: هذا الشرط الذي أنت ذكرتَ رضيتُ به، وقد تمَّ فيما بيني وبينك، {أيَّما الأجلينِ قضيتُ فلا عُدوانَ عليَّ}: سواء قضيتُ الثمان الواجبة أم تبرَّعْتُ بالزائد عليها، {والله على ما نَقولُ وكيلٌ}: حافظٌ يراقِبُنا ويعلم ما تعاقدنا عليه. وهذا الرجلُ أبو المرأتينِ صاحبُ مدينَ ليس بشعيب النبيِّ المعروف كما اشْتُهِرَ عند كثيرٍ من الناس؛ فإنَّ هذا قولٌ لم يدلَّ عليه دليلٌ ، وغايةُ ما يكون أن شعيباً عليه السلام قد كانت بلدُهُ مدينَ، وهذه القضيةُ جرتْ في مدينَ؛ فأين الملازمة بين الأمرين؟! وأيضاً؛ فإنَّه غير معلوم أن موسى أدركَ زمانَ شعيبٍ؛ فكيف بشخصِهِ؟! ولو كان ذلك الرجلُ شعيباً؛ لذكره الله تعالى، ولسمَّتْه المرأتان. وأيضاً؛ فإنَّ شعيباً عليه الصلاة والسلام قد أهلك الله قومَه بتكذيِبِهم إيَّاه، ولم يبقَ إلاَّ مَنْ آمن به، وقد أعاذ الله المؤمنينَ به أن يرضَوْا لبنتي نبيِّهم بمنعهما عن الماء وصدِّ ماشيتهما حتى يأتِيَهُما رجلٌ غريبٌ فيحسِنُ إليهما ويسقي ماشيتهما، وما كان شعيبٌ ليرضى أن يرعى موسى عنده ويكون خادماً له وهو أفضلُ منه وأعلى درجةً؛ إلاَّ أنْ يُقال: هذا قبل نبوَّة موسى؛ فلا منافاة. وعلى كلِّ حال؛ لا يُعْتَمَدُ على أنَّه شعيبٌ النبيُّ بغير نقل صحيح عن النبي - صلى الله عليه وسلم -. والله أعلم.
- AyatMeaning
- [28] ﴿ قَالَ ﴾ موسیٰu نے صاحب مدین کی شرائط اور اس کا مطالبہ قبول کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ ذٰلِكَ بَیْنِیْ وَبَیْنَكَ﴾ یعنی وہ شرط جس کا آپ نے ذکر کیا ہے مجھے منظور ہے میرے اور آپ کے درمیان معاہدہ پکا ہے۔ ﴿ اَیَّمَا الْاَجَلَیْ٘نِ قَضَیْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَیَّ﴾ ’’میں دونوں مدتوں میں سے جوبھی مدت پوری کروں تو مجھ پر زیادتی نہ ہو۔‘‘ خواہ میں آٹھ (سال) پورے کروں جن کو پورا کرنا واجب ہے یا عطیہ کے طور پر آٹھ سال سے زائد کام کروں ۔ ﴿ وَاللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَؔكِیْلٌ﴾ ’’اور ہم جو معاہدہ کرتے ہیں اللہ اس کا گواہ ہے۔‘‘ یعنی حفاظت کرنے والا اور نگہبانی کرنے والا ہے وہ جانتا ہے کہ ہم نے کیا معاہدہ کیا ہوا ہے۔ مذکورہ شخص، ان دو عورتوں کا والد اور صاحب مدین، وہ شعیب نہیں جو معروف نبی ہیں جیسا کہ بہت سے لوگوں کے ہاں مشہور ہے۔ یہ ایک ایسا قول ہے جس پر کوئی دلیل نہیں ۔ اس ضمن میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شعیبu کا شہر بھی مدین ہی تھا اور یہ واقعہ بھی مدین ہی میں پیش آیا … دونوں امور میں تلازم کیونکر واقع ہو گیا؟ نیز یہ بھی یقینی طور پر معلوم نہیں کہ آیا موسیٰu نے شعیبu کا زمانہ پایا ہے یا نہیں ان کا شعیبu سے ملاقات کرنا کیونکر معلوم ہو سکتا ہے؟ اگر وہ شخص، شعیبu ہی ہوتے تو اللہ تعالیٰ اس کا ذکر ضرور فرماتا اور وہ خواتین بھی اس بات کا ذکر کرتیں ۔ نیز شعیبu کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے ان کی تکذیب کی پاداش میں ہلاک کر ڈالا تھا، ان میں سے صرف وہی لوگ باقی بچے تھے جو ایمان لے آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس بات اپنی پناہ میں رکھا ہے کہ وہ اپنے نبی کی دو بیٹیوں کو پانی سے محروم کرنے اور ان کے مویشیوں کو پانی سے روکنے پر راضی ہوں یہاں تک کہ ایک اجنبی شخص آئے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے ان کے مویشیوں کو پانی پلا دے۔ خود حضرت شعیب بھی اس پر راضی نہیں ہو سکتے تھے کہ موسیٰu ان کی بکریاں چرائیں اور ان کے پاس خادم بن کر رہیں حالانکہ موسیٰu شعیبu سے افضل اور بلندتر درجے پر فائز تھے … البتہ اگر یہ واقعہ موسیٰu کی نبوت سے پہلے کا ہے تب اس میں کوئی منافات نہیں ۔ بہرحال رسول اللہ e سے روایت صحیحہ کے بغیر اس قول پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ شخص مذکور شعیب نبی تھے۔ واللہ اعلم۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [28]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF